اسی شمارے میں ایڈیٹر خالد علیم کی اپنی بھی رُباعیات شائع ہوئی ہیں۔ انہیں چاہیے تھا کہ حامد یزدانی سے ان کی رباعیات میں اوزان کے جو معاملات تھے ان کی نشاندہی کر دیتے تاکہ وہ انہیں درست کر لیتے۔ دراصل تو رباعی بجائے خود ایک پیچیدہ صنفِ سخن ہے کیونکہ اس کے کم و بیش24اوزان ہیں جبکہ اصولی طور پر ایک رباعی میں اس کا ایک ہی وزن استعمال کرنا چاہیے نہ کہ مختلف مصرعوں میں مختلف اوزان۔ ہو سکتا ہے حامد نے ایک ایک رباعی میں اس کے مختلف اوزان استعمال کرنے کا تجربہ کیا ہو جس کی وجہ سے مجھے کہیں کہیں وزن میں گڑ بڑ نظر آئی ہو کیونکہ موصوف ایک پُختہ کار شاعر ہیں اور کسی ایسی بے احتیاطی کی ان سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ بہرحال ‘ کچھ رباعیات جو مجھے زیادہ اچھی لگیں‘ آپ بھی دیکھیے:
ہر غم کو نگاہوں سے عیاں ہونا ہے
ہر زخم کو درد کی زبان ہونا ہے
سینے میں نہیں اور کوئی بھی خواہش
بس ایک تمنا کو بیاں ہونا ہے
(حامد یزدانی)
بکھرے بکھرے یقیں کے شیرازے پر
چاہت ہے تری قائم اندازے پر
ایسے دیتے ہو دل پہ دستک جیسے
دستک دیتاہے چور دروازے پر
ہونٹوں کا ہے اندازِنوا اور ہی کچھ
کہتی ہے ضمیر کی صدااور ہی کچھ
میں نے ابھی ایک جنبشِ لب کی تھی
اندر سے کوئی بول اُٹھا اور ہی کچھ
(خالد علیم)
اور‘ اب اسی پرچے میں سے چند اشعار
آپ کی راہ میں دستار بچھا کر اپنی
اک بڑا بوجھ اُتار آئے ہیں سر سے ہم لوگ
(رفیق راز)
اس نظم کا چھٹا مصرعہ ہے ع
ذرا قریب سے گزریں تو ان کی کششِ ثقل
یہاں لفظ''کشش‘‘ درست وزن میں نہیں باندھا گیا۔ صفحہ57پر صفدر سلیم سیال کی نظم کا مصرعہ ہے ع
بڑے جنگجو قبیلے سے تعلق ہے
یہاں جنگجو کو صحیح تلفظ میں نہیں باندھا گیا۔ اسی صفحے پر طالب انصاری کی نظم کا مصرعہ ہے ع
یہ جملہ محض ایک جملہ نہیں تھا
یہاں لفظ محض صحیح وزن میں نہیں باندھا گیا۔ صفحہ58پر مظفر حسن منصور کی نظم کا پہلا، دوسرا، چھٹا اور ساتواں شعر بے وزن ہے۔ محمد انیس انصاری کی نظم میں ‘ اے فراعین جہاں''سن‘‘ کی جگہ ''سنو‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ اگلے صفحے پر شکیل صارم قادری نے ''حوا‘‘ کو ''ہوا‘‘ کے وزن پر باندھا ہوا ہے۔ صفحہ 62پر پیروز بخت قاضی کی نظم کا مصرعہ نمبر14،19،20ساقط الوزن ہیں۔
خاکسار کی دوسری غزل کے مطلع کا مصرعہ اوّل اس طرح پڑھا جائے ع
کسی بہانے سے اب دوبارے کھلے ہوئے تھے
ستیہ پال آنند کی غزل کے مطلع میں لفظ ''کھڑا‘‘ کی بجائے اکھڑا اور چوتھے شعر میں ''اولاد‘‘ کی جگہ ''لاد‘‘ پڑھا جائے۔ اسلم انصاری کی غزل کے تیسرے شعر کے دوسرے مصرعہ میں ٹائپ کی غلطی ہے‘ اسے اس طرح پڑھا جاسکتا ہے ع
تجھ کو دیکھے کوئی اب یا تری دنیا دیکھے
صفدر سلیم سیال کی غزل کا دوسرا اور پانچواں شعر ساقط الوزن ہے‘ شاید ٹائپ کی غلطی ہے کرشن کمار طور کی غزل کے پانچویں شعر کا پہلا مصرعہ شاید غلط ٹائپ ہوا ہے۔
شہناز مزمل کی غزل کے چوتھے شعر میں''کیا‘‘ کو ''کہ‘‘ پڑھا جائے تو وزن ٹھیک ہو گا۔ اور ''صنم‘‘ کو ''ضم ‘‘پڑھا جائے۔ ابرار حامد کی غزل کے دوسرے شعر کے آغاز میں ''گو‘‘ کا ''وائو‘‘گرتا ہے۔
محمد انیس انصاری کی غزل کے چوتھے شعر میں ''کہکشائوں‘‘ کی جگہ کا ہکشائوں‘‘ پڑھا جائے تاکہ وزن پورا ہو۔ اور‘ اب کچھ پسندیدہ اشعار
مجھے دیکھو کہ آدمی کوئی
کیسے مرنے سے پہلے مرتا ہے
(قیصر نجفی)
اس نے بدلا کبھی رستا کبھی کترا سا گیا
سامنا جب ہوا مجھ سے وہ گھبرا سا گیا
(ابصار عبدالعلی)
خود کو نمایاں کرتے کرتے جانے پھر کیا سوجھی
اپنے پتے سب پھاڑ کے پھینکے اور سراغ جلائے
(احمد صغیر صدیقی)
اک شخص کہ جس کے ساتھ میں ہوں
اک دوست کہ جس کے ساتھ تو ہے
(نوید صادق)
ہمارے پاس ہیں کاغذکی کشتیاں آزر
ہمارے سامنے اس بار اک سمندر ہے
(دلاور علی آزر)
دل آباد کہاں رہ پائے اس کی یاد بھلا دینے سے
کمرہ ویراں ہو جاتا ہے اک تصویر ہٹا دینے سے
(جلیل عالی)
ماہنامہ الحمرا بھی ساتھ ہی موصول ہوا ہے۔ اب تھوڑی توجہ اس پر بھی۔ صفحہ نمبر4پر ظفر علی راجا کا مصرعۂ نعت ہے ع
تابہ ابد بہار بداماں حضورؐ ہیں
اسے ''تابا ابد‘‘ پڑھا جائے تو وزن پورا ہو گا‘ ٹائپ کی غلطی لگتی ہے۔اسی صفحے پر ناصر زیدی کی منقبت کا ایک مصرعہ ہے ع
غبارِ راہِ طلب ہوں زسرتاپا ناصر
اس میں''تا‘‘ کی الف بُری طرح گرتی ہے‘ موصوف توجہ فرمائیں! صفحہ نمبر50پر غالب عرفان کا ایک شعر اس طرح نقل کیا گیا ہے، جس کا دوسرا مصرعہ بے وزن ہے ؎
تاریخ کے دوراہے پہ تہذیب کے ہاتھوں
انسان کو کبھی اتنا ششدر نہیں دیکھا
مصرعہ اس طرح بھی ہو سکتا تھا ع
انساں کو کبھی اتنا بھی ششدر نہیں دیکھا
ٹائپ کی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔صفحہ53پر انہی کے ایک مصرعے میں ٹائپ کی غلطی ہے، جو اس طرح درج ہے ع
خوں یہاں کیا مانگتا میں قتل ہوتا ہی رہا
''یہاں‘‘ کی بجائے''بہا‘‘ پڑ ھا جائے۔صفحہ55پر ڈاکٹر مقصود جعفری کے مصرعے میں''رہ‘‘ کو ''راہ‘‘ پڑھا جائے۔ صفحہ نمبر56پر ستیہ پال آنند کی نظم کا تیسرا مصرعہ ہے ع
مدارِ زیست ہے اک دائرے کا قرۃ العین
یہاں ''قرۃ'' کو تشدید کے بغیر لکھا گیا ہے جو درست نہیں۔
آج کا مقطع
حق وہ ہے‘ ظفر‘ چھین لیا جائے جو بڑھ کر
یہ پھیلے ہوئے ہاتھ اُٹھانے کے لیے تھے