"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور ٹوٹا

کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی امداد 
جاری رکھیں گے: نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم کشمیریوں کی اخلاقی و سفارتی امداد جاری رکھیں گے‘‘ کیونکہ اخلاق ہی ایک ایسی جنس ہے جو ہمارے پاس منوں اور ٹنوں کے حساب سے پائی جاتی ہے اور جس کا اظہار ہمارے ہر کام سے ہو رہا ہے جو الیکشن جیتنے سے لے کر ہر میدان میں پایا جاتا ہے اور جس میں سے ہم کشمیریوں کو بھی دے سکتے ہیں اور اسی طرح سفارتی امداد بھی وافر مقدار میں موجود ہے جس کا شاندار مظاہرہ دنیا بھر کے ملکوں میں ہمارے سفیر حضرات کر رہے ہیں، جس سے کشمیر پر ہماری پوزیشن روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہے اور ہم خود اس حساب سے مضبوط اور تنو مند ہوتے جا رہے ہیں کہ ہمیں پہلوان کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، بلکہ ہمارا بنیادی تعلق بھی پہلوان خاندان سے ہی ہے، اس لیے اپنی روایات کو زندہ رکھنا ہمارے لیے اور بھی ضروری ہو گیا ہے، ہیں جی؟ بلکہ امرِ واقعہ تو یہ ہے کہ خاکسار خود بھی کشمیری ہے اور کشمیری کھانے بطور خاص پسند ہیں۔ آپ اگلے روز مظفر آباد میں جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔
انتخابی دنگل وہی پہلوان جیتے گا جس
میں جان ہو گی: شہباز شریف
خادم علیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''انتخابی دنگل وہی پہلوان جیتے گا جس میں جان ہو گی‘‘ اور ہم نے سالہا سال کے مسلسل اقتدار کے دوران جتنی جان اکٹھی کر لی ہے اس کے ساتھ کوئی پہلوان ٹھہر کر تو دکھائے جبکہ اس میں ماشاء اللہ روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے، ملک کے اندر بھی اور ملک کے باہر بھی، بلکہ اب تو جان کی یہ بدہضمی بھی شروع ہونے والی ہے اور جس کے آثار صاف نظر بھی آ رہے ہیں کیونکہ اصل پہلوانوں کے ساتھ ایک حالیہ ملاقات کا بھی کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے اور صحیح معنوں میں اس جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران 2018ء تک صبر کریں‘‘ اور کچھ لوگوں کا اپنا پیمانۂ صبر بھی لبریز ہو رہا ہے اور اب کسی وقت بھی چھلک سکتا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں نیک ہدایت دے، آمین۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنا دینے والے ایک بار اس قوم کی قسمت کو کھوٹا کرنے کے در پے ہیں‘‘جسے ہم نے بڑی مشکل سے کھرا کیا ہے اور خود بھی اتنے کھرے ہو گئے ہیں کہ کھٹکائیں تو ٹن کی آواز نکلتی ہے جسے ہماری رخصتی کی آواز بھی کہا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز کالا شاہ کاکو میں ایک پروجیکٹ کا افتتاح کر رہے تھے۔
استعفوں کا آپشن آیا تو سب سے
پہلے میں استعفیٰ دونگا:شیخ رشید
سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''استعفوں کا آپشن آیا تو سب سے پہلے میں دوں گا‘‘ اور میرے اکیلے کا استعفیٰ بھی سوا لاکھ استعفوں کے برابر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ٹینک آئے تو فضل الرحمن نیچے لیٹیں گے‘‘ جس سے مارشل لاء اور فضل الرحمن دونوں سے نجات حاصل ہو جائے گی بلکہ خود ٹینک بھی بری حالت سے دوچار ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''میں تو پہلے بھی مارشل لا آنے پر سگار پی رہا تھا‘‘ البتہ اب عمران خان نے مٹھائیاں بٹنے کی خوش خبری سنائی ہے تو منہ بھی میٹھا ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ''اپوزیشن میں نمبر دو ڈھائی پارٹیاں اپوزیشن سے ملی ہوئی ہیں‘‘ جبکہ خاکسار نے تو پہلے پہل حکومت کے ساتھ ملنے کی بھی بھرپور کوشش کی تھی لیکن حکومت انکار کر کے ایک ایسے سیاستدان سے محروم ہو گئی جو سیاست کے ساتھ ساتھ علمِ نجوم میں بھی خاصہ درک رکھتا ہے ورنہ میں آج بتا سکتا تھا کہ حکومت اب کتنے دن کی مہمان ہے اور عمران خان کو چند روز میں مزید کتنے آدمی چھوڑ جائیں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گپ شپ کر رہے تھے۔
اقلیتوں کی خدمت کے باعث پاکستان کا
امیج دنیا بھر میں بہتر ہو رہا ہے:صدیق الفاروق
چیئرمین مترکہ وقف املاک بورڈ صدیق الفاروق نے کہا ہے کہ''اقلیتوں کی خدمت کے باعث پاکستان کا امیج دنیا بھر میں بہتر ہو رہا ہے‘‘ اور چونکہ اکثریت کی تمام تر خدمت سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں اس لیے اب اقلیتوں کی طرف توجہ دے رہے ہیں جن میں سے ہندوئوںکو مسلمان بنانے کا نیک عمل بھی زور و شور سے جاری ہے اور ہندو لڑکیوں سے زبردستی شادی کی کارروائیاں بھی روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہیں اور سینکڑوں ہندو خاندان ہر روز سرحد پار کر کے بھارت جا رہے ہیں اور یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کیونکہ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو یہ اقلیت تو ملک سے ویسے ہی نیست و نابود ہو جائے گی تو ہم خدمت کس کی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی اقلیتوں سے ''خصوصی محبت رکھتے ہیں‘‘ جس کے جواب میں بھارتی وزیر اعظم بھی وہاں سے تعلق رکھنے والی مسلم اقلیت سمیت مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے خصوصی محبت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ آپ اگلے روز نارووال میں میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دے رہے تھے۔
فاطمہ کی فریاد
نامور میوزک ڈائریکٹر فیروز نظامی کی 88 سالہ بیوہ غلام فاطمہ نے، جو کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہی ہیں، کہا ہے کہ اگر حکومت ان کی مدد نہیں کر سکتی تو انہیں واپس بھارت بھیج دیا جائے۔ وہ فلم انڈسٹری کا سنہری زمانہ دیکھ چکی ہیں جب لتا منگیشکر، مدھو بالا اور دلیپ کمار ان کے گھر آیا کرتے تھے۔ لاہور سے ایک اخبار نویس کی رپورٹ کے مطابق فاطمہ نے بتایا کہ شوکت حسین رضوی نے ان کی سفارش پر دلیپ کمار کو اپنی فلم ''جگنو‘‘ میں کاسٹ کیا جو اپنی فلم ''جوار بھاٹا‘‘ ناکام ہونے کے بعد بے حد مایوس ہو چکے تھے اور جس کے ہِٹ ہونے پر دلیپ کمار سپرسٹار بن گئے۔ محمد رفیع کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا جنہیں ''جگنو‘‘ ہی سے شہرت ملی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ممبئی میں ان کے ہاں ہی رہا کرتے اور وہ ان کا خیال رکھا کرتیں، جب وہ لاہور سے شفٹ کر چکے تھے اور اپنی دو وقت کی روٹی کے لیے جدوجہد میں مصروف تھے۔ انہوں نے کہا کہ میری اور فیروز نظامی کے اصرار پر ہی شوکت حسین نے انہیں اپنی فلم ''جگنو‘‘میں نور جہاں کے ساتھ گانے کا موقع فراہم کیا اور انہوں نے اپنا مشہور گانا ''یہاں بدلہ وفا کا بیوفائی کے سوا کیا ہے‘‘ گا کر شہرت حاصل کی۔
انہوں نے بتایا کہ فیروز نے اس زمانے کے ہٹ گانوں کی دھنیں تیار کیں جن میں ''چاندنی راتیں‘‘ ، ''تیرے مکھڑے دا کالا کالا تِل وے‘‘ شامل ہیں اور ''دوپٹہ‘‘ ، ''سکون‘‘ ، ''قسمت‘‘ اور ''چن وے‘‘ جیسی فلموں کی دھنیں تیار کیں۔ وہ اس بات پر فخر کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنے شوہر فیروز نظامی سے مل کر دلیپ کمار اور محمد رفیع جیسے فنکاروں کو اس مقام پر پہنچایا جس پر وہ آج سرفراز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ پاکستان چلے آنے کے بعد بھی انہوں نے ہمیں یاد رکھا اور ہمیں ملنے کے لیے آتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی بدقسمتی کا آغاز 1975ء میں ہوا جب فیروز کی وفات ہوئی اور میرے ساتھ سرد مہری کا سلوک ہونے لگا۔ ایسے ایسے ستاروں کی رہنمائی کرنے والی فاطمہ اب بھٹی چوک کے ایک محلہ، جو جوگی کہلاتا ہے، میں ایک بیڈ روم کے کرائے کے ایک گھر میں رہائش پذیر ہیں اور اپنے بستر سے اٹھنے میں ناکام ہونے کے باوجود اپنے گھر بھینڈی بازار بھارت میں جانے کی کوشش میں ہیں۔ شروع میں، انہوں نے بتایا کہ میں پاکستان آنے پر مطمئن تھی کیونکہ یہاں فلمی صنعت ترقی کر رہی تھی اور فیروز نظامی کو ایک چوٹی کا میوزک ڈائریکٹر سمجھا جاتا تھا جو اس وقت 16 فلموں پر کام کر رہے تھے اور ان کی وفات کے بعد مجھے ایسے حالات سے گزرنے کی ہرگز امید نہ تھی۔ انہوں نے بتایا کہ میرے پانچ بیٹے ہیں جو بالکل معمولی نوکریوں پر ہیں۔ وہ پاکستانی حکومت سے سخت مایوس اور غمزدہ ہیں جو ان لوگوں کو نظرانداز کر رہی ہے جنہوں نے قوم کی خدمت کی۔ بھارت میں ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہوتا کیونکہ وہاں کی حکومت ایسے خاندانوں کی خبر گیری کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے یہاں وزیر اعلیٰ تک کو درخواستیں دیں کہ ان کی مدد کی جائے لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور اب حکومت سے میری آخری التجا یہ ہے کہ اگر وہ میری مدد نہیں کر سکتی تو وہ مجھے واپس بھارت بھیجنے کا ہی انتظام کر دے تاکہ میں وہاں آرام سے مر تو سکوں۔
آج کا مقطع
نئی تعمیر کے شوقِ فراواں میں کسی دن
محبت کو، ظفرؔ، مسمار کر کے دیکھنا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں