اقتصادی راہداری سے کاروبار
میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ ''اقتصادی راہداری سے کاروبار میں بے پناہ اضافہ ہو گا‘‘ کیونکہ کاروبار ہی زندگی کی اصل حقیقت ہے‘ وہ پاکستان میں ہو‘ جدہ‘ دبئی یا بھارت میں‘ اُسی کی ساری برکتیں ہیں جبکہ خاکسار کے گزشتہ تین برسوں کے بیرون ملک دورے زیادہ تر کاروبار ہی سے تعلق رکھتے تھے‘ اور جن ملکوں میں آپ کا کاروبار ہو وہ قدرتی طور پر آپ کو جان و دل سے عزیز ہوتے ہیں اور خاص طور پر اگر کسی ملک کا وزیر اعظم خود آپ کے کاروبار کا نگہبان اور ضمانت دار ہو تواس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی جا سکتی ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ اس سے ملک غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش منڈی بن جائے گا''اورکاروباری لوگوں کا اوڑھنا بچھونا بھی یہی ہوتا ہے ورنہ حکومتیں تو اپنے آپ بھی چلتی رہتی ہیں۔ آزمائش شرط ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ترکی کے وفد سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت الطاف کے معاملے
پر خاموش نہیں۔مصدق ملک
وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ ''حکومت الطاف کے معاملے پر خاموش نہیں‘‘ بلکہ زیرِ لب گنگنا رہی ہے کہ اب تو یہاں وہاں سے مسلسل ہی ایسی آوازیں آنے لگی ہیں اور ویسے بھی جمہوریت کا زمانہ ہے کسی کا منہ بند بھی نہیں کیا جا سکتا جبکہ حکومت آزادیٔ اظہار کی بے حد قائل ہے‘ ویسے بھی ‘ یہ مملکتِ خدا داد ہے‘ اسے کچھ نہیں ہوتا ورنہ ہم جو کئی برسوں سے اس کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں‘ اس کا بال تک بیکا نہیں ہوا اور اتنے سخت بال ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے جو اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی بیکے نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ''الطاف حسین اور دیگران کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے ہیں‘‘۔ جو کہ اپنے پائوں پر کلہاڑی ہی مارنے کے مترادف تھا کیونکہ وطن دشمنی کی بات اگر چل نکلی تو کیا خبر کہاں تک جا پہنچے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک ٹی وی چینل میں گفتگو کر رہے تھے۔
نواز حکومت پی پی کارکنوں کے
خلاف انتقامی کارروائی بند کرے۔بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت پی پی کارکنوں کے خلاف انتقامی کارروائی بند کرے‘‘ اور اس طرح نیکی کا بدلہ برائی سے نہ دے کیونکہ اسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ان نامساعد حالات میں ہماری جماعت حکومت کی سر توڑ مدد کر رہی ہے اور مفاہمتی فارمولے اور فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے بھی سن رہی ہے اور یہ بھی اچھی طرح سے جانتی ہے کہ حکومت کا اس طرح فائدہ کر کے ہم اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں اور حکومت کے خلاف کسی تحریک کا حصہ بننے اور کسی کنٹینر پر چڑھنے کو تیار نہیں ‘اور‘عمران خان اکیلے ہی ترلے مارتے پھرتے ہیں لیکن حکومت کی قطع رحمی کا عالم یہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم اور بے چاری ایان علی کی بھی جان خلاصی کرنے کو تیار نہیں ہے بلکہ الٹا میرے اور ایان علی کے ہوائی ٹکٹ ایک ہی اکائونٹ سے جاری ہونے کا بے رحمانہ پروپیگنڈا کر کے نہیں تھکتی‘ کیسا زمانہ آگیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
جمہوریت کو کبھی ڈی ریل نہیں
ہونے دیا جائے گا۔آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ 'جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا''کیونکہ اگر ایسا ہوا تو بہت کچھ ڈی ریل ہو جائے گا اور ہم نے ن لیگ کے ساتھ جو باریاں مقرر کر رکھی ہیں وہ سلسلہ ہی ختم ہو جائے گا اس لیے ہم نے پچھلی دفعہ بھی اپنی جان پر کھیل کر جمہوریت یعنی ن لیگ کی حکومت کو بچایا تھا کہ بوقت ضرورت وہ بھی ہمیں بچائے گی لیکن ہمارے معززین کے خلاف فائلیں اسی طرح کھولی جا رہی ہیں حالانکہ جو کام ہم نے کیے تھے وہی حکومت خود ان سے بڑھ چڑھ کر کرتی چلی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے جمہوریت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا‘‘ اور اگر بینظیر بھٹو اپنی جان کا نذرانہ پیش نہ کرتیں تو خاکسار جیسوں کو اقتدار کیسے نصیب ہو سکتا تھا کیونکہ نہ صرف بی بی کی میرے ساتھ بول چال بند تھی بلکہ مجھے امریکہ تک ہی محدود کر دیا گیا تھا اور پاکستان آنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ آپ اگلے روز کراچی میں فردوس عاشق اعوان سے ملاقات کر رہے تھے۔
انکار
بھارت نے پاکستان کے مطالبے کے جواب میں ایک بار پھر کشمیر کے موضوع پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے حالانکہ تھوڑا ہی عرصہ پہلے پاکستان کا موقف یہ تھا کہ ہم بھارت سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارت مذاکرات پر تیار بھی ہو جائے تو اس نے کون سا اس تنازع کے حل کی طرف آ جانا ہے اور وہ صرف حسب سابق وقت ہی ضائع کرے گا۔ چنانچہ بھارت سے مذاکرات کا نتیجہ بھی وہی نکلنا ہے جو طالبان سے مذاکرات کا نکلنے جا رہا تھا اور اس ڈھونگ کو آپریشن شروع کر کے ختم کر دیا گیا۔ اس کا اصل حل یہ ہے کہ یہی زور پاکستان اس مسئلے پر اقوام متحدہ میں لگائے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی سفارتکاری کو بھی تیز کرے کیونکہ ہماری اصل ناکامی اسی محاذ کی مرہون منت ہے‘ حتیٰ کہ ہم نے کل وقتی وزیر خارجہ مقرر کرنے کی بھی زحمت نہیں اُٹھائی اور انہی سفارتکاروں پر تکیہ کر کے بیٹھے رہے جنہیں وزیر اعظم نے میرٹ کا ستیا ناس کرتے ہوئے محض اپنی ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر تعینات کر رکھا ہے جو کہ یہ بھی موصوف کی وطن دوستی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے: ؎
حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
آج کا مقطع
نازاں ہوں اپنے عیبِ سخن پر ہزار بار
لازم ہے آدمی کو ظفرؔ کچھ ہُنر تو آئے