"ZIC" (space) message & send to 7575

کچھ مزید ٹوٹے

اخباری اطلاعات کے مطابق واشنگٹن میں سفارتی صورتحال کی خرابی کے پیش نظر حکومت وہاں کے لیے کسی لابسٹ کے تقرر پر غور کر رہی ہے جبکہ متعدد بھارتی لابسٹ ایک عرصے سے وہاں پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں بھارت نے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر لیے بلکہ اپنی پاکستان مخالف کارروائیوں میں بھی اس حد تک کامیاب ہو گئے کہ معاہدے کے برعکس امریکہ نے پاکستان کو ایف ـ 16 جہاز دینے سے بھی انکار کر دیا۔ سو اتنا نقصان کر چکنے کے بعد اب ہماری حکومت کو وہاں پر اپنا کوئی لابسٹ مقرر کرنے کا خیال آیا ہے۔ اوپر سے سرکاری ترجمان نے نام لیے بغیرسابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے بارے کہا ہے کہ وہ وہاں پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں جس کی حقانی نے سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پاکستانی حکومت اپنی نااہلیوں اور غلط حکمت عملیوں کا ملبہ ان پر گرا رہی ہے۔ اگر یہ الزام صحیح بھی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اکیلا ایک سابق سفیر وہاں کامیابی سے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں کامیابی سے مصروف ہے اور اس پر ہماری وزارت خارجہ کو کہیں سے چُلُّو بھر پانی تلاش کرنے کی ضرورت ہے!
اپنا الگ راستا
اطلاعات کے مطابق سینیٹر اعتزاز احسن حکومت مخالف تحریک کے دوران عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے کی پالیسی پر ڈٹ گئے ہیں جس سے پارٹی کی ہائی کمان یعنی دونوں زرداری موصوف سے سخت ناراض ہیں کیونکہ وہ کرپشن کی اپنی مجبوریوں کے تحت ناقابل واپسی نقطے تک حکومت کے خلاف نہیں جانا چاہتے کیونکہ فائلیں تو سب کی کھلی ہوئی ہیں بلکہ کہیں کہیں تفتیش اور کارروائی بھی جاری ہے۔ سینیٹر اعتزازکے موقف میں سختی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس یا الزام نہیں ہے‘ اس لیے وہ حکومت کے ساتھ سودے بازی پر کسی طور پر مجبور نہیں ہیں جبکہ موصوف اپنے اصولی موقف پر پہلے بھی کئی بار پارٹی سے نکالے جا چکے ہیں؛ چنانچہ نواز شریف وغیرہ کے خلاف دائر کرنے کے لیے جو ریفرنس تیار کیا گیا ہے اس سے بھی انہیں دور رکھا گیا ہے اور سارا کام لطیف کھوسہ صاحب کی زیر نگرانی فائنل کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عزت اور ذلّت کے راستے جدا جدا ہیں!
دونوں میں سے کون؟
مودی سرکارنے حال ہی میں پاکستان سے دریافت کیا ہے کہ اگر بات کی جائے تو حکومت کے ساتھ یا دوسروں سے۔ حکومت کے منہ پر اس سے بڑا طنزیہ طمانچہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ طاقت کے دوسرے بلکہ اصل مراکز حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت مہیا کر رہے ہیں جس کی پاداش میں جمہوریہ چین کے علاوہ صحیح معنوں میں پاکستان کا دوست دوردور تک نظر نہیں آتا اور وہ مخالف ہمسایوں کے بھی ہر طرف سے نرغے میں ہے اور عالمی تنہائی یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہر جگہ پاکستان کو دہشت گردوں کی آماجگاہ سمجھا جا رہا ہے جبکہ حکومت کی ساری توجہ پیسے بنانے پر مرکوز ہے۔ برآمدات تشویشناک حد تک کم ہوچکی ہیں‘ قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور زراعت بدحالی کا شکار ہے۔ چنانچہ اگر طاقت کے دوسرے مراکز سے بات کی بھی جائے تو نہ تو ان کا یہ کام ہے اور نہ ہی انہیں سیاسی معاملات کی تربیت حاصل ہے اور سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ ملک ڈیڑھ ماہ سے وزیراعظم کے بغیر چل رہا ہے!
گیم چینجر کی حالتِ زار
سی پیک منصوبہ جسے گیم چینجر قرار دیا جاتا ہے‘ اس کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ حکومت خود ہی اسے ناکام بنانے کے درپے ہے جبکہ سینٹ کمیٹی کے چیئرمین کے مطابق مغربی روٹ کے لیے 50 ارب درکار ہیں لیکن اس کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں رکھا گیا۔ اس کی پوری تفصیل اخبارات میں آچکی ہے۔ ایسی خبریں بھی آتی رہی ہیں کہ اس منصوبے میں سست رفتاری کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اور جس پر چین نے اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔ علاوہ ازیں چین نے تعمیرات میں کی جانے والی کرپشن کا بھی نوٹس لیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بھارت کے لیے یہ منصوبہ گلے کی ہڈی بن کر رہ گیا ہے اور وہ اسے ہر قیمت پرناکام بنانے پر تلا ہوا ہے جس کے لیے اس نے اربوں کا فنڈ بھی مختص کر رکھا ہے اور ادھر حالت یہ ہے کہ اس کے روٹ کے حوالے سے چھوٹے صوبے انتہائی اضطراب میں مبتلا ہیں لیکن انہیں مطمئن کرنے کی بجائے حکومت اپنی ڈگر سے ایک قدم بھی آگے پیچھے ہونے کو تیار نہیں۔
بیچارے چوہدری نثار
اطلاعات کے مطابق بالآخر وزیراعظم نے بیچ میںسے چوہدری نثار کا پتا کاٹتے ہوئے آرمی چیف کے ساتھ ڈائریکٹ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ان اطلاعات پر باقاعدہ کان کھڑے کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چوہدری نثار میاں صاحب کی جگہ وزیر اعظم بننے کی بھی تیاریوں میں مصروف رہے ہیں۔ چنانچہ وزیر اعظم نے اس سلسلے میں اپنے چھوٹے بھائی میاںشہباز شریف کو بھی اس سلسلے میں تازہ ہدایات جاری کر دی ہیں۔ یہ فیصلہ وزیرخزانہ اسحق ڈار کے ساتھ مشورے کے بعد کیا گیا ہے‘ تاہم اس کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات بہت کم ہیںکیونکہ فوج اسے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھے گی اور نہ ہی دوسری طرف یہ اہلیت دستیاب ہے کہ چوہدری نثار کے خلاف اس غیر معمولی اور توہین آمیز رویے کے ہوتے ہوئے وزیراعظم فوج کے صحیح معنوں میں قریب ہونے میں کامیاب ہو سکیں گے۔
آج کا مطلع
جو مرے حق میں بظاہر کار سازی کر گیا
غور سے دیکھیں تو کیسی چالبازی کر گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں