پہلے بھی انہی کالموں میں عرض کیا جا چکا ہے کہ ٹی او آرز کا مخمصہ جس حالت کو پہنچ چکا ہے‘ چیف جسٹس سے ہزگز امید نہ رکھی جائے کہ وہ حکومت کے خط کا مثبت جواب دینے کی پوزیشن میں ہوںگے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ حکومت اس معاملے کو جہاں تک ممکن ہو لٹکانا چاہتی ہے کیونکہ اسے اور کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا۔ سپریم کورٹ کی صورت حال یہ ہے کہ خود بقول چیف جسٹس‘ عدالت میں مقدمات کی اس قدر بھرمار ہے کہ وہ کوئی اور کام کرنے کی تاب ہی نہیں رکھتی۔ اوپر سے حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تعداد میں اضافہ کرنے سے بھی صاف انکار کر دیا ہے۔
ملک میں سرطان کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن کا رونا رونے والوں میں خود چیف جسٹس پیش پیش ہیں اور یہ بات اندھوں کو بھی نظر آ رہی ہے کہ حکومت بلکہ اپوزیشن جماعتوں کی مساعی کرپشن کو ختم کرنے کی بجائے اسے بچانے پر مرکوز ہیں کیونکہ اس حمام میں سارے ننگے ہیں اور کوئی بھی اس شکنجے میں پھنسنے کو تیار نہیں ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جن حضرات پر کرپشن کے سب سے زیادہ الزامات ہیں وہ کرپشن کے خلاف بیانات دینے میں سب سے آگے ہیں اور ایک مشہور مقولے کے مطابق بار بار اور اتنا جھوٹ بولا جا رہا ہے کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگ جائیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان سب سے پہلے آدمی ہوں گے جو صدق دل سے کرپشن ختم کرنا چاہتے ہوں گے کیونکہ اس ضمن میں ان کی آہ و بکا اور بیانات کا تسلسل یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن اس کے باوجود اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ وہ اس جوڈیشل کمیشن کی سربراہی قبول کرنے پر تیار ہو جائیں گے، جس کا مقصد ہی معاملات کو روز قیامت تک لٹکائے رکھنا ہے جبکہ وہ خود دسمبر میں اپنی خدمات سے سبکدوش ہو رہے ہیں اور اگر یہ کمیشن قائم ہو بھی گیا تو اس کی طوالت کے پیش نظر ان کی جگہ لینے والے چیف جسٹس بھی اس دلدل میں دھنس جائیں گے اور پھر چل سو چل۔
آرمی چیف نے وزیر اعظم کے ساتھ اپنی تازہ ملاقات میں یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ پاناما لیکس کا معاملہ جلداز جلد نمٹایا جانا چاہیے کیونکہ اس سے ملکی سلامتی تک خطرے میں ہے۔ اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ اس معاملے پر آرمی چیف کی طرف سے کیا کہا جا سکتا ہے جبکہ کئی لحاظ سے ملکی سلامتی کی ذمہ داری خدا کے بعد صرف اور صرف آرمی چیف کی ہے کیونکہ حکومت کا کام صرف حکومت کرنا ہے اور ملک کو اس نے کافی عرصہ پہلے سے خدا کے سپرد کر رکھا ہے!
جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو اس میں سب سے بڑی جماعت پی پی پی ہے‘ اور صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کا شور شرابا بھی اپنے کام نکلوانے کی حد تک ہے؛ حالانکہ حکومت کے پلّے ہی اب کیا ہے جو وہ پی پی پی کی مدد کر سکے کیونکہ سارا کچھ تو اس کے ہاتھ سے نکل چکا ہے‘ تاہم پیپلز پارٹی اب بھی سمجھتی ہے کہ اگر وہ حکومت کو اکیلا چھوڑ دے تو وہ اپنے انجام کو زیادہ جلدی پہنچ جائے گی اور اس کے فوراً بعد اس کی اپنی باری بھی آ جائے گی‘ حالانکہ اس کی خاطر خدمت کا کام پہلے ہی سے شروع ہو چکا ہے جبکہ نیب بھی مختلف اطراف سے ذرا نئے انداز سے روبہ عمل ہونے جا رہی ہے۔ امید ہے کہ پی پی بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جائے گی کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ زرداری صاحب اپنی روایتی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہی کوئی ڈیل کر کے اپنے لوگوں کے لیے کچھ گنجائش نکالنے کی کوشش کریں کیونکہ موصوف کو اپنے سابقہ بیانات
اچھی طرح سے یاد ہیں اور جس کو ابھی کوئی زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا ہے، یہاں وہ پھر ناکام ہوں گے! اپوزیشن اس لیے بھی پر نہیں مار سکتی کہ ان سب کی فائلیں چوہدری نثار کے پاس موجود ہیں اور وہ جن کا ڈراوا بھی دیتے رہتے ہیں اور جس میں خود قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید علی شاہ بہ نفس نفیس شامل ہیں۔ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ سندھ میں بڑے مگرمچھوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے جس کے بعد اس کا رخ پنجاب کی طرف ہو گا‘ اس لیے بھی زیادہ امکان اسی بات کا ہے کہ کمیشن کی بات بیچ میں ہی رہ جائے گی اور ایسی رونق لگے گی کہ لوگ جوڈیشل کمیشن اور پاناما لیکس کو بھول ہی جائیں گے۔
محمد زبیر صاحب آج ایک پریس کانفرنس میں اس بات کی جگالی کرنے میں مصروف تھے کہ وزیر اعظم کا جب نام ہی لیکس میں نہیں ہے تو ان کے احتساب پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ اگر یہی بات تھی تو خود وزیر اعظم نے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش ہی کیوں کیا تھا۔ نیز‘ اگر لیکس میں صرف ان کے بچوں کے نام ہیں تو بھی سارا بوجھ وزیر اعظم پر ہی ہو گا کہ وہ اس وزیر اعظم کی اولاد ہیں‘ کرپشن کے حوالے سے جن کی شہرت انتہائی خراب چلی آ رہی ہے اور یہ بھی کہ ان کے پاس اتنی کم مدت میں اتنی دولت کہاں سے جمع ہو گئی تھی‘ وغیرہ وغیرہ۔
لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے‘ اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی کہ اس ثابت شدہ جرم پر قوم اور سپریم کورٹ کا قیمتی وقت ضائع ہوتا رہے اور جن لوگوں کے پاس اس مسئلے کا حل واقعی موجود ہے‘ اگر ان کی طرف سے اس سلسلے میں ذرا سی بھی کوتاہی ہو گئی تو وہ وزیر اعظم اور ان سے کہیں بڑھ کر جرم دار ہوں گے اور تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ حکومت اس معاملے کے حل کے سارے راستے خود ہی بند کرتی جا رہی ہے‘ اور یہ حکومت کا احساس جرم ہے جو اسے چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا۔
اور‘ اگر اس کا آخری حل مارشل لاء ہی ہے تو یہ کونسی اچنبھے کی بات ہو گی‘ کیا یہاں یہ کام پہلے کبھی نہیں ہوا؟ اور کیا ملک کو اس جمہوریت پر قربان کر دیا جائے جو بجائے خود جمہوریت کی پیروڈی ہے‘ اور کیا یہ صرف اور صرف زراندوزی اور غربت کے مارے ہوئے لوگوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے کی ایک کھلی واردات نہیں ہے؟ کیونکہ جمہوریت کو بچانے کا مطلب ہے اس دو تین فیصد اشرافیہ کو بچانا جو اس بدنصیب ملک کے وسائل سے جونکوں کی طرح چمٹی ہوئی ہے اور ملکی آبادی کا تیسرا حصہ غربت کی لکیر کے نیچے‘ کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور حکمران طبقہ روز بروز امیر سے امیر ہوتا چلا جا رہا ہے! کیا یہ گند صاف کرنے کا کوئی اور طریقہ بھی ہے؟
آج کا مطلع
شور ہے زیر زمیںچشمہ ابلتا کیوں نہیں
بول اے خاکِ وطن پانی نکلتا کیوں نہیں