"ZIC" (space) message & send to 7575

املتاس‘ جاوید چوہدری اور قاسمی صاحب

پچھلے دنوں املتاس کے پھولوں کے بارے میں بتایا تھا جو ابھی کھلے نہیں تھے اور اب بہار جانفزا دکھلا رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے چھوٹے زرد بلیوں کے فانوس لٹکے ہوئے ہوں۔ اسی سے یاد آیا‘ پنجابی زبان کی ممتاز شاعرہ انجم قریشی کی اس نئی نظموں کی کتاب کا نام بھی ''املتاس تے میں‘‘ ہے جس کا مسودہ اگلے روز لے کر آئی تھیں کہ میں اسے ایک نظر دیکھ لوں۔ کہہ رہی تھیں کہ زاہد حسن نے ایک بار دیکھ لی ہے‘ آپ بھی اس پر ایک نظر مار لیں۔ میں نے کہا‘ زاہد حسن میرا پسندیدہ لکھاری ہے‘ اسی کا دیکھا ہوا کافی ہو گا۔ کہنے لگیں‘ نہیں۔ میں نے موصوفہ کی نظموں کا پہلا مجموعہ بھی اپنی نظر سے گزارا تھا جس کا اعتراف اس نے ''شکر وستی‘‘ کے نام سے اس کتاب میں کر دیا تھا۔ اس مجموعے کا نام تھا ''میں لبھّن چلّی‘‘ جو کہ پنجابی شاعری کی اس قدر بولڈ کتاب ابھی تک میری نظر سے نہ گزری تھی۔ میں ان دنوں ''خبریں‘‘ میں لکھتا تھا‘ اس کتاب پر کالم لکھتے ہوئے میں نے اس کی ایک آدھ نظم بھی نقل کی تھی جس پر ضیاء صاحب نے میرا کالم بند کر دیا تھا۔
اس کے کوئی دو ہفتے بعد مجھے فون آیا کہ میں ملک ریاض بول رہا ہوں۔ اگر آپ ان دنوں اور کہیں نہیں لکھ رہے تو ہمارے اخبار میں آ جائیں۔ میں نے نام پوچھا تو انہوں نے ''جناح‘‘ بتایا۔ میں نے کہا کہ میں نے تو کبھی اس اخبار کا نام ہی نہیں سنا۔ کہنے لگے بہت اچھا پرچہ ہے‘ آپ کو پسند آئے گا‘ فی الحال یہ راولپنڈی ؍ اسلام آباد سے چھپ رہا ہے‘ بہت جلد لاہور سے بھی شائع ہونا شروع ہو گا۔ یہ تھی میرے ''جناح‘‘ میں جانے کی کہانی۔ جاوید چوہدری بھی اُن دنوں ''جناح‘‘ ہی میں تھے۔ ان دنوں کا ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ جاوید چوہدری نے میرا انٹرویو لیا جو غالباً روزنامہ پاکستان میں بھی شائع ہوا جس میں ایک دو گستاخانہ جملے احمد ندیم قاسمی کے بارے میں بھی تھے۔ کچھ عرصے بعد جاوید چوہدری لاہور آئے تو قاسمی صاحب سے بھی ملنے چلے گئے لیکن انہوں نے ملنے سے انکار کر دیا۔ یہ بے ادبی بعد میں بھی مجھ سے سرزد ہوتی رہی۔ مثلاً جناب سہیل وڑائچ نے اپنے پروگرام ''ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ میں جب مجھ سے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم احمد ندیم قاسمی کے عہد میں جی رہے ہیں‘ آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا لاحول ولا قوۃ، کون کہتا ہے؟ کچھ عرصہ پہلے وڑائچ صاحب نے یہ پروگرام آفتاب اقبال کے ساتھ بھی کیا۔ اگرچہ یہ کوئی خاص بات نہیں ہے لیکن یہ شاید ریکارڈ ہو کہ یہ پروگرام ایک ہی گھر کے دو افراد کے ساتھ کیا گیا ہو!
انجم کی دوسری کتاب تھی ''دُوجا پاسا‘‘ لیکن وہ کہہ رہی تھی کہ اسے دوبارہ چھپوائوں گی کیونکہ اس میں پروف کی غلطیاں بہت رہ گئی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ''میں لبھن چلی‘‘ پر میرا کالم شائع ہوا تو حنیف رامے صاحب نے وہ کتاب خاص طور پر منگوا کر پڑھی تھی۔ املتاس کے بعد اب اس پیلے پھولوں والے پودے کا ایک بار پھر ہو جائے جس کے پھول جھڑتے اور نئے کھلتے رہتے ہیں لیکن اس کی خاص بات اس پیڑ کی گولائی ہے۔ اس کی شاخ تراشی ہرگز نہیں کی گئی لیکن یہ اپنے آپ میں اس قدر گول ہے جیسے اللہ میاں نے اپنی پرکار سے بنایا ہو!
صبح واک کے بعد بھی موسم خوشگوار ہوتا ہے اس لیے ناشتہ حسب معمول پورچ میں بیٹھ کر ہی کیا۔ کھلی جگہ پر مکھیاں تو آتی ہی ہیں اور مکھی مار میرے پاس ہوتا ہے۔ چنانچہ جہاں آٹھ دس مکھیوں کی شامت آئی وہاں تین بھڑیں بھی کھیت رہیں۔ یاد رہے کہ انہیں فلائنگ شاٹس کے ذریعے انجام کو پہنچایا گیا تھا کیونکہ یہ بیٹھ کر شکار ہونے کا موقع کم ہی دیتی ہے۔ تاہم یہ اس قدر ڈھیٹ چیز ہے کہ جب تک پوری طرح سے کچل نہ دیا جائے، یہ مرنے کا نام نہیں لیتی۔ یعنی چوٹ کھا کر حب چت ہوتی ہے تو کچھ دیر دم سادھے پڑی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ مال غنیمت سمجھتے ہوئے چیونٹیاں بھی اس سے استفادہ کے لیے پہنچ جاتی ہیں، لیکن یہ انہیں شٹ اپ کال دیتی اور پرپرزے نکالنے لگتی ہیں۔ الٹی پڑی ہو تو کوشش کر کے سیدھی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد پروں کو تھوڑا پھیلائے گی، پھر اپنے ہی گرد گھومتے ہوئے پانچ سات چکر لگائے گی اور اگر اس پر دوبارہ قابو نہ پایا جائے تو گویا اڑنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ جس ننھی منی کتیا کا اضافہ ہو چکا ہے، اس کا نام ریکسین رکھا گیا ہے، غالباً رخسانہ بھی اسی سے نکلا ہے۔ ریکسین دارا کی بیٹی تھی۔ سکندر نے جسے شکست دینے اور قتل کرنے کے بعد اس کے ساتھ شادی کی تھی۔ سو‘ بڑے کتوں کے ساتھ ناز نخرے کرتی‘ ان کے ساتھ کھیلتی اور لڑتی جھگڑتی بھی ہے۔ کتے کو چونکہ حقیر چیز سمجھا جاتا ہے‘ ایک صاحب کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ازراہ انکسار اپنے آپ کو 'سگِ دُنیا‘ کہا اور لکھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ لوگوں نے بھی انہیں سگ دنیا کہنا شروع کر دیا۔ مثلاً سگ دنیا کی طرف جا رہا ہوں یا سگ دنیا ایسا کہہ رہے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے کلاسیکی ادب میں ایک خواجہ سگ پرست کا بھی ذکر ہے بلکہ یہ بھی ع
کہ اس کُتے کی مٹّی سے بھی کتا گھاس پیدا ہو
کچھ دنوں سے آفتاب کو ایکسر سائز کروانے کے لیے ایک خان صاحب آیا کرتے ہیں جن سے میں نے بھی سبق لینا شروع کر دیا۔ اگرچہ کئی آئٹم ایسے ہیں کہ میں اپنی ایکسرسائز کے دوران پہلے بھی کیا کرتا تھا۔ میری پراگریس دیکھ کر ان کا دعویٰ ہے کہ کچھ عرصے کے بعد مجھے اس قابل کر دیں گے کہ میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکا کروںگا۔ نیکی اور پوچھ پوچھ‘ یعنی اندھا کیا چاہے‘ دو آنکھیں!
پرندوں کے حوالے سے کوئی نئی اطلاع نہیں ہے‘ البتہ سڑس بڑھوتری کی طرف آہستہ خرامی سے چل رہے ہیں‘ یعنی اب ان کا سائز گول گلاب جامن جتنا ہو گیا ہے۔ البتہ گریپ فروٹ کا سائز چونکہ ویسے بھی بڑا ہوتا ہے اس لیے اس کا سائز ابھی سے لڈو جتنا ہو گیا ہے۔ موتی چور نہیں بلکہ چھوٹا اور شریفانہ سائز کا لڈو۔
''پینڈو کڑی‘‘ کے نام سے خاکسار کی پنجابی شاعری کا کلیات چھپ گیا ہے، جس میں ''ہرے ہنیرے‘‘ اور ''ککڑ کھیہ‘‘ نام کے دو غزلوں کے مجموعے ہیں اور بُکل کے نام سے نظموں کا۔ اسے پلاک نے شائع کیا ہے۔ ضخامت 500 صفحات اور قیمت ایک ہزار روپے۔
آج کا مقطع
نالاں تھی جس کے نام سے خلق خدا‘ ظفر
دنیا میں تُو ہی اس کا طلبگار کیوں ہوا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں