بہت بڑا مغالطہ
پانامہ لیکس کے حوالے سے حکومتی اداروں کی جانب سے جو بہت بڑا مغالطہ پھیلایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اسے ایک عام فوجداری کیس کی صورت میں پیش کیا جا رہا ہے ‘حالانکہ ایسا ہے قطعاً نہیں کیوں کہ فوجداری مقدمے کا اصول یہ ہے کہ ملزم کو اس وقت تک بے گناہ سمجھا جائے جب تک کہ اسے گناہگار ثابت نہ کر دیا جائے جبکہ یہاں اصول یہ لاگو ہو گا کہ الزام علیہ اس وقت تک مجرم ہے جب تک وہ اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر دیتا کیونکہ اس مقدمے میں پراسیکیوشن تو ہے ہی نہیں‘ کہ وہ پہلے ہی ہو چکی ہے ثبوت سمیت‘ اور پراسیکیوشن کے کرنے کا اب کام ہی کون سا رہ گیا ہے ‘علاوہ ازیں‘ جب آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک جائداد کا وجود بھی تسلیم کیا جا چکا ہے تو اب الزام الیہ کا کام ہے وہ دستاویزات سے ثابت کرے کہ ان مقاصد کے لیے جو سرمایہ باہر بھیجا گیا‘ وہ کرپشن کا نہیں تھا‘ جائز طریقے سے باہر بھیجا گیا تھا‘ اس پر ٹیکس ادا کیا گیا‘ الیکشن کمیشن کے سامنے اس کا اقرار کیا گیا‘ اور یہ کہ آف شور کمپنیوں کا مقصد ٹیکس چوری نہیں تھا۔ ہیں جی؟
جوڈیشل کمیشن ؟
جوڈیشل کمیشن کا اعلان کر کے اطمینان اور خوشی کے جو شادیانے بجائے جا رہے ہیں وہ ایک خود فریبی بھی ہے اور دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش بھی‘ کیونکہ خود حکومت کو بھی یہ یقین تھا کہ چیف جسٹس کم از کم موجودہ صورت میں یہ ذمہ داری کبھی قبول نہیں کریں گے جبکہ صاحب موصوف پہلے خود بھی کہہ چکے ہیں کہ عدلیہ پر پہلے ہی مقدمات کی بھر مار ہے‘ یہ حکومت کا کام ہے کہ عدلیہ کے پاس اس کا وقت ہی نہیں ہے مزید برآں ٹرمز آف ریفرنس کی اس مضحکہ خیز صورت حال کے پیش نظر ایک انتہائی معزز آدمی اپنی عزت کو کیوں خطرے میں ڈالے گا جبکہ سینیٹ کمیٹی کو پیش کی گئی سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بھی پانامہ لیکس میں درج غلط کاریوں کو ثابت کرنا بے حد مشکل ہو گا۔ نیز ان ضابطوں میں متعدد ایسے خلاء دانستہ چھوڑے گئے ہیں کہ یہ بجائے خود ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں اور اس کام کو 1947ء سے آغاز کر دینے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سالہا سال تک وزیر اعظم اور اس کے خاندان کی باری ہی نہ آئے۔ ان حالات میں اس بات کا امکان صفر کے برابر رہ جاتا ہے کہ چیف جسٹس یہ انتہائی مزاحیہ قسم کی پیشکش قبول کر لیں گے۔
کوئی ہے پوچھنے والا؟
کہاگیا ہے کہ آئی سی آئی جے نے اپنی رپورٹ میں وزیر اعظم کا نام دینے کی غلطی تسلیم کر کے معافی مانگ لی ہے حالانکہ اس ادارے نے اس کی تردید کر دی ہے کہ اس نے معافی مانگی ہے۔ اس حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کی سختی سے تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کا نام بچوں کے حوالے سے دیا‘ واپس نہیں لیا اور اس طرح قوم کا اربوں روپیہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کی ذاتی صفائی دینے کے لیے خرچ کیا گیا جبکہ حکومت کی جانب سے اختیار کیا گیا مؤقف ہی غلط اور خود ساختہ تھا‘ یعنی یک نہ شُد ‘ دو شُد ۔ اور‘ اس طرح قومی خزانے کے خرچ پر مشہوریوں کا سلسلہ پانامہ لیکس کے آغاز ہی سے جاری کر دیا گیا تھا۔ یہاں کوئی ہے کسی کو پوچھنے والا...؟
چند روز اور‘ فقط چند ہی روز...
اوّل تو پانامہ لیکس تک پہنچنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور ''کم‘‘ پہلے ہی''پے‘‘ جائے گا ایک تو نیب نے روایتی سست روی چھوڑ کر ‘ طوعاً و کرہاً ہی سہی‘ تیزی پکڑ لی ہے اور اپنے طور پر بھی ان لیکس پر تحقیقات کرنے والی ہے‘ اس کے علاوہ غلام رسول چھوٹو نے جو انکشافات کیے ہیں‘ ان پر پیش رفت اور کراچی میں بھی بعض متوقع اہم گرفتاریوں نے اپنا رنگ دکھانا ہے جبکہ جوڈیشل کمیشن بھی چیف جسٹس کی بیرون ملک سے واپسی پر اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور متبادلات پر پیش رفت شروع ہو جائے گی اور پارلیمنٹ کو بھی اپنا ممکنہ کردار ادا کرنا پڑے گا۔ حکومت نے ویسے بھی وزیر قانون کی زبانی یہ کہہ دیا ہے کہ ٹرمز آف ریفرنس میں تبدیلی نہیں ہو گی جبکہ سپریم کورٹ بار اپنے طور پر بھی سرگرم ہے۔ اور اگر کوئی قابل ذکر اور قابلِ قبول پیش رفت نہ ہوئی تو اس کے ردِ عمل میں ایک عوامی تحریک کا امکان بھی ردّ نہیں کیا جا سکتا‘ یعنی ع
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
ایک شریف آدمی کی مشکل
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید صاحب مصدّقہ طور پر ایک
بے داغ اور شریف آدمی ہیں اور انہیں دن رات حکومت کے دفاع اور حمایت میں اتنا جھوٹ بولنا پڑ رہا ہے کہ ان پر ترس آتا ہے جبکہ حکومت کی طرف سے اس طرح کی قطع رحمی پر جہاں افسوس ہوتا ہے وہاں اس بات پر حیرت بھی کہ جھوٹ بول بول کر صاحب موصوف کا اب تک دماغ کیوں نہیں چل گیا۔ اگرچہ حضرات اسحق ڈار اور خواجہ سعد رفیق بھی اس کام میں ان کی مدد کرتے نظر آتے ہیں جو کہ آٹے میں نمک کے برابر ہے کیونکہ اس گناہ کے بوجھ سے کمر پرویز رشید صاحب ہی کی جُھکی نظر آتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ پیشتر اس کے کہ ان کی صحت کو کوئی ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے‘ کچھ عرصہ کے لیے رخصت پر چلے جائیں کیونکہ حکومت پر ابھی مزید سخت مرحلے گزرنے والے ہیں یا حکومت کو چاہیے کہ ان پر ترس کھاتے ہوئے انہیں ذرا سانس لینے کا موقع دے کیونکہ اگر اس کی ٹیم میں ایک آدھ دیانتدار آدمی باقی رہ ہی گیا ہے تو اُسے اس طرح ضائع نہ کرے ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
آج کا مقطع
ایک اُلجھن میں پڑے رہتے ہیں دن رات‘ ظفر
اور اس کام سے رخصت بھی نہیں چاہتے ہم