اس نے تو مکمل قبضے اور ہضم کرنے کا ڈول ڈال دیا تھا، ہمارے بیس پچیس ہزار ڈبو کر اُفتاں و خیزاں کشتی ڈوبی نہیں‘ ساحل آشنا ہو ہی گئی‘ بھائی عباس بھی دل برداشتہ ہو کر الگ ہو گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کر دیے گئے ہوں‘ پوچھو تو کوئی بتاتا تو ہے نہیں‘ آج تک دعوے سے میں تو نہیں کہہ سکتا عالمی ڈائجسٹ کا مالک کون ہے۔ بظاہر زاہدہ ہی ہیں اور اسی سے گھر چلتا اور پیٹ پلتا ہے۔ اللے تلّلے بھی بہت ہوئے گھر بدلے‘ صوفے آئے قالین بچھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پیسہ آیا تو رشتے دار بھی آئے‘ لوگوں نے بھی پہچانا۔
یہ تو سب کچھ ہوا لیکن زاہدہ کا کیا ہوا‘ مقصودِ حیات نری کھری صحافت ہوتا تو افسانہ نگاری کی وادیوں میں بھٹکنا کہاں سے نکل آیا‘ میں سمجھتا ہوں زاہدہ افسانہ نگاری میں ممتاز ہونا چاہتی ہیں‘ میں نے ان کے افسانے ان کی زبانی بھی سنے ہیں اور ''قیدی سانس لیتا ہے‘‘ میں پڑھے بھی ہیں۔ علامتی انداز نگارش کی گرفت کہیں کہیں بے حد مضبوط نظر آئی‘ عموماً ڈھیلی ڈھالی۔ گریجویٹ تو سبھی ہوتے ہیں‘ یہ تو بہت پڑھی لکھی ہیں‘ بہترین مصنف ‘ اعلیٰ درجے کی مترجم‘ اداریہ نگاری کا فن بھی جانتی ہیں اور بڑی بات چھوٹے اور غریب لفظوں میں ادا کرنے کا سلیقہ بھی ہے۔ عورتیں عام طور پر وہ جو مکھی پر مکھی مارا کرتی ہیں وہ بھی یہاں نہیں ہے۔ اسلوبِ بیان اور اندازِ خط مردوں سے ملتا جلتا‘ اندازِ
تحریر کاتبانہ‘ سطریں بالکل سیدھی‘ شاعر اور نثر نویس‘ جون اور زاہدہ کی جوڑی تو خوب ملی لیکن عالمی ڈائجسٹ کا زنگ بڑی حد تک زاہدہ کو لگ ہی گیا۔ عالمی ڈائجسٹ میں انہماک کو میں نے ہمیشہ گہری نظر سے دیکھا‘ ایک دن پوچھ ہی بیٹھی تھیں۔ میں نے کہا‘ دیکھو میں یہ کہہ رہا ہوں‘ مردوں کے کام عورتیں کس طرح کرتی ہیں‘ عورت مغربی ہی کیوں نہ ہو‘ مرد کا سہارا تو اسے چاہیے ایک نہ ایک دن۔ زاہدہ کو یہ آسودگی میسر نہیں ہے‘ فون‘ تیل‘ لکڑی کے غم میں گھلی رہتی ہیں۔ جون آزاد منش لااُبالی‘ اپنی ذات میں گم‘ زاہدہ ان کے ناز اٹھاتی بہت ہیں۔ اس کے باوجود دو چار مقام رہروانِ عشق کے لیے ایسے بھی آئے‘ قطعی علیحدگی‘ طلاق ولاق‘ زاہدہ تو ہیں ہی کمائو پُوت‘ جونؔ ڈھیلے پڑ گئے‘ کس دل اور منہ سے بنا بنایا کھیل بگاڑتے‘ بقول زاہدہ قطع تعلق چاہا لیکن جونؔ کی ضد آڑے آئی۔ شاید وہ اس خیال کو گوارہ نہیں کر سکتے کہ جو وجود ان کی ملکیت رہا ہو وہ کسی اور کی ملکیت میں چلا جائے۔ دراصل یہ شادی جونؔ کے لیے بعد از وقت اور زاہدہ نے الل ٹپ کر ڈالی۔ شخصیتوں کی ٹکر‘ کچھ انا کی کارستانی‘ عمر کا تقاضا جانگداز
نکلا‘ ہم سن شوہر ہو تو دو چار سال تو کھیلتے کودتے چھیڑ خانیوں اور حوصلے نکالنے ہی میں نکل جاتے ہیں‘ محبوبیت کا عالم رندانہ عاشقانہ اور فاسقانہ بھی ہو سکتا ہے۔ میاں بیوی کا رشتہ سبھی فلسفوں کو معدوم کر دیتا ہے‘ اور یہاں تو ایک طرح کی مشفقت بھی شاملِ حالِ زار ہے۔ جونؔ زاہدہ بچوں کی زنجیر میں بندھ چکے ہیں‘ وہ تو ٹوٹنے سے رہی‘ فنانا‘ سمینی دو بچیوں کے بعد ولی عہد بہادر کی آمد‘ واللہ بیٹیوں کے نام‘ چونکہ وہ مجھ سے بہت مانوس ہیں تو یاد رہ جاتے ہیں۔ صاحبزادے کا نام بلکہ اسم گرامی بے حد ثقیل ہے اور وہ نچلا کبھی بیٹھے تو میری کھوپڑی میں بھی بیٹھے۔
قد بڑا نہ چھوٹا‘ درمیانہ‘ درمیانے سے مراد میری ہم قد ہیں‘ پانچ فٹ چار انچ پاسپورٹ پر ناپ تول کے بعد ہی اندراج ہوا ہو گا۔ وہیں سے میں نے اس لیے چرایا کہ یہ دور اعداد و شمار کا ہے۔ لیکن یہاں بات تو قد سے نکل کر کمر تک پہنچنے کا چلن ہنوز عیب ہے‘ ہُنر نہیں‘ چہرہ کتابی ‘ متبسم بھی اور معتبر بھی‘ بھرا ہوا جسم جسے گھٹنے بڑھنے سے روک لیا گیا ہے‘ پیشانی تنگ‘ دماغ کھلا ہوا‘ ذہن بیدار‘ آنکھیں غلافی‘ نظر کا چشمہ تصویر اترواتے وقت بھی نہیں اترتا۔ ناک موٹی مگر چپٹی نہیں پھلکی نہیں‘ ہونٹ روکھے نہ رسیلے البتہ باتوں میں رس گھولتے ہوئے‘دانت صاف ذرا نکلتے ہوئے موٹے موٹے‘ رنگ سانولا سلونا بیحد نمکین‘ لباس سادہ اور نفیس‘ آئے دن نئی نئی تراش خراش کے ملبوسات زیب تن۔ کپڑے ہوں‘ گھر کے استعمال کی دوسری چیزیں‘ ہر جگہ زاہدہ کی نفاست اور اعلیٰ پسند کی چھاپ نمایاں‘ دوسرے درجے کی چیزیں کم‘ کاغذ بھی عمدہ مگر قلم تیسرے درجے کے نہایت گھٹیا‘ بال پوائنٹ بھی کوئی لکھنے کی چیز ہے‘ لٹھ گھمانا پڑتا ہے‘ نہایت خوش خلق کامی اور انتظامی امور کی ماہر‘ خلائق کے ہجوم میں گھر کر جینے کا حوصلہ اور ولولہ‘ اردو تحریک بھٹو دور میں چلی‘ زاہدہ بھی مظاہروں میں پیش پیش‘ قیادت کے جراثیم پرورش پاتے رہتے ہیں‘ میرا خیال وہی ہے‘ بے جوڑ شادی جندڑی کا جنجال‘ سارے کس بل نکل گئے۔ دفتر کے ساتھیوں میں خوب گھل مل کر رہنا‘ تیور مربیانہ اور حکیمانہ‘ مساویانہ سلوک‘ مل جل کر کھانا پینا‘ دکھ سکھ میں شریک‘ عزت اور احترام کی فراوانی‘ کارکنوں کی ذاتی زندگی کے مسائل سنبھالنے سے آنکھیں نہ چرانا‘ دکھ درد بانٹے‘ حوصلہ دیا اور بڑھایا‘ آگے پیچھے نہیں رہنے دیا‘ دبا کر رکھنے کا گُر نہیں جانتیں۔ محبت ہی محبت‘ خلوص ہی خلوص‘ بے ریائی وصفِ خاص ہے۔ مردم شناسی کا جوہر برائے نام‘ غیر ضروری اعتماد مزاج کا خاصا تو شاید نہ ہو لیکن جہاں یکتائی اور تنہائی کا عذاب جاری و ساری ہو وہاں اور کیا کیا جائے۔ منڈی سے کاغذ خریدنا‘ اشتہارات کا حصول اور دسیوں اور سلسلے کہاں تک چلے گی مردانگی‘ سہارے تو ڈھونڈنا ہی پڑتے ہیں‘ شوہر بھائی بہنوئی دست و بازو چاہا تھا کہ بن جائیں‘ یہی نہ ہُوا۔ سب سے بڑا عذاب حصولِ معاش‘ اس کے باوجود خلّاقی اور دراکی کے جوہر کھلتے رہتے ہیں...
آج کا مطلع
گلشنِ خواب ہوں، تاراجِ حقیقت کر دے
اتنے احسان کیے، یہ بھی مروّت کر دے