"ZIC" (space) message & send to 7575

ٹوٹے اور استاد بیدل حیدری

ہدایت۔۔۔۔؟
ایک اطلاع کے مطابق فوج نے وزیر اعظم کو 120بااثر شخصیات کی ایک فہرست دے کر مطالبہ کیا ہے کہ ان کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے جو کرپشن اور دہشت گردوں کی سہولت کاری وغیرہ میں ملوث ہیں جبکہ ان میں دو وفاقی وزیر‘ سندھ اور پنجاب سے کچھ صوبائی وزراء شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کو یہ فہرست ایک اجلاس میں دی گئی جو نیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا اور جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی شریک تھے۔ اس اجلاس میں وزیر اعظم کو ان حضرات کی ان کارگزاریوں کے دستاویزی ثبوت بھی فراہم کیے گئے جبکہ اس فہرست میں چند بڑے بزنس مین بھی شامل ہیں۔ اگرچہ وزیر اعظم خود پر حاوی ذہنی دبائو اور غیر یقینی ملکی حالات کی وجہ سے اس مسئلے کو کچھ عرصے تک ٹالنا چاہتے ہیں لیکن فوج اس میں کوئی تاخیر نہیں چاہتی حتیٰ کہ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے بھی وزیر اعظم کو اس ضمن میں فوری ایکشن کا مشورہ دیا ہے ع
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
54 بھارتی!
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے الزام لگایا ہے کہ 54بھارتی شریف فیملی کی فیکٹریوں میں کام کر رہے ہیں جبکہ را کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری بھی انہی کی ایک شوگر مل سے پکڑے جانے والے را کے ایک ایجنٹ کے انکشاف پر عمل میں آئی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ بھارتی واہگہ سرحد پار کر کے آتے ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب انہیں اپنے گیسٹ ہائوس میں ٹھہراتے ہیں جبکہ کسی سکیورٹی ایجنسی کو انہیں چیک کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یہ بات انہوں نے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں کہی ہے جبکہ اس اتنے بڑے اور سنگین الزام کی حکومت کی طرف سے نہ تو کوئی تردید سامنے آئی ہے نہ وضاحت اور اس نے وہی خاموشی اختیار کر رکھی جو روزانہ کے اربوں کے سکینڈلز کے انکشاف پر کرنا اس کا معمول بن چکا ہے اور نہیں تو اس سے اس شیفتگی کا ثبوت ضرور ملتا ہے جو شریف برادران بھارت کے حوالے سے رکھتے ہیں اور جسے چھپانے کی بھی انہوں نے کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حتیٰ کہ الطاف حسین اور اس کے بعض نائبین پر ''را‘‘ سے فنڈز وصول کرنے کے ثبوت مل جانے کے بعد بھی حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنا مناسب نہیں سمجھی بلکہ اس کے ساتھ ہی ایک پر لطف اور اسی طرح کی خبر اور شائع ہوئی ہے جس کے مطابق ایک بھارتی سفارتکار پچھلے چھ ماہ سے وفاقی دارالحکومت میں ویزا کے بغیر رہ رہا ہے۔ مزید لطف یہ ہے کہ بھارتی ہائی کمیشن نے تو اس کی توثیق کر دی ہے لیکن پاکستانی دفتر خارجہ نے اس کی تردید کی ہے! (یہ سب کچھ بلا تبصرہ ہے)
معلوم نہیں!
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا ہے کہ الطاف حسین کے بیان کے حوالے سے قائم کردہ کوئی کمیٹی میرے علم میں نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا اور کمیٹی کا قیام صرف خبروں کی حد تک ہے۔ اول تو ہماری حکومت نے جس معاملے کو برف خانے کی نذر کرنا ہو اس پر ایک کمیٹی قائم کر دیتی ہے کہ ''جا نی دھیّے راوی‘ نہ کوئی آوی تے نہ کوئی جاوی‘‘ لیکن اس سلسلے میں زیادہ مزیدار بات یہ ہے کہ در حقیقت کوئی کمیٹی قائم ہی نہیں کی گئی اور اگر کی بھی گئی ہو تو نہ تو اس کا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی بات اٹارنی جنرل کے علم میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ الطاف حسین نے اب تک جو کیا اور کہا ہے‘ حکومت نے کیا اس پر کوئی ایکشن لیا ہے؟ چنانچہ حکومت سے ہماری گزارش یہ ہے کہ وہ طوعاً و کرہاً اس پر کوئی کمیٹی ضرور مقرر کر دے‘ اتمام حُجّت کے طور پر ہی سہی‘ اور اسے اپنے انجام سے دوچار ہونے کے لیے چھوڑ دے‘ لینا ایک نہ دینا دو ‘ کیونکہ مودی یا اس کے کسی دوست کے خلاف کارروائی کرنے سے بڑی قطع رحمی اور کیا ہو سکتی ہے؟
گرین سگنل مل گیا!
ایک اخباری اطلاع کے مطابق متحدہ کے لندن سیکرٹریٹ کو امریکہ منتقل کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ اب تک تو برطانیہ الطاف کی سپورٹ کرتا رہا ہے اور اگرچہ پاکستان نے کہہ دیا ہے کہ امریکہ اس میں مداخلت نہ کرے حالانکہ امریکہ بلکہ کسی بھی ملک میں حکومت کا سفارتی نیٹ ورک نہ ہونے کے برابر ہے‘ اور اگر کہا بھی ہے تو حکومت نے امریکہ سے یہ بات تکلفاً ہی کہی ہو گی جس تکلف میں حکومت کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر بیانات آتے رہتے ہیں۔ حالت تو یہ ہے کہ امریکہ نے رقم وصول کرنے کے باوجود ہمیں ایف16جہاز دینے سے صاف انکار کر دیا ہے اور اب دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں دی جانے والی لاکھوں ڈالر کی امداد بھی روک دی ہے اور ستم بالائے ستم وہ معاہدہ ہے جو حال ہی میں بھارت اور امریکہ کے درمیان ہوا ہے اور جس میں دونوں ملک ایک دوسرے کے ہوائی اڈے بھی استعمال کر سکیں گے اور جس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ امریکہ جب چاہے افغانستان میں واقع نیٹو کے ہوائی اڈے استعمال کر سکے گا اور جس کا اصل مقصد جمہوریہ چین کا ٹینٹوا دبا کر ہماری دوستی کی سزا دینا بھی ہے لیکن حکومت ہمیشہ کی طرح کانوں میں تیل ڈال کر بیٹھی ہوئی ہے اور اس پر کسی بات کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا کہ مودی‘ اوباما اور نواز شریف دوستی اور یگانگت کے ایسے رشتے میں پروئے جا چکے ہیں کہ اس کے علاوہ انہیں اور کچھ نظر ہی نہیں آتا ع
قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند !
.........
اور اب نیٹ کے ذریعے موصول ہونے والا بیدل حیدر مرحوم کا یہ خوبصورت شعر ؎ 
بیدلؔ لباس زیست بڑا دیدہ زیب تھا
اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا
اس پر میرے تحفظات بھی ہیں۔ غزل کے پہلے شعر میں اگر دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور وہ مطلع لگے لیکن در حقیقت وہ مطلع نہ ہو جیسا کہ ان مصرعوں کے آخر میں لفظ''تھا‘‘ اور ''لیا‘‘ آتا ہے‘ اساتذہ نے اسے اجتماعِ ردیفین قرار دیتے ہوئے معائب شعر میں شمار کیا ہے۔ دوسرے‘ دونوں مصرعوں میں لفظ''لباس‘‘ کی تکرار بھی مستحسن نہیں ہے۔ خدانخواستہ استاد کی اصلاح مطلوب نہیں لیکن اس شعر کی میری ناقص رائے میں بہتر صورت یہ ہو سکتی تھی ؎
بیدل لباس زیست بہت خوب تھا‘ مگر
کیا جانے ہم نے کیوں اسے الٹا پہن لیا
یہ بطور خاص نو آموز شعراء کے لیے ہے تاکہ وہ ان باتوں کا خیال رکھیں۔
(نوٹ) گزشتہ روز کے کالم کے عنوان میں بشیر بدر کی بجائے شبیر بدر لکھا گیا ہے۔ قارئین تصحیح فرما لیں۔
آج کا مقطع
تعلق جو توڑا تھا خود ہی ‘ظفر
تو پھر کس لئے بے قراری ہے یہ

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں