میاں محمد صدیق کامیانہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان ہمارے یارِ غار۔ ان کا تعلق ساہیوال غار سے ہے اور ہمارا اوکاڑہ غار سے۔ باغ و بہار شخصیت۔ ساہیوال کی ثقافتی زندگی کے عینی گواہ بتاتے ہیں کہ جب مجید امجد ساہیوال میں اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر تھے اور گردیزی صاحب جن کا تعلق ملتان سے تھا‘ بطور نائب تحصیلدار ساہیوال میں تبدیل ہو کر آئے تو ایک بار امجد صاحب اور دیگر دوستوں کے ہمراہ مُجرا سن رہے تھے کہ پولیس کا چھاپہ پڑ گیا۔ گردیزی صاحب نے جو بھاری ڈیل ڈول کے مالک تھے‘ جلدی سے طبلچی سے طبلہ چھین کر خود طبلہ نواز بن بیٹھے اور اس طرح گرفتاری سے بچ گئے جبکہ امجد صاحب اور دوسرے حضرات دھر لیے گئے جو بعد میں ضمانت پر رہا ہوئے۔
گردیزی صاحب‘ جو خود بڑے شگفتہ بیاں آدمی تھے‘ جب چارج لیا تو چند روز تک رہائش گاہ کے مسئلہ سے دوچار رہے۔ معلوم ہوا کہ میاں محبوب جو سپرنٹنڈنٹ ضلع تھے‘ اس میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ گردیزی صاحب ان کے پاس گئے اور بولے ''سئیں جیہڑا ساتھوں گھٹ کمینہ ہووے‘ اُوںکو اساں شریف آدمی سمجھنے ہاں‘‘ یعنی سائیں جو ہم سے کم کمینہ ہو‘ اس کو ہم شریف آدمی سمجھتے ہیں!
یہ تو نمونہ مشتے از خروارے ہی تھا‘ ان کی زنبیل تو ایسے دلچسپ واقعات سے بھری پڑی ہے اورجب ایک بار شروع ہو جائیں تو ع
پھر دیکھیے اندازِ گُل افشانیٔ گفتار
ہم دونوں نے اکٹھے ہی پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور سے وکالت کا امتحان پاس کیا اور ایک ساتھ پریکٹس شروع کر دی۔ انہوں نے ساہیوال اور میں نے اوکاڑہ میں۔ اب موصوف نہ صرف لاء کالجوں میں لیکچر دیتے ہیں بلکہ اکیڈیمی میں سی ایس پی افسران کی بھی رہنمائی کیا کرتے ہیں۔ کھانے پینے میں اس قدر محتاط کہ اب تک سمارٹ اور چاق و چوبند ہیں۔ وکالت پاس کرنے سے پہلے محکمۂ بحالیات میں کلرک ہوا کرتے تھے‘ اس لیے دفتری پیچیدگیوں اور اس کے جُملہ اسرار و رموز سے بخوبی واقف اور اس مہارت نے انہیں پیشۂ وکالت میں بھی بہت کام دیا۔
آج کافی عرصے بعد ان سے فون پر بات ہوئی تو گویا چہک ہی اٹھے‘ کہنے لگے کہ آپ نے اچھے بھلے فارم ہائوس کو یہ کیا چڑیا گھر بنا رکھا ہے۔ کوئیلوں ‘ بلبلوں‘ بگلوں اور فاختائوں ہی میں ہر وقت مبتلا رہتے ہیں‘ ان کا مطلب تھا کہ ع
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
روزنامہ دُنیا کو ایک نمبر اخبار قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہ اس اخبار کو بہترین کالم نگار دستیاب ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کہہ رہے تھے‘اب کے لاہور آیا تو آپ سے ملنے کے لیے یہ کوہ قاف بھی طے کروںگا۔ بہرحال ان کی زندہ دلی اور خوش بیانیوں کا ایک کالم میں سمانا ممکن ہی نہیں ہے۔
چڑیوں طوطوں اور فاختائوں سے تو میرا بھی جی بھر چکا تھا لیکن آج ایک ہُد ہُد نظر آیا اور اس نے سارا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔ ویسے تو ہر پرندہ کسی نہ کسی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے لیکن بلیک اینڈ وہائٹ میں اس کے پروں پر چھپا ہوا ڈیزائن بہت مزہ دے گیا۔ سر اور گردن زرد رنگ کے اور سر پر صلیب نما کلغی‘ چونچ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی لمبی ہے اور گھاس میں سے خوراک چن نہیں رہا تھا بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ لمبی چونچ کافائدہ اٹھاتے ہوئے زمین میں سے کھود کر کچھ نکال رہا ہے!
پھر اس کا نام بھی کافی نرالا ہے اور اس کا نام رکھنے والوں نے کچھ فضول خرچی بھی روا رکھی ہے یعنی ایک بار ہُد ہی کافی تھا‘ اتنے سے پرندے کے لیے شاید دوسرے ہُد کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی شاید خود اسے اس کی ضرورت ہو۔ ویسے بھی اس سے کچھ کُھد بُد اور شُد بُدکا سا گمان گزرتا ہے۔ بہرحال‘ اس کا یہ نام رکھنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی جو ایسے خوبصورت پرندے کا ایسا نام رکھ دیا گیا؛ حالانکہ نام میں کیا رکھا ہے‘ گلاب اور گوبھی کے پھول کو کسی بھی سے پکارا جاسکتا ہے۔آج ایک اور بات کا بھی احساس ہوا اور وہ یہ کہ چڑیا اور چڑے کے پروں میں اتنا فرق کیوں رکھا گیا ہے کہ چڑیا کے ڈیزائن کے لحاظ سے بیحد مدھم ہیں جبکہ چڑے کے نقش و نگار زیادہ نمایاں بھی ہیں اور چڑیا کی نسبت زیادہ دیدہ زیب بھی‘ یعنی چڑا چڑیا کی نسبت کہیں خوبصورت اور سمارٹ لگتا ہے؛ حالانکہ چڑیا کو زیادہ خوبصورت ہونا چاہیے کہ آخر عورت ذات ہے اور چڑے کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ویسے بھی اسے زیادہ خوبصورت ہونا چاہیے‘ لیکن اگر چڑے کی رغبت کو دیکھا جائے تو اس کے لیے یہ بھدی چڑیا ایک پری سے کم نہیں ہے۔
پھر دونوں کے سراپا میں جو فرق رکھا گیا ہے اس کی بھی بظاہرکوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ باقی سب کے سب پرندے اس امتیاز سے محروم ہیں اور ان میں نر اور مادہ کا فرق معلوم کرنا ممکن ہی نہیں ہے اور اس کی اس فضیلت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں‘ ان دونوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ چڑا جسامت میں چڑیا سے بڑا ہوتا ہے اور سائزکا نر اور مادہ میں یہ فرق اورکسی بھی پرندے میں شاید نہیں پایا جاتا۔
علاوہ ازیں‘ اس پرندے کا ایک پلس پوائنٹ یہ بھی ہے کہ اس سائز یا اس سے تھوڑے چھوٹے پرندے بھی چڑیا ہی کہلاتے ہیں جو مختلف رنگوں میں ہمارے دلوں کو لبھایا کرتے ہیں‘ گویا ایک ہی فیملی کے افراد ہوں۔
بہرحال، چڑیا چڑے اور ہُد ہُد کا ذکر بس ضمناً ہی آ گیا ہے اور یہ میاں صاحب کو یقیناً پسند نہیں آیا ہوگا اور جس کے لیے معذرت خواہ بھی ہوں‘ یعنی ع
خطا نمودہ ام و چشمِ آفریں دارم
آج کا مقطع
روشنی اب راہ سے بھٹکا بھی دیتی ہے ظفر
اس کی آنکھوں کی چمک نے مجھ کو بے گھر کر دیا