کیا ماسٹر اسلم کسی کو یاد ہے؟
کراچی سے ہمارے ایک بھائی پیر زادہ سلمان کے مطابق ماسٹر اسلم کہاں غائب ہو گیا ہے؟ ہاں‘ وہی رکشا ڈرائیور لڑکا اسلم‘ فیس بک پر جس کا گانا سن کر لیجنڈ لتا منگیشکر نے نہایت فیاضی سے تعریف کی اور جس وجہ سے وہ راتوں رات ایک ہیرو بن گیا تھا۔ یہ اپریل کے دوسرے ہفتے کی بات ہے جب اسلم کا ایک ویڈیو کلپ سنا گیا، جس میں رکشا میں بیٹھا بڑے غلام علی خان کی ٹھمری ''یاد پیا کی آئے‘‘ گا رہا تھا اور جو ایک وباء کی طرح پھیلتے ہوئے لتا جی کو بھی بیحد متاثر کر گئی۔ پلے بیک لیجنڈ نے فوری طور پر اس کلپ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ رکشا کا ہینڈل تھامنے کی بجائے اسے مائیکرو فون کے آگے نغمہ سرائی کرنی چاہیے۔ ان کی طرف سے اسلم کے ہنر کی تصدیق کے بعد پاکستانی میڈیا پر ایک ہسٹیریائی ردِعمل کا مظاہرہ ہوا اور چشم زدن میں اسلم کم و بیش ہر ٹی وی چینل پر انٹرویو دیتا اور یہ کہتا ہوا پایا گیا کہ میں لتا جی کا شکرگزار ہوں اور اپنا ریاض دوبارہ شروع کرنے کا عزم کیا جو اس کی مالی مشکلات کی وجہ سے متاثر ہو گیا تھا اور اس نے یہ کیا بھی۔ اور کوئی شک و شبہ نہ رہے کہ وہ ایک خاص الخاص نغمہ کار ہے اور جو لوگ موسیقی کو جانتے ہیں‘ آپ کو بتائیں گے کہ اس نے غلط سُر کبھی خال خال ہی لگایا ہوگا۔
ٹی وی انٹرویوز کے دوران اس کے ساتھ وعدے کیے گئے کہ اب اس کی زندگی ایک نئی کروٹ لے گی‘ بہتری کی طرف۔ ایک موقع پر بھارتی لوک اور فلمی مُغنّی دلیر مہدی نے کہا کہ وہ عید کے تحفے کے طور پر اسلم کو ایک فلیٹ خرید کر دے گا۔ اس نے اسلم سے کہا کہ وہ پاکستان کے کسی بھی شہر میں گھر حاصل کر لے گا۔
پھر میڈیا پر اس کے ساتھ وعدے کیے گئے کہ ا س کا مشکل وقت ختم ہو چکا ہے اور اب وہ آسائش بھری زندگی گزارتے ہوئے اپنی آواز کا جادو جگاتا رہے گا۔ کیا وہ وعدے وفا ہوئے؟ اسلم شوبز کی دنیا سے یکایک غائب کیوں ہو گیا؟ ایک موقع پر بات کرتے ہوئے اسلم کے چہرے سے مایوسی جھلک رہی تھی۔ اس نے کہا کہ ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ میں اب بھی وہیں پر ہوں جہاں کبھی تھا۔ دلیر مہدی نے کہا تھا کہ وہ عید کے موقع پر فلیٹ کی چابیاں اس کے حوالے کرے گا‘ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔
سو‘ اب وہ اپنی گزر اوقات کیسے کر رہا ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ جو اس کے قریبی ہیں‘ اس کی امداد کر رہے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل نے اس کے ساتھ رابطہ کیا تھا کہ وہ چند روز میں اسے ایک ملازمت فراہم کرے گا۔۔۔۔
جمہوریت مخالف ریفرنڈم؟
اخباری اطلاع کے مطابق پولیس نے بنّوں میں ایک فلاحی تنظیم کے سربراہ کو گرفتار کر لیا جو جمہوری حکومت کی کارکردگی اور فوجی مداخلت کے بارے میں ریفرنڈم کا مطالبہ کر رہا تھا۔ محمد اسلم خان چیئرمین الاسلم فائونڈیشن‘ بنوں پریس کلب کے سامنے کیمپ لگا کر اس نام نہاد ریفرنڈم کی پیش رفت میں مصروف تھا جس میں پبلک سے پوچھ رہا تھا کہ آیا وہ پے بہ پے جمہوری حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں یا جنرل راحیل شریف کے ذریعے جمہوریت کو مضبوط کروانا چاہتے ہیں؟ موقع پر جنرل راحیل شریف اور مختلف سیاسی قائدین کی تصاویر لٹکانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا اور بیلٹ باکس بھی رکھے گئے تھے۔ لوگوں سے چھپے ہوئے بیلٹ پیپرز کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ریفرنڈم صبح نو بجے شروع ہوا جس میں تقریباً دو سو لوگوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔
بہرحال‘ پولیس نے مداخلت کی اور کیمپ سے بیلٹ پیپرز، پوسٹرز اوردیگر سازو سامان پر قبضہ کر لیا۔ ڈپٹی کمشنر عادل عدیل کی ہدایت پر ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر نے پولیس کے ہمراہ ریڈ کر کے اسلم خان اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا اور ایم پی او کے تحت انہیں جیل بھیج دیا۔ ذرائع کے مطابق بنوں میں اس ریفرنڈم کا یہ پہلا فیز تھا جس کے بعد کوہاٹ اور پشاور میں بھی اسے منعقد کیا جانا تھا اور نتائج کا اسلام آباد میں اعلان کیا جانا تھا۔ اس پر کسی تبصرے کی ضرورت نہیں!
الگ الگ اور مل کر
کینیڈا سے غزل گو افضال نوید کا چند روز پہلے فون آیا کہ وہ ایک جذباتی وفور میں اگلے روز جنگل کی طرف نکل گئے جو شہر سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ وہاں پہنچ کر موصوف پر شاعری نے جو غلبہ حاصل کیا تو انہوں نے میرے رنگ میں شعر کہنا شروع کر دیے، حتیٰ کہ غزل مکمل ہو گئی جو وہ مجھے میسیج کر رہے ہیں۔ اس کے تھوڑی دیر بعد انہوں نے کنفرم بھی کرنے کی کوشش کی کہ آیا غزل مل گئی ہے؟ میں نے کہا‘ میں سونے لگا ہوں‘ صبح کو موبائل کھول کر معلوم کروں گا‘ لیکن صبح وہ غزل مجھ تک نہیں پہنچی تھی‘ مجھے بھی تقاضا کرنا یاد نہ رہا۔
یاد آیا کہ پاک ٹی ہائوس میں ناصر شہزاد‘ شہزاد احمد اور ناصر کاظمی بیٹھے تھے کہ ایک ستم ظریف بولا‘ کیا وجہ ہے کہ جب ناصر کاظمی اور شہزاد احمد الگ الگ شعر کہتے ہیں تو کامیاب رہتے ہیں‘ لیکن جب وہ مل کر ایسا کرتے ہیں تو وہ بات نہیں ہوتی۔ افضال نوید نے یہ بھی کہا تھا کہ مذکورہ غزل کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ میں نے اور انہوں نے مل کر کہی ہے۔
اور اب خانہ پُری کے طور پر تازہ غزل
بھیجتے ہیں جواب کیا ‘دیکھو
ایک آواز تو لگا دیکھو
دل ہی جب آخری رکاوٹ ہے
تو یہ دیوار بھی گرا دیکھو
جا رہا ہے کدھر ہُنر اپنا
کس طرف کی ہے یہ ہوا دیکھو
اِس سے پہلے کہ ڈور کٹ جائے
اِن فضائوں میں سرسرا دیکھو
دیکھنے والے دیکھ بھال گئے
اب یہی ہے بچا کُھچا دیکھو
پھٹ پڑے گی کمینگی دل کی
جس قدر بھی اِسے چُھپا دیکھو
آنکھ بھر کر نہ دیکھنا اُس کو
تھوڑا تھوڑا ‘ ذرا ذرا دیکھو
یہ بھی کیا دیکھنا ہُوا آخر
ایک ہی چیز بارہا دیکھو
اے ظفرؔ ‘ قسمت آزمائی سہی
آپ بھی اُس گلی میں جا دیکھو
آج کا مطلع
اک دشت اور بھی مرے گھر کی بجائے تھا
یہ دوسرا سفر بھی سفر کی بجائے تھا