کراچی کی سیاست میں کوئی بھونچال نہیں آیا۔ سب کچھ اس طرح سے ہے اور اسی طرح سے رہے گا بھی۔ فاروق ستار ہمیشہ الطاف حسین کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ اس دفعہ انہوں نے ذرا زیادہ عقلمندی سے کام لیا ہے۔ نہ مذمت کی ہے نہ قطع تعلق۔ اور اُدھر تم اِدھر ہم کا مفروضہ بھی سراسر غلط اور خوش خیالی ہے۔ انہوں نے اب بھی 'قائد جناب الطاف حسین‘ بھائی ہی کے الفاظ موصوف کے لیے استعمال کیے ہیں۔ وہ یہی کچھ کر سکتے تھے۔ ایم کیو ایم کو پاکستان سے چلائے جانے کی بات بھی خاصی مہمل ہے۔ انہوں نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ لندن سے یا الطاف حسین کی بات نہیں مانی جائے گی۔ یہ نورا کشتی بھی نہیں کیونکہ الطاف حسین کو انہوں نے پارٹی سے بیدخل نہیں کیا ہے اور نہ ہی کر سکتے تھے۔
یہ بات بھی زیادہ وزن نہیں رکھتی کہ دوبارہ یہ نہیں ہونے دیا جائے گاکیونکہ کچھ عرصے تک کے لیے دوبارہ یہ کچھ ہو گا بھی نہیں۔ حسبِ سابق الطاف بھائی اظہارِ ندامت بھی کریں گے‘ فوج اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان کی تعریف بھی کریں گے اور یہ تاثر بھی عام ہو جائے گا کہ اب ان پر کوئی ذہنی دبائو نہیں ہے اور اب وہ اس کیفیت سے نکل چکے ہیں۔ فاروق ستار بھی سب کو یہی بتائیں گے اور وہی الطاف بھائی ہوں گے اور وہی ایم کیو ایم۔ الطاف بھی فوری طور پر کسی سخت ردِعمل کا مظاہرہ نہیں کریں گے‘ لندن کی رابطہ کمیٹی بھی کوئی واویلا نہیں مچائے گی اور اس طرح عقلمندی کا مظاہرہ کرے گی۔
حق تو یہ ہے کہ الطاف حسین جو کچھ بھی کہتے رہیں‘ ان کے متعلق لوگوں کے خیالات‘ عقیدت اور محبت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا‘ نہ ہی فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں میں اتنا دم خم ہے کہ وہ الطاف حسین کے بغیر پارٹی کو چلا سکیں یا لوگوں سے ووٹ حاصل کر سکیں۔ جہاں تک پارٹی پر پابندی لگانے کا مسئلہ اور مطالبہ ہے تو اس سے زیادہ احمقانہ بات کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی خواہ وہ شہباز شریف ہی کے مُنہ سے نکلی ہو۔ چنانچہ یہ گرد آہستہ آہستہ ایک بار پھر بیٹھ جائے گی۔ بغاوت کا مقدمہ بھی کہیں بیچ ہی میں رہ جائے گا کیونکہ نواز شریف مودی کے دوست کے ساتھ ایسا کر کے مودی کو ناراض نہیں کر سکتے۔ یہ بھی ایک بیوقوفی کی بات ہو گی کہ فاروق ستار نے مائنس ون فارمولا تسلیم کر لیا ہے۔ انہوں نے اس ساری خرافات کی ذمہ داری الطاف بھائی کی ذہنی کیفیت‘ دبائو اور جذباتیت پر ڈال دی ہے اور یہ بیماری اور یہ علامات کسی وقت بھی رفع ہو سکتی ہیں اور یہ اعلان کر دیا جائے گا کہ اب الطاف بھائی اس تکلیف سے پوری طرح صحت یاب ہو گئے ہیں‘ اس لیے ان کی طرف سے اب ایسی کسی بات کا خطرہ نہیں ہے اور انہوں نے بات بات پر پاکستان زندہ باد کا نعرہ بھی لگانا شروع کر دیا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ آئندہ بھی ہر الیکشن ایم کیو ایم کو الطاف بھائی ہی جیت کر دیں گے‘ اللہ اللہ خیر سلاّ!
چنانچہ ایم کیو ایم کا نام الطاف حسین ہے اور الطاف حسین کا نام ایم کیو ایم۔ اس صورت حال کو زبردستی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو خرابی اور صرف خرابی ہو گی۔ الطاف حسین کے خلاف یہاں ایک قتل کا مقدمہ بھی درج ہے‘ اس میں تو اُسے پکڑا نہیں جا سکا۔ لندن میں منی لانڈرنگ کیس بھی کافی عرصہ چلتا رہا لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ موصوف اپنی خرابیٔ صحت کی بنا پر اللہ کو پیارے ہو جائیں تو الگ بات ہے‘ ڈیڑھ دو کروڑ عوام کے ساتھ ماتھا نہیں لگایا جا سکتا۔ نیز یہ کہ الطاف حسین کی طاقت کی ایک وجہ ہماری اپنی کمزوریاں بھی ہیں۔
فاروق ستار تصوّر بھی نہیں کر سکتے کہ وہ الطاف حسین کے خلاف بغاوت کر کے پارٹی کو چلا سکتے ہیں‘ اسی لیے انہوں نے نہ الطاف حسین کی مذمت کی ہے نہ صاف قطع تعلق ۔ یہ صرف ایک خوبصورت ڈپلو میٹک راستہ تھا جس کا انتخاب انہوں نے درست طور پر کیا۔ اگر رینجرز کے ایکشن کے باوجود دکانیں اور سکول وغیرہ کھلے رہے اور ٹریفک بھی رواں دواں رہی تو اس لیے کہ نہ تو الطاف حسین نے اس سلسلے میں کوئی ہدایت جاری کی تھی اور نہ ہی فاروق ستار ایسا چاہتے تھے کیونکہ وہ نہایت عقلمندی کے ساتھ الطاف حسین کی پھیلائی ہوئی بدمزدگی کا ڈنک نکالنا اور اسے ٹھنڈا کرنا چاہتے تھے جو ان کی اپنی ضرورت بھی تھی اور اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ایم کیو ایم‘ الطاف حسین اور ان کے چاہنے والے برف میں لگ گئے تھے۔ لوگ خود بھی یہی چاہتے تھے کہ بات بڑھنے نہ پائے۔ اس لیے ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے مستقبل کے بارے میں سوچنا یا کوئی فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں‘ خود اُن کا اپنا ہے جو غالباً پاکستان کی سب سے زیادہ منظّم اور منضبط پارٹی ہے۔ پھر وہ عوام کی اپنی پارٹی ہے‘ کسی جاگیردار یا موروثیت زدہ خاندان کی نہیں۔ اس کے سارے لیڈر پڑھے لکھے اور سیاسی سوجھ بوجھ میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں‘ اس لیے انہیں دبانے کی کوئی بھی کوشش ہمیشہ ناکام ہو گی اور نہ ہی ایسی کوئی حماقت کرنے کے بارے میں سوچا ہی جا سکتا ہے۔
آپ کئی برسوں سے ان لوگوں اور ان کی قیادت کو ''را‘‘ کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں بلکہ ایک طرح سے کر بھی چکے ہیں اور ان لوگوں کے اس سلسلے میں بعض اقبالی بیانات کا حوالہ بھی آتا رہا ہے‘ اس پر آج تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی جا سکی‘ حتیٰ کہ امریکہ اور بھارت میں الطاف حسین کے باغیانہ بیانات پر بھی کسی کا بال بیکا نہیں کیا جا سکا‘ اس لیے کہ اس کے لیے جو اخلاقی قوت درکار ہے‘ اس کا فقدان ہے۔
پاک سرزمین پارٹی کی صورت حال بھی ایسی ہی رہے گی کیونکہ بنیادی طور پر الطاف حسین کے بارے میں اپنے خیالات کی وجہ سے وہ فاروق ستار کے قریب نہیں آ سکتے۔ جن لوگوں نے ایم کیو ایم کی اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دیا ہے‘ نہ صرف یہ کہ ان کی تعداد بڑھنے کا کوئی امکان نہیں بلکہ ان کی واپسی بھی شروع ہو جائے گی کیونکہ یہ پارٹی جہاں سے بن کر آئی ہے وہ بھی سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم اور الطاف حسین دونوں کو قبول اور برداشت کرنا ہو گا‘ اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں ہے اور نہ ہی فاروق ستار سے زیادہ اُمیدیں باندھنے کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ عوام کے دلوں سے الطاف حسین کو نہیں نکالا جا سکتا اور اس کی کوئی کوشش بھی انتہائی غیر مستحسن ہو گی اور نہ ہی اس کے آگے کوئی بند باندھا جا سکتا ہے۔ بے شک کوشش کر کے دیکھ بھی لیں‘ ناکامی اور صرف ناکامی ہو گی۔ نسرین جلیل نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ صرف بیان سے لاتعلقی ہے‘ قائد تو وہی ہیں‘ نیز یہ کہ یہ سارا کچھ قائد کو اعتماد میں لے کر کیا گیا ہے!
آج کا مقطع
ہماری عمر ہی کیا ہے ابھی‘ ظفرؔ‘ اک دن
یونہی بگڑتے بگڑتے سُدھر ہی جائیں گے