"ZIC" (space) message & send to 7575

’’آدمی غنیمت ہے‘‘ از سیدانیس شاہ جیلانی

مرنے اور جینے کی یہ آنکھ مچولی از آدم تا ایں دم چلی آ رہی ہے۔ ابا مرحوم سید مبارک شاہ جیلانی کی یاد میری زندگی کا ایک حصہ ہے۔ مرنے والے کی اپنی اولادوں کے حق میں ایک خواہش ایک کوشش اور کاوش یہ تھی کہ خوب پڑھا کریں‘ پڑھ پڑھ کر لکھنے بھی لگیں‘ ادیب کہلائیں‘ شاعر بن جائیں‘ یہ صلاحیتیں تو ہمارا مقدر کیا بنیں گی۔ میرا یارانہ محمد علی صدیقی‘ انور شعور‘ سحر انصاری سے کیا ہوتا اور شکیل عادل زادہ‘ جون ایلیا کو خاطر میں لانے کی تک ہی کیا تھی‘ میں تو رئیس الشعرا حضرت رئیس امروہوی کی گل افشانی و گفتار کے مزے لوٹتا رہا‘ وہ تو اپنا جی بہلاتا رہے اور میں نے اس''سستی تفریح‘‘ سے اور کچھ کمایا ہو یا نہ کمایا ہو‘ اتنا ضرور ہوا شاعروں اور ادیبوں کا ایک خوف سا جو ذہن پر مسلط رہتا تھا وہ جاتا رہا‘ اسے بھرم کھلنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ حضرت رئیس اپنی تمام تر آوارہ گفتگوئوں کے باوجود بے حد ذہین ‘ سیانے اور غورو فکر ہی نہیں‘ مصلحت کے آدمی تو ہیں ہی‘ بزرگوں کی ہم نشینی اور دریوزہ گری میں میرا بھلا نہ ہوا‘ ایسی تو خیر کوئی بات نہیں‘ بقدر ظرف و نظر استفادہ ہوتا رہا۔ یہ سودا اس اعتبار سے گھاٹے کا یوں رہا کہ اپنے ہم عمر ہم عصر معمولی ذہین و فطین نوجوانوں سے ایک فاصلہ خود ساختہ پیدا کر لیا‘ یاران میکدہ بھی مجھے کچھ زیادہ بوجھ بجھکڑ سمجھ کر دامن کشیدہ ہی رہے۔ سرسری صاحب سلامت سلام دعا اور کچھ نہیں۔ کوئی کتاب تھی‘ کسی رسالے کی جستجو ایک دن مجھے جون ایلیا کے کٹیا نما کمرے میں بالآخر لے ہی گئی، چوکڑی جمی ہوئی تھی‘
بحث زوروں پر تونہیں‘ میں نے یہی جانا‘ نہایت سنجیدگی سے رہی تھی‘ میرا کمرے میں قدم رکھنا تھا کہ سناٹا چھا گیا‘ سوالیہ نگاہیں بالائے بے درماں کا جائزہ لینے لگیں۔ مخل تو میں ہو ہی چکا تھا‘ یہ خامشی معنی خیز نظر آئی، ایک دوجے کا منہ دیکھ کر راز یہ فاش کیا گیا‘ مسئلہ ایک لڑکی ہے‘ جون کی جان پر بنی ہوئی ہے‘ بولو کیا کریں‘ مرحلہ آزمائش کا آ پہنچا ہے تو پھر کیا ہوا‘ آزمانے میں حرج ہی کیا ہے‘ اس زرّیں اور نیک مشورے کا اعلان داغ کر میں تو چلا آیا‘ ردِعمل جاننے کی کوشش میں کیوں کرتا، بے پرکی ہانک چکا اور کیا کرتا، کوئی ایسی ایسی حرکت جون کر بھی گزرے ہوں‘ دل اس بات پر تھکتا نہیں‘ جون محبتوں کی عمر کو پہنچ چکے تھے‘ طوفانی عشق اور وارفتہ ہنگامہ خیزیوں کا بل بوتا کیا تھا، کیا جون میں؟ نظر تو کہیں نہیں آیا‘ مدتوں بعد یہ قصہ زاہدہ کو میں نے سنایا تو صرف مسکرا کر رہ گئیں‘ طرح دے جانے سے بدگمانی کا حق مل ہی جاتا ہے، آپ میری تائید کریں گے۔
زاہدہ عورت کاہے کو ہیں‘ اچھا خاصا مردُوا ہیں‘ بیس پچیس منٹ میں بن سنور کر ناشتے کے لیے مکھن دوہری روٹی لینے نکل جائیں گی‘ بچوں کو سکول لے جانا‘ کاغذات سمیٹنا اور دفتر میں صبح سے شام تک ٹکی ہوئی ہیں، پورے مردانہ جاہ و جلال کے ساتھ‘ شور بڑا سنیے گا مگر کھانا اک ذرا سی ڈبیہ میں سر بمہر جاتا ہے‘ دفتر میں چائے کے دور چلتے دیکھ کر انگیٹھی چولہے کا یقین تو ہو ہی جاتا ہے‘ اس کا کچھ طے نہیں ہے کہ سالن اور بھاجی گرم کر کے کھایا بھی جاتا ہو گا‘ دفتری جھمیلوں میں یہی تو ہوتا ہے‘ وقت ہی کی تو برکت ہوتی ہے‘ الٹے سیدھے پانچ سات نوالے زہر مار کیے‘ پیٹ بھرنے کو پانی بڑی مفید غذا ہے‘ پانی قوتِ ہاضمہ کو تیز بھی کر دیتا ہے‘ کھانا کھایا اور پھر جت گئے‘ اسی میں شام کے پانچ بجا دیئے، برسوں کے اس معمول اور بے آرامی نے اب رنگ دکھانا شروع کر دیا ہے‘ اوقات کار کو تقسیم کرنے کا بے خیالی میں دھیان نہیں آنے دیا جاتا ورنہ دوپہر کے کھانے کے بعد اونگھے بغیر جیا تو نہیں جاتا۔ قویٰ مضمحل نہ تھے تو اب ہو جائیں گے‘ بلکہ ہو چلے‘ قیلولہ اعصاب کو کمزور نہیں ہونے دیتا‘ گھر میں بات بات پر جل بھن جانا‘ تیوری چڑھ جانا‘ منہ پھول جانا ار چپ سادھ لینا‘ یہ سب پیٹ کی خرابی کی معروف علامات ہیں‘ یہ خوب ہے کہ دس برسوں میں پیٹ نکلا ہوا ہم نے نہیں دیکھا۔ شروعات میں یونہی سی تھیں‘ شادی کیا ہوئی‘ اب تو ماشاء اللہ تین بچے بھی منہ پر تو پڑتے نہیں‘ کوئی کہہ دے بٹیا کے ہنو زہاتھ ہی پیلے کہاں ہوئے ہیں تو چلیے خنیف سے آ مل کے بعد یقین بہرحال کرنا تو پڑے گا‘ چھبیلی بنی ہوئی موٹر میں اڑی پھرتی ہیں۔ موٹر چلانا تو چلاتے چلاتے آتا ہے‘ زاہدہ اس فن میں بھی طاق ہیں اور مشتاق بھی‘ اپنی گاڑی کمائی اور نادان دوستوں یعنی ایں جانب کی پسند اور مشوروں سے خریدی گئی گاڑی صرف چلائی ہی نہیں جاتی۔ پہیہ بیٹھ جائے توپوری مہارت سے زنگ آلود سازو سامان سے اٹھا بھی لیتی ہیں‘ اور وہ آپ کے میاں جون کیا کرتے ہیں‘ بھائی شریف آدمی ہوا کھایا کرتے ہیں ‘ بات کو سمجھا کرو‘ جسم مشرقی انداز مغربی پتلون شلوار ساڑھی سب چلتے ہیں اور سج جاتے ہیں۔ حیدر نقی کی شادی میں ساڑھی کی دھج تو میں نے بھی دل تھام کر ہی دیکھی تھی‘ وجاہت کا پیکر بنی تھیں ‘ وہ زمانہ دور کے جلوئوں کا تھا اور یہ حسن و عشق معمولی ہے، سب پھر بھی بیٹھے رہے اگرچہ اشارے ہوا کیے‘ بے ضرر صاحب سلامت‘ اور تو اور شرابیں تک جون کی دیکھا دیکھی اڑائیں‘ جلے ہوئے دل کو اور کوئلہ کرنے کے لیے سگریٹ بھی پھونکے‘ خوف اور ڈر کیا‘ کسی سے دبنا تو وہ جانتی ہی نہیں‘ پان اورپاندان کا گزر خدا جانے کیوں نہیں‘ خونخوار نہیں‘ بڑی جی دار ہیں زاہدہ‘ پستول بندوق سے بھی بڑا لگائو ہے‘ تیر نظر سے شکار کرنے والے توپ و تفنگ پر آتر آئے یہ سانحہ خوب ہوا۔
ہر اچھی چیز کے لیے ترسنے اور پھر سبھی کچھ حاصل کر لینے والی ملنسار ایسی نکلیں‘ مجھے تو بارہا یہی خیال آیا‘ مجھ میں یہ کیا شرافت ہے‘ مٹی جا رہی ہیں، ذرا ہمت کر لو‘ حرج ہی کیا ہے‘ وہ تو میری ازلی بزدلی کام کر گئی ورنہ کیا کیا خفت نہ اٹھانا پڑتی‘ بالکل پہلو میں چپک کر باتیں کرتی ہیں‘ بڑی آسانی سے سانسوں تک کا شمار ہو جائے‘ دل کی دھڑکنیں گن ہی کیا لو‘ یوں کہو ایک ہو جاتی ہیں‘ کوئی تحریر پڑھنا ہو‘ کوئی بات بتانا ہو‘ بالکل گری پڑتی ہیں‘ درد رگ جاں بن کر رہ گیا۔ آنکھ سے لہو بن کر نہیں ٹپکا‘ اہل نظر کی یورش سے محفوظ رہنا کہاں ممکن ہے۔ دو چار ایک نے تو اپنی دنیا ہی تباہ کر لی لیکن یہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ وہ تو خیر اہل دل تھے جون کے دوستوں نے کب بخشا ‘ خدا نظر بد سے بچائے پوری ایک فوج ظفر موج ‘ ایک سے بڑھ کر ایک من موجی‘ ایک قطار لگی ہوئی ہے‘ گھنٹوں دھرنا دے کر بیٹھ جانا ایک معمول بن گیا۔
آج کا مطلع
ہم نے اُسے مدد کو پکارا تو ٹھیک ہے
اُس کو اگر نہیں ہے گوارا تو ٹھیک ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں