بیورو کریسی کی بغاوت
اخباری اطلاع کے مطابق نواز لیگی پارلیمانی لیڈروں کی طرف سے فارورڈ بلاک تشکیل دیے جانے کے بعد‘ وفاقی بیورو کریسی نے بھی ایک ایسی شخصیت کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا ہے جو وزیر اعظم کی ملک سے غیر موجودگی میں سرگرم ہے۔ جن افسران نے ایسا کیا ہے ان میں ڈی ایم جی‘ سیکرٹریٹ گروپ ‘ انکم ٹیکس گروپ اور کسٹمز گروپ شامل ہیں۔ ان افسران کا موقف ہے کہ وزیر اعظم کی بوجہ علالت ملک سے غیر حاضری میں ایسے فرد کے احکامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جو نہ تو رکن قومی اسمبلی ہیں اور نہ ہی سینیٹر‘ انہیں کوئی سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ان اختیارات کے حوالے سے کوئی نوٹیفکیشن بھی موجود نہیں ہے۔
ن لیگی حکومت کے اوائل میں یہ شخصیت وزیر اعظم کے یُوتھ لون سکیم کی کرتا دھرتا تھی،مگر ایک عدالتی حکم کے مطابق انہیں مستعفی ہوناپڑا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک درجن ایسے افسران نے بتایا کہ بیورو کریسی کے درمیان اس بات پر ایک اتحاد قائم ہو چکا ہے کہ وہ غیر قانونی ہدایات پر عمل نہیں کریں گے۔ اس طرح وزارت ہائوسنگ اینڈ ورکس کے ایک افسر اور وزارت دفاع کے ایک افسرنے بھی بتایا کہ ایسے احکامات جو اس شخصیت کے کسی قریبی ساتھی کی جانب سے وزیر اعظم ہائوس کی طرف سے جاری اور موصول ہوئے تھے‘ انہیں کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
اسی طرح وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے ایک افسر کے مطابق وزیر اعظم کی غیر حاضری کی وجہ سے اہم سرکاری کام معطل ہے اور فائلوں پر گرد جمنے لگی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہونا چاہیے کہ فلاں شخص کو انہوں نے اپنی غیر حاضری کے دوران ڈپٹی پرائم منسٹر کے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور اگر صورت حال اسی طرح جاری رہی تو یہ ملک کے لیے نقصان رساں ثابت ہو سکتا ہے۔(بلا تبصرہ)
خاص مہربانی
ایک اطلاع کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے پاکستان بار کونسل کے لیے 100ملین روپے کی گرانٹ منظور کی ہے۔ ایک سرکاری مکتوب کے مطابق اضافی گرانٹ موجودہ مالی سال میں جاری کی جائے گی۔ مختلف عدالتی اداروں کے لیے ایسی گرانٹس وزیر اعلیٰ کی طرف سے جاری کیا جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے لیکن یہ انتہائی غیر معمولی گرانٹ ایک چشم کشا بات ہو کر رہی گئی ہے۔ پاکستان بار کونسل کو ایسی گرانٹس بالعموم وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کی جاتی ہیں لیکن یہ غیر معمولی اقدام ہے جہاں ایک صوبائی حکومت نے کونسل کو اتنی بڑی گرانٹ جاری کی ہو۔ کوئی دو ہفتے پہلے پاکستان بار کونسل نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاناما لیکس سکینڈل کو عدالت میں لے کر جائیں گے کیونکہ وزیر اعظم کے بچوں کے نام اس میں ظاہر کیے گئے ہیں۔ سینئر وکلاء کے مطابق یہ گرانٹ شریف برادران کی طرف سے بار ایسوسی ایشن کے ارکان کو نرم رویہ اختیار کرنے کے لیے ایک کوشش کے سلسلے میں ہو سکتی ہے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ کونسل اس بات پر یہ گرانٹ لینے سے معذرت کر دے کہ یہ انہیں خریدنے کی ایک کوشش ہے۔ تاہم اگر وہ اسے قبول بھی کر لیتی ہے تو حکومت خاطر جمع رکھے یہ انتہائی معزز اور موثر ادارہ اس لالچ میں آ کر اپنا موقف تبدیل کرنے کو کبھی تیار نہ ہو گا اور اس ضمن میں حکومت نے سراسر غلط اندازہ لگایا ہے۔ یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں معزول عدلیہ کے حق میں چلائی جانے والی تحریک کی کامیابی کا سہرا بھی وکلاء ہی کے سر تھا۔
بھول ہو گئی!
ایک اور اخباری اطلاع کے مطابق ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے وائس پریذیڈنٹ نے اگلے روز کہا ہے کہ ان کا بینک پاکستان میں توانائی کی کمی پر قابو پانے کے لیے مدد دینے کو تیار ہے لیکن حکومت پاکستان نے دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے کسی مدد کی کوئی درخواست نہیں کی ہے۔ یہ بات انہوں نے اسلام آباد میںایک پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ توانائی پاکستان کی معیشت کے لیے ایک اہم شعبہ ہے اور ان کا ملک اس سلسلے میں مدد کرنے کے لیے تیار ہے‘وغیرہ وغیرہ۔
بظاہر تو یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ جہاںسے پیسے مل سکتے تھے‘ حکومت نے وہاں سے مانگے ہی نہیں ورنہ جہاں کئی دوسرے ڈویلپمنٹ منصوبوں کے حصے کی رقم وہاں سے نکال کر میٹرو وغیرہ جیسے منصوبوں میں جھونکی جا رہی ہے وہاں دوچار ارب یہاں سے بھی حاصل کر کے اس کار خیر میں لگائے جا سکتے تھے۔ لیکن حکومت چونکہ ڈیموں پر یقین ہی نہیں رکھتی اور پانی کے مسائل اس نے اللہ میاں ہی پر چھوڑ رکھے ہیں جو بارشوں کے ذریعے پانی کی ریل پیل کر سکتے ہیں‘ اسی لیے حکومت نے ان فروعی چیزوں پر کبھی توجہ ہی نہیں دی حتیٰ کہ اس میں تو سریا بھی برائے نام ہی استعمال ہوتا ہے‘ ہیں جی؟
اوراب آخر میں جمہوریہ چین سے موصول ہونے والا ڈاکٹر عابد سیال کا یہ شعر ؎
کبھی تو پوچھ کسی ان کہی کے بارے میں
کہ دل میں خواہشِ اظہار پھر رہے نہ رہے
آج کا مقطع
سادگی دیکھیے وہ اب بھی سمجھتے ہیں‘ ظفرؔ
وقت رُک جائے رفتار بدل دینے سے