"ZIC" (space) message & send to 7575

ٹوٹے‘ سہ ماہی ’’شعر وسخن‘‘ اور یاسمین حمید

قائم مقام
خبر ہے کہ وزیراعظم کی غیرموجودگی میں اسحٰق ڈار سیاسی و سرکاری امور دیکھیں گے۔ اس خبر کا محض تکلف ہی کیا گیا ہے ورنہ وزیراعظم کی موجودگی میں بھی مذکورہ جملہ امور ڈار صاحب ہی دیکھا کرتے تھے جو عدالت میں وزیراعظم کی منی لانڈرنگ کا ثبوت مہیا کرتے ہوئے بیان بھی دے چکے ہیں جس کے متعلق بعد میں کہا گیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دبائو کے تحت دیا گیا تھا‘ حالانکہ وہ نوازشریف کی بجائے وزیراعظم بنائے جانے کے وعدے پر دیا گیا تھا جس سے جنرل صاحب مکر گئے اور وہ بیان ڈار صاحب کے گلے میں پڑ گیا۔ قرعۂ فال وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں کے نام اس لیے نہیں نکلا کہ اپ رائٹ آدمی ہیں اور کئی کئی دن وزیراعظم سے بول چال بھی بند رکھتے ہیں‘ نیز رشتے دار ہونے کی وجہ سے حقوق العباد کا تقاضا بھی یہی تھا کہ یہ ذمہ داری ڈار صاحب کو سونپی جاتی۔ اور یہ بھی ایک تکلف ہی تھا ورنہ بہت سی ذمہ داریاں تو پہلے ہی آرمی چیف کے سپرد ہیں۔
مشورے
پیپلزپارٹی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر سندھ جناب شرجیل میمن نے ایک اخباری اطلاع کے مطابق اپنے وکلاء سے مشورے کے بعد وطن واپسی کا پروگرام بنا لیا ہے جو اس کردار کش خبر کے بعد کہ رینجرز نے ان کے گھر سے دو ارب روپے برآمد کیے ہیں‘ دبئی چلے گئے تھے۔ اگر یہ اطلاع درست تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حق حلال اور خون پسینے کی یہ کمائی بھی بحق سرکار ضبط کرلی گئی ہوگی جو کہ بہت بڑی زیادتی ہے‘ آخر اس ملک کا کیا بنے گا جس کو شریف برادران نے ترقی کے بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے اور اب شرپسند عناصر ان کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ پتا نہیں ہمارے دوست کو اپنے وکلاء سے مشورے کا خیال اتنا عرصہ گزرنے کے بعد کیوں آیا۔ سو۔ اگر یہ برآمدگی واقعی ہوئی تھی تو اب تک یہ ریکارڈ کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ کے گھر سے سے برآمد ہونے والی رقم اس سے بہت کم بتائی جاتی ہے؛ البتہ لانچ میں بھری ہوئی جو رقم برآمد ہوئی تھی‘ اس کے بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کتنی تھی۔
ڈیڈلاک
اطلاعات کے مطابق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ٹی او آرز کی تشکیل کے مسئلے پر ڈیڈلاک پیدا ہوگیا ہے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف نے سڑکوں پر نکل آنے کا اعلان کردیا ہے۔ انہی کالموں میں پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ اس معاملے کو جہاں تک بھی ممکن ہوا لٹکایا جائے گا جس کا باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن ماشاء اللہ دونوں اس حق میں نہیں ہیں کہ یہ کام کسی منطقی نتیجے تک پہنچ سکے۔ اُدھر وزیراعظم کی اوپن ہارٹ سرجری ہونے جا رہی ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ اس صورت میں کم از کم ایک ماہ تک وہ وطن واپسی کے قابل نہیں ہوں گے‘ لیکن اسی پر بس نہیں‘ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ اسے غتربود کرنے کرانے کے لیے ابھی اور بہت سے ڈرامے سٹیج کیے جائیں گے کیونکہ اس حمام میں سارے ہی ننگے ہیں اور کوئی بھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے لیے تیار نہیں ہوگا اور یہ جو کچھ ہو رہا ہے صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
چڑھائی...!
امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق کا کہنا ہے کہ جی چاہتا ہے‘ ٹرین ملک لوٹنے والوں پر چڑھا دوں۔ یاد رہے کہ موصوف کرپشن فری ٹرین مارچ کے دوران لاہور سے کراچی کے سفر پر تھے؛ تاہم خدشہ بھی ہے کہ ان کا یہ ارمان پورا نہیں ہوگا کیونکہ ٹرین کسی پر چڑھانے کے لیے ڈرائیونگ سیٹ پر ہونا ضروری ہے جبکہ آں جناب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ٹرین کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ دوسری قباحت یہ ہوگی کہ یہ کوئی کار‘ ٹرک یا ٹرالی نہیں ہے جس کا رُخ موڑ کر کسی پر چڑھائی جا سکے کیونکہ پٹڑی پر تو ٹرین کو کسی طرف موڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ لُوٹ مار کرنے والے اس ٹرین کے سامنے پٹڑی پر خود ہی جمع ہو جائیں تاکہ ٹرین ان پر چڑھائی جا سکے لیکن اس کے لیے بھی حضرت صاحب کو انجن کے اندر بیٹھنا ہوگا کیونکہ عام ڈرائیور تو ایسی صورت میں ٹرین کو بریک لگا کر روک بھی سکتا ہے‘ اس لیے ع
ایں خیال است و محال است و جنوں
سہ ماہی ''شعر و سخن‘‘
یہ ایک معیاری ادبی پرچہ ہے جو مانسہرہ جیسی چھوٹی جگہ سے جانِ عالم کی زیر ادارت شائع ہوتا ہے۔ زیرنظر شمارہ اپریل تا ماہ جون کو محیط ہے اور قیمت فی شمارہ 200 روپے رکھی گئی ہے۔ اندرون سرِدرق احمد ندیم قاسمی مدیرِفنون کے ایک خط بنام ایڈیٹر کا عکس چھاپا گیا ہے جس میں پرچے کے معیار کو سراہا گیا ہے۔ لکھنے والوں میں جوگندرپال‘ مشرف عالم ذوقی‘ حیدر قریشی‘ عزیز حامد مدنی‘ سعادت سعید‘ اکبر معصوم‘ باقی احمد پوری‘ سعود عثمانی‘ شہزاد نیئر‘ وحید احمد‘ تیمور حسن‘ آفتاب خان‘ گلزار بخاری‘ سرور جاوید‘ اعجاز توکل‘ فیصل ہاشمی نمایاں ہیں۔ ٹائٹل خوشنما ہے اور اسے نسبتاً بڑے یعنی ''ماہ ِنو‘‘ سائز پر چھایا گیا ہے۔ معاونین میں رُستم نامی‘ سجاد بلوچ اور دیگران شامل۔ اسی شمارہ میں شائع ہونے والی یاسمین حمید کی غزل کے اشعار:
تعلق کے بہائو کا مقدم استعارہ کس جگہ ہے
مرے گہرے سمندر تیری وحشت کا کنارا کس جگہ ہے
بتا اے روز و شب کی بے ثباتی میں توازن رکھنے والے
جسے کل ٹوٹنا ہے آج وہ روشن ستارہ کس جگہ ہے
بتا سرسبز کھیتوں سے گزرنے والے بے آواز دریا
اچانک پیچ کھا کر رُخ بدلنے کا اشارہ کس جگہ ہے
بشارت جس کے ہونے کی مجھے پہلے قدم دے دی گئی تھی
وہ گہرے ابرکاسایہ‘ مسافت کا سہارا کس جگہ ہے
نہ سطح آب پر ہے اور نہ تہہ میں اس کے ہیں آثار کوئی
بتا اے بحرِ غم کاغذ کی کشتی کو اُتارا کس جگہ ہے
آج کا مطلع
اصل میں صرف سلانے کے لئے آیا تھا
جو ہمیں خواب دکھانے کے لئے آیا تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں