سابق حکمران اگر قومی وسائل نہ لوٹتے تو ملک اندھیروں میں نہ ڈوبتا۔ شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سابق حکمرا اگر قومی وسائل سے اپنی جیب نہ بھرتے تو ملک اندھیروں میں نہ ڈوبتا‘‘ جبکہ ہم نے لوٹ کا مال اپنی جیب میں نہیں ڈالا اور اسے دیس نکالا دے دیا کیونکہ ہماری جیبیں چھوٹی تھیں لیکن حیرت ہے کہ اس کے باوجود ملک اندھیروں سے باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا؛ چنانچہ ہم نے بھی اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور اپنے اصلی کام پر لگے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے اتنہائی محنت سے کام کیا گیا ہے‘‘ اور اگر اس سے نہیں نمٹا جا سکا تو اس میں خود اس کا قصور ہے‘ ہماری محنت کا نہیں‘ انہوں نے کہا کہ ''سابقہ حکومت نے عوام کے مسائل ختم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی‘‘ لیکن ہم اس کے لیے آئے دن بیان جاری کرتے رہتے ہیں اور مختلف اداروں سے ملکی ترقی کے حوالے سے مثبت رپورٹیں بھی جاری کرواتے رہتے ہیں‘ اس سے زیادہ توجہ اب اور کیا ہو سکتی ہے؟ آپ اگلے روز لاہور میں امریکی سفیر اور کونسل جنرل سے ملاقات کر رہے تھے۔
پاک چین اقتصادی راہداری اتھارٹی قائم
کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔احسن اقبال
وزیر منصوبہ بندی و ترقیات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''پاک چین اقتصادی راہداری اتھارٹی قائم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے‘‘ اگرچہ بعض حلقوں کی طرف سے اسے پیش کیا گیا تھا اور فوج نے بھی اس کا کنٹرول سنبھالنے کی پیشکش کی تھی لیکن اس پر اس لیے غور نہیں کیا جا سکتا کہ اس کا سارا کریڈٹ تو ہم لینا چاہتے ہیں تاکہ اس کی بنیاد پر اگلا الیکشن جیت سکیں جبکہ فوج اس میں خواہ مخواہ اپنا لچ تلنا چاہتی ہے؛ حالانکہ جس قدر مقبولیت اسے حاصل ہے کیا وہ اس کے لیے کافی نہیں ہے اور اگرچہ یہ منصوبہ وزارتوں کے اپنے مسائل اور اندرونی جھگڑوں کی وجہ سے بے حد سست روی کاشکار ہے اور دو چھوٹے صوبے بھی اس سے غیر مطمئن ہیں لیکن یہی تو جمہوریت کا حسن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیر اعظم کے لیے بڑا جہاز اس لیے بھیجا گیا تھا کیونکہ ڈاکٹروں نے انہیں جہاز میں چہل قدمی کی ہدایت کی تھی‘‘ جو انہوں نے سیڑھیوں پر اترنا چڑھنا سمیت دو دن بعد ہی شروع کر دی تھی اور شاپنگ کرنے کے لیے بھی چلے جایا کرتے تھے‘ اس لیے چہل قدمی کی انہیں عادت بھی پڑ چکی تھی جس کا جاری رکھنا ضروری تھا۔ ہیں جی! آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
نواز شریف کی جانب سے کشمیر پر پیش رفت کرتے ہی دھرنے شروع ہو جاتے ہیں۔ پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے قدم اٹھاتے ہی دھرنے شروع ہو جاتے ہیں‘‘ اور مسئلہ کشمیر کہیں بیچ میں ہی رہ جاتا ہے کیونکہ دونوں وزرائے اعظم کی ماشاء اللہ اس قدر گاڑھی چھنتی ہے کہ مودی صاحب ہمارے وزیر اعظم کا کہا ٹال ہی نہیں سکتے جبکہ صاحبِ موصوف کا کاروبار بھی وہاں پر خیرو خوبی سے چل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تبدیلی دھرنوں سے نہیں ‘ پرچی سے آتی ہے‘‘ اور پرچی سے بھی تب آتی ہے اگر اس کا پہلے سے پورا پورا انتظام کر لیا جائے یعنی الیکشن کمیشن بھی اپنے ہاتھ میں ہو‘ ماتحت عملہ بھی اور پنکچر لگانے کا سامان بھی وافر مقدار میں موجود ہو‘ اس کے علاوہ ووٹوں کے تھیلے ادھر ادھر کرنا اور انہیں الیکشن کے بعد اپنی پرچیوں سے بھرنے کا بھی اہتمام کر لیا گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیر اعظم کے پاس کشمیر کو آزادی دلانے کا نسخہ موجود ہے‘‘ لیکن وہ اسے اس لیے استعمال نہیں کرتے تاکہ مودی صاحب ناراض نہ ہو جائیں اس لیے کشمیر کو کشمیریوں ہی کے سپرد کر رکھا ہے کہ جٹ جانے اور بجو جانے۔آپ اگلے روز دھیر کوٹ آزاد کشمیر میں کارکنوں کی ایک ریلی سے خطاب کر رہے تھے۔
مارشل لاء لگانے کی کوششوں
کو ناکام بنا دیں گے۔ پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ ''مارشل لاء کی کوشش ہوئی تو ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور اسے ناکام بنا دیں گے‘‘ صرف ہمیں یہ پتا چلنا چاہیے کہ اب مارشل لاء کی کوشش ہونے والی ہے، اس کے بعد سارا ہمارا ہی کام ہے؛ اگرچہ یہ کم بخت پتا ہی نہیں چلنے دیتا اور آناً فاناً آ دھمکتا ہے؛ حالانکہ مردوں کا کام یہ ہے کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے اپنے حریفوں کو اس کی باقاعدہ اطلاع دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم بھی ترکی کے عوام کی طرح ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں گے‘‘ لیکن یہاں تو مارشل لاء ٹینکوں کے بغیر ہی آ جاتا ہے اس لیے ہم کس کے سامنے لیٹیں گے، چنانچہ رات کو چین کی نیند سونے کے بعد جب صبح اٹھتے ہیں تو مارشل لاء لگ چکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''شاہ نواز زندہ ہے‘ اس کے خون سے انقلاب آئے گا‘‘ اگرچہ اس کے خون کا حساب زرداری صاحب کو بھی دینا چاہیے لیکن وہ نہیں دیتے اور اس لیے انقلاب بھی نہیں آتا۔ یہ سب کچھ اگلے روز شاہنواز بھٹو کی برسی کے موقع پر لاہور میں کہا گیا۔
قندیل بلوچ کے مقدمہ قتل میںشامل
تفتیش کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ مفتی قوی
مفتی عبدالقوی نے کہا ہے کہ ''قندیل کے مقدمہ قتل میں مجھے شامل تفتیش کیا جانا سمجھ سے بالاتر ہے‘‘ کیونکہ اس بیچاری نے تو میرے پاس بیٹھ کر چند سلفیاں ہی بنائی تھیں بلکہ میرے سر سے ٹوپی اتار کر بھی پہن لی تھی جو کہ بہت بڑی گستاخی تھی اور اس کی سزا اسے ملنا چاہیے تھی جو مل بھی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ''قندیل بلوچ کا جب بھی ذکر آتا ہے میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں‘‘ اس لیے اس کے بارے میں پولیس اگر مجھ سے کچھ نہ ہی پوچھے تو بہتر ہے؛ البتہ میں نے اگر اسے اپنے اٹھارویں نکاح میں لانے کی بات کی بھی تھی وہ شرع کے عین مطابق تھی کیونکہ اس وقت میری تین ہی بیویاں حیات ہیں اور چوتھی کی پوری پوری گنجائش اب بھی موجود ہے؛ تاہم اس کا بھی ذکر اسے نہیں کرنا چاہیے تھا اور اسے اس کی سزا بھی ملنا چاہیے تھی جو بالآخر مل کر ہی رہی کیونکہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں اپنے مدرسہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
آج کا مقطع
دریا ہے ‘ ڈوبنا ہو تو پایاب ہے، ظفرؔ
ساحل پہ بیٹھ جائو تو گہرا ہے اور بھی