دُھونی رمائے جاتے ہیں‘ رال ٹپکی پڑتی ہے‘ فرداً فرداً سبھی غُرّائے۔ ایک ایک گُھرکی کام کرتی رہی‘ کانٹے کی لڑکی صحیح سلامت نکل گئی۔ کوئی ترغیب کوئی تحریص کارگر نہ ہوئی۔ سبھی کا کچا چٹھا جون کے گوش گزار ہوتا رہا۔ وہ ایک وضعدار‘ کسی سے کیا بگاڑتے‘ شکوۂ یاراں کو غبارِ دل میں پنہاں کر لیا‘ اس لیے کہ غالبؔ نے کہا ہے ع ایسے گنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا۔
تصویر کائنات میں رنگ بھرنے والی قوم‘ میزبان تو ہوتی ہے‘ مہربان بھی کہہ سکتے ہیں‘ یہ کیا ہے کہ مہمان نواز نہیں ہوتی‘ مسکراہٹ میرے آپ کے چہروں پر کھیل رہی ہے ‘یکساں اور مشترک‘ اس میں طنز سے زیادہ شکست خوردگی نمایاں ہے اور اسی میں ایک لطف بھی ہے‘ میں نے کوئی ایسی ویسی بات تو نہیں کہہ دی۔ اپنے اور بہت سے نیک بندوں کے تجربات کی روشنی میں یہ ''حکیمانہ‘‘ نکتہ بلکہ فتنہ اٹھا رہا ہوں‘ شوہر کے دوستوں کا بیویاں باورچی خانوں کے پانی پت میں جو حشر اور تکا بوٹی کرتی ہیں وہ کوئی راز کی تو نہیں، ڈھکی چھپی کہہ لیجیے کہ ہے‘ کیفیت کی ذرا سی خرابی بڑے بڑے طوفان اٹھا دیتی ہے‘ بھونچال آ جاتا ہے‘ ہزاروں کوسنے، لعنت پھٹکار‘ یہ ہماری تہذیبی زندگی کا حصہ ہے‘ لیکن صورت حال اس کے برعکس اور مربیانہ ہو تو استعجاب بالکل فطری ہو گا۔ زاہدہ کو کھانے پینے کا شوق بھی ہے اور ذوق تو ظاہر ہے‘ ہے ہی‘ ادھر ہمارا ورودِ مسعود کراچی میں
ہوا اور کھانا کھانے کے تقاضے ہونے لگے‘ تنہا ہم کبھی گئے نہیں‘ ایک پیٹو دوست ہمارے ہم رکاب رہے‘ امام بخش سومرو حق نمک ادا کرنے کا گر خوب جانتے ہیں‘ کھا کھا کر ہلکان ہوتے صرف انہی حضرت کو دیکھا ہے۔ دعوتیں مسلسل ہوتی ہیں ‘ کراچی جانا شرط ہے‘ صاف ستھرے اجلے قیمتی غیر ملکی برتنوں میں انواع و اقسام کے کھانے‘ یہ کھائو‘ وہ نہ کھائو‘ کم نہیں زیادہ کھائو‘ کھلا کھلا کر ہمیں نڈھال کر کے گھر سے نکالا نہیں جاتا‘ اماں بھائی قیلولہ بھی یہیں کر لو‘ شام کی چائے پی کر نہ ٹلتے تو کیا کرتے۔ ہنس مُکھ ‘خوش خلق‘ سیر چشم ‘ دل بڑا‘ دسترخوان وسیع کیوں نہ ہو‘ میں نے تو نہیں دیکھا‘ فرماتی ہیں سالن پکا لیتی ہوں اور خوب مزے کے‘ جون نے لقمہ ہاتھ میں لیتے ہی کہا یہ روٹی تمہارے ہاتھ کی پکی ہوئی نہیں ہے‘ ہاں میری طبیعت ٹھیک نہ تھی‘ بوا نے پکائی ہیں یہ روٹیاں‘ ویسے گھر اور باورچی خانہ سنبھال تو امی ہی نے رکھا ہے، یہ پکائو‘ وہ انگیٹھی کیا ہوئی‘ یہ دیگچہ چڑھائو‘ بچوں کے پوتڑے بدل رہی ہیں‘ دوا پلا دو اسے ‘ بوا یوں نہیں یوں صفائی کرائو گھر کی‘ چلو ہٹو تم سے نہیں ہوتا‘ ہم خود کر لیں گے۔ یہ بوا امی کو جہیز میں ملی تھیں۔ صابر و شاکر بوا‘ ماں سے زاہدہ کی چخ
وقفوں سے رہتی ہی ہے۔ جلی کٹی سنائی جاتی ہے‘ امی نہ ہوتیں تو زاہدہ اتنے پر پرزے کیا نکالتیں۔ جون کی شادی میں رئیس صاحب کو چاہیے تھا کہ مجھے بلاتے‘ نہیں بلایا گیا‘ کچھ کچھ اچانک ہوا یہ واقعہ۔ لڑکی والے سنی العقیدہ ہیں، لڑکا شیعہ ہے‘ کچھ ایسا جھگڑا چلا تو تھا‘ وہ بھی مسئلہ تھا حل ہوا‘ نکاح ہو گیا‘ لڑکی بیاہ کر سسرال آ گئی۔ رئیس صاحب نے لکھا چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوا‘ تمہیں بلایا ہی نہ جا سکا۔ جہیز میں لڑکی کتابیں لائی ہے‘ اس سے اچھا اور کیا ہوتا‘ جواب آیا میں برا کب کہتا ہوں لیکن تھا یہ سب کچھ مذاق ہی‘ میں نے سنجیدگی سے لیا تو حضرت رئیس امروہوی چپ ہو گئے۔ جونؔ کا کوئی گھر گھاٹ تو تھا نہیں‘ گارڈن ایسٹ کے بڑے بنگلے کو دونوں بڑے بھائیوں نے آپس میں بانٹ رکھا تھا‘ ایک ذرا سا کمرہ جونؔ کے قبضے میں تھا۔ عباس کھلے برآمدوں میں زندگی گزارتے چلے آ رہے ہیں‘ اور کیا ہوتا ان رنڈوئوں کے لیے‘ یہ تو کسی کے سان گمان میں بھی نہ تھا‘ اچانک جونؔ میں حرکت پیدا ہو گئی، زاہدہ کا سسرال ہی کیا تھا‘ ایک طرف بیگم رئیس اور بیگم تقی میں جنگ‘ زاہدہ سے بھی دونوں کی ٹھن گئی اور دو چار مہینوںمیں جونؔ زاہدہ کے ہاں منتقل ہو گئے ‘گویا گھر داماد ‘ وہاں زاہدہ کے گھر میں کون تھا‘ ایک بہن ایک بھائی ماں اور بُوا‘ بُوا کا بیٹا بھی‘ جون یہاں آ کر زاہدہ ہی میں کھو گئے‘ کھونا چاہیے بھی تھا لیکن یہ کھو کر پائے نہیں گئے‘ لاکھوں اشتہارات گم شدگی کے چھپے لیکن موصوف نے ہل کے نہیں دیا۔ شراب اب مہنگی ہوئی ہے‘ مہنگی سستی باقاعدگی سے ملنے لگی اور زاہدہ پر تصرف تو اب عام تھا ہی‘ مفلسی اور ناداری‘ بے کسی اور غُربت کے افسانے لکھنا اور پڑھنا اور ہے‘ دو چار ہونا ذرا مختلف بھی ہے، جان لیوا بھی۔ یہ سارے مزے ہماری زاہدہ چکھ چکی ہیں‘ چکھتی رہتی ہیں‘ بڑے باپ ڈپٹی کلکٹر کے بیٹے جو کچھ کیا کرتے ہیں، وہی کچھ زاہدہ کے ابّا نے کیا‘ اچھے دن دیکھے ہوئے تھے! بُرے وقتوں کو بھی بھگت گئے‘ جاڑے کی طویل راتوں میں‘ ٹھنڈی راتوں میں چار چار بجے صبح اٹھا کر زاہدہ کو پڑھاتے رہے۔ زاہدہ پڑھتی رہیں۔ گرتے پڑتے میٹرک پاس کر ہی لیا اور وہیں کے وہیں اسکول کی
وزارت خزانہ میں تقرر بھی ہو گیا۔ یہ بہت اچھا ہوا‘ کچھ پیٹ پالنے کا سامان تو ہوا۔ ایک سو پندرہ روپے ماہانہ نعمتِ غیر مترقبہ سے کم تو نہ تھے‘ بی اے کئے بغیر کوئی چارہ نہ تھا‘ بی اے ہی نے کہیں کلرکی تک پہنچایا۔ اخبارِ خواتین‘ وائس آف امریکہ اور مشرق کی کالم نگاری اور اچھی خاصی یافت سے نکل کر عالمی ڈائجسٹ کی ادارت تک پہنچیں‘ نہ منزل نہ مقصود‘ جونؔ سے میل جول کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا‘ زاہدہ نے اپنی بہترین صلاحیتوں کو عالمی ڈائجسٹ پر صرف کر دیا‘ ایسی لیپا پوتی کی کہ ایک بار تو دھوم ہی مچ گئی ‘ ملنگوں کے ہاتھ کی چیز پیکرِ نسوانیت کے ہاتھ لگی تو ساری کھردراہٹ جاتی رہی‘ یہ سب کچھ تھا‘ مگر اشاعت بڑھی نہیں‘ گھٹی۔ عروج ایسا بھی نہ تھا کہ زوال پذیر ہو کر دم لیا جائے‘ لیکن خُوبیٔ وقت دیکھیے‘ ایک لاہوریے سید قاسم محمود کے ہتھے تنہا زاہدہ نہیں‘ بھائی عباس جو برابر کے حصہ دار تھے وہ بھی چڑھ گئے‘ پھر کیا تھا ‘اللہ دے اور بندے لے‘ رسالے کا حلیہ ہی بگڑ گیا۔ تصویروں اور اوٹ پٹانگ تجریدی بنائو سنگھار نے عالمی ڈائجسٹ کو تیسرے درجے سے بھی نکال کر تیسری جنس میں لاکھڑا کیا...
آج کا مطلع
جہاں پہ تھا ہی نہیں، پھر وہاں سے غائب ہے
مرا ستارہ ترے آسماں سے غائب ہے