"ZIC" (space) message & send to 7575

’’آدمی غنیمت ہے‘‘ از سید انیس شاہ جیلانی

لاہور کا ادبی قُطب
مولانا غلام رسول مہر ایک ماہر سیاستدان تھے۔ پاکستان کس ڈھب سے وجود میں آنا چاہیے‘ اس منصوبے کا خاکہ مرحوم نے اڑایا نہیں‘ بنایا اور سنوارا۔ چونکیے نہیں‘ یقین کر لیجیے‘ یہ واقعہ ہے۔ اصل مسودہ پیر علی محمد راشدی کے ہاں اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ہاں‘ یہ اور بات کہ جونہی پاکستان وجود میں آیا، ہم نے ان کی ذہنی اور عملی صلاحیتوں سے کام لینا غیر ضروری سمجھ کر فراموش کر دیا۔ وہ بڑے اعلیٰ ظرف لوگ تھے، ہوا کا رُخ دیکھ کر کیا چلتے، خانہ نشین ہو گئے۔ بھول کر بھی پھر اس وادی میں قدم نہ رکھا۔ داد قوم کو دیجیے، ایسے عالی دماغ کی غیر حاضری کو نہ ان کے جیتے جی محسوس کیا‘{ نہ مرنے کے بعد خبر لی۔ ایسی مثالیں دنیا میں خال خال ہی ملا کرتی ہیں۔ لیکن مسلمان کی شان بہرحال یہی ہے۔
بچپن سے لے کر مرتے دم تک قلم ہاتھ میں رہا، تُک بندی نہیں، نِک سُک سے درست شعر گوئی سے ابتدا ہوئی۔ یہ ان کا میدان نہ تھا۔ ادب و صحافت میں آئے اور اردو اداریہ نگاری کو معزز اور محترم بنا دیا۔ ان کے اداریوں میں محققانہ آن بان پائی جاتی تھی۔ یہی حال سوانح نگاری کا تھا۔ تحقیق اور تفتیش کی چٹیک تھی، وہ بلاشبہ فسانہ طراز نہیں، بھاری بھرکم تاریخ دان تھے۔ اردو، انگریزی، عربی، فارسی چاروں زبانوں پر یکساں قدرت تھی، ترجمہ بے تکلف کرتے تھے اور کہا جا سکتا 
ہے کہ بہترین مترجم تھے۔ ان کی طبیعت میں جھلّاہٹ کا عنصر گو کسی قدر غالب تھا‘ مگر مزاج میں شاعرانہ شگفتگی اور لطافت بھی تھی۔ غالب کو جس انداز میں انہوں نے پیش کیا اور سمجھا، وہ انہی کا حصہ تھا۔ خوب سوچ سمجھ کر قلم اٹھاتے اور حق ادا کر دیتے، لیکن ''نوائے سروش‘‘ شرح دیوان غالب میں سچی بات یہ ہے کہ یہ حق ادا نہیں ہوا۔
غالب پر مرحوم نے سینکڑوں مضمون لکھے، خطوں سے پوری سوانح عمری مرتب کر ڈالی تاہم وہ مجھے یہ نہ بتا سکے غالب کو جیل میں شراب کون مہیا کرتا تھا۔ شیفتہ یا کوئی اور۔ شیفتہ ہی ہوں گے‘ یہ سعادت اسی مردِ درویش کا حصہ بن سکتی تھی اور بنی۔ کیا لوگ تھے، پیار آتاہے بے اختیار ایسے لوگوں پر‘ قول و فعل کے سچّے اور کھرے۔ ایک کام اور ذرا سلیقے سے کر سکتے تو تھے مہر صاحب، ان سے ہوا نہیں۔ وہ یہ کہ لاہور کے دفاتر میں غالب کی حکامِ انگریزی کے حضور پیش کردہ درخواستوں کا مجموعہ نکلوا کر چھپوایا جائے یا چھپوایا جاتا۔ ایک صاحب ہیں اکبر علی خاں، تعریف ان کی یہ ہے کہ مولانا امتیاز علی عرشی کے بیٹے ہیں، کچھ پڑھ لکھ بھی لیا ہے، نیاز فتح پوری لکھنؤ چھوڑنے بھی نہ پائے تھے کہ یہ حضرت ''نگار‘‘ رام پور بازارِ ادب میں لے آئے۔ امروہہ کے توفیق 
چشتی نے غالب کا قلمی دیوان کھوج نکالا، اکبر علی لے اڑے۔ چھپوایا اور لے کے لکھ ڈالا ''نسخۂ عرشی زادہ‘‘ سبحان اللہ، سبحان اللہ! مہر صاحب سے اس خفیف حرکت کا ذکر آیا تو فرمایا‘ کیا ہوا اگر ایسا ہوا۔ اب ہم کیا کہتے‘ لیکن سچی بات تو قلم کی زبان بنے بغیر نہ رہی۔ شیر بہادر نپی کے نام ایک خط میں مہر صاحب نے بے اختیار ''نسخۂ امروہہ‘‘ ہی لکھا ہے۔ پڑھ کر جی خوش ہوا۔ اسے کہتے ہیں حق بحقدار رسید۔ غالب کو مرحوم سبقاً سبقاً پڑھ چکے تھے۔
بہت بڑے اور منتخب کتب خانے کے مالک تھے۔ کچھ بیچ کھایا‘ کچھ باقی تھا‘ اسے بھی بیچنے کی فکر میں تھے۔ مشاہیر کے خطوں کا بے نظیر ذخیرہ منتظر اشاعت پڑا ہے۔ تعریف سے پھولتے نہ تھے‘ طعن سے گھبراتے نہ تھے۔ اندازِ تحریر خطیبانہ ابوالکلام کے تتبّع میں تھا‘ قلم سحر نگار بھی تھا سحر طراز بھی۔ اقبال کے صحبت یافتہ، نہایت مہذب، خلیق، شریف اور نستعلیق آدمی تھے۔ بزم آرائی‘ سخنوری اور نکتہ سنجی میں یکتا‘ شیخ مبارک علی سے تعلق خاطر بے پناہ تھا۔ توتکار اور ابے تبے سے کم پہ بات نہ ہوتی تھی‘ زیادہ سے زیادہ کا اندازہ آپ خود کر لیں۔ ابوالکلام کے تو مرید تھے‘ اقبال کے شیدائی تھے‘ محبت بھی تھی۔ اختلاف رائے سے چوکتے بھی نہ تھے۔ بڑی پامردی سے اپنے عقائد اور آرا پر قائم رہے۔ پاکستان کے حامی اور تقسیم پنجاب و بنگال کے مخالف تھے۔ سنی العقیدہ‘ حیات مسیح کے قائل نہ تھے۔ نماز روزہ میں باقاعدگی تھی‘ حج بھی کر چکے تھے۔ یورپ کی سیر بھی دیکھے ہوئے‘ حقّہ اور سگریٹ دونوں کے رسیا‘ جہاں دیدہ آدمی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن سے مسلم ٹائون کتنی دور ہے‘ شوقِ ملاقات پا پیادہ کاشانۂ مہر تک لے گیا۔ وہ تو تھے نہیں‘ پیغام دے کر چلا آیا۔ ایک آدھ روز کا وقفہ بہت ہوا۔ ملے اور کامل دو گھنٹے مجھ سے باتیں کرتے رہے۔ یہ محض اس مرحوم کی بزرگانہ شفقت تھی‘ مسافر جان کر اپنا وقت ضائع کیا‘ دلجوئی فرمائی‘ والد مرحوم سید مبارک شاہ جیلانی‘ خواجہ حالی کے پرستار‘ کلیات حالی بہ طرزِ جدید شائع ہو‘ یہ تھی ان کی آرزُو۔ مہر صاحب نے باتوں باتوں میں اپنی تجاویز لکھ کر میرے حوالے کر دیں۔
میرے علم کے مطابق خواجہ حالی مرحوم و مغفور کی مسدس اور دوسری طویل نظم کے علاوہ مندرجہ ذیل مجموعہ ہائے کلام شائع ہوئے:
1۔ دیوان حالی
2۔ جواہراتِ حالی
3۔ فارسی اور عربی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ جس کا نام ضمیمۂ کلیاتِ حالی ہے۔ اگر تمام نظموں کو یکجا چھاپنا منظور ہو تو مضائقہ نہیں‘ تاہم یہ مجموعہ ضخیم ہو جائے گا اور مطالعے میں سہولت نہ رہے گی ۔ میرے نزدیک مناسب یہ ہے:
1۔ غزلیات اور رباعیات الگ چھاپی جائیں۔
2۔ قومی نظمیں‘مرثیے‘ ترکیب بند‘ ترجیح بند اور قطعات الگ شائع کئے جائیں۔
3۔ مسدّس اور دوسری لمبی نظمیں الگ رکھی جائیں‘ اس طرح ایک تقطیع پر تین حصوں میں پورے کلام کی اشاعت مناسب ہو گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میری مجوزہ ترتیب کے بجائے پورا مجموعہ دو حصوں میں منقسم کر دیا جائے یعنی غزلیات‘رباعیات‘ قطعاتِ تاریخی وغیرہ یکجا؛ قومی نظمیں‘ مرثیے ‘ ترکیب بند وغیرہ یک جا۔۔۔۔۔
آج کا مقطع
ان کا برتائو ہی برا ہے ‘ ظفرؔ
ورنہ وہ آدمی تو اچھے ہیں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں