زرعی ترقیاتی بینک کے ملازمین کی طرف سے بینک کے چیئرمین سید طلعت محمود بخاری کے خلاف ایک تحریر موصول ہوئی ہے جس میں آرمی چیف کے علاوہ چیف جسٹس اور دیگر کلیدی شخصیات سے خطاب کیا گیا ہے اور درخواست کی گئی ہے کہ چیئرمین موصوف کے خلاف اربوں کے گھپلوں کی تحقیقات کر کے کارروائی کی جائے ۔اس تحریر میں چیئرمین کے خلاف الزامات کی ایک طویل فہرست بھی شامل ہے۔
اس درخواست پر کسی کے دستخط ہیں نہ ہی درخواست گزراروں نے اپنا نام یا اتا پتا ظاہر کیا ہے اور نہ ہی ان الزامات کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔ اس لیے یہ معاملہ بجائے خود مشکوک ٹھہرتا ہے کیونکہ کوئی اس کی ملکیت ہی کا دعویٰ نہیں کر رہا۔ ہو سکتا ہے یہ درخواست بینک ملازمین کی طرف سے ہو ہی نہ اور کسی اور نے چیئرمین کے ساتھ اپنا سکور برابر کرنے کی کوشش کی ہو‘ کیونکہ یہ درخواست اگر واقعی درست ہوتی تو اس کے بھیجنے والے کا نام، پتا، دستخط اور رابطہ نمبر ضرور ہوتا تا کہ اس کے بارے میں کوئی تصدیق کی جا سکتی لیکن ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کیا گیا اور بس ہوا میں تیر چلانے کی کوشش کی گئی ہے جس کا سنجیدگی سے نوٹس ہی نہیں لیا جا سکتا۔
اور اگر اس میں کوئی بینک ملازم ملوث بھی ہو تو اس کا کوئی ترقی وغیرہ کا مسئلہ ہو سکتا ہے جو چیئرمین نے حل نہ کیا ہو اور اس نے جلے دل کے پھپھولے اس طرح پھوڑے ہوں جب کہ کرپشن بلکہ اس طرح کی میگا کرپشن کی تفتیش و تحقیق کے لیے نیب ‘ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے ادارے موجود ہیں جن کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے اور آرمی چیف کا اس سے کوئی دور کا تعلق بھی نہیں بنتا‘ نہ ہی اس طرح کی گمنام درخواست کی کوئی اہمیت ہو سکتی ہے‘ اور اگر چیف جسٹس آف پاکستان سے داد رسی مطلوب ہو تو جُملہ ثبوتوں کے ساتھ اسے ایک نالِش کے طور پر پیش کیا جا سکتا‘ لیکن ایسا بھی نہیں کیا گیا۔
یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے کلیدی عہدوں پر چن چن کر اپنی پسند کے کرپٹ افسروں کو تعینات کیا ہے جن کے سکینڈل آئے روز اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ اس لیے ایک عام آدمی اس پر آسانی سے یقین کرلے گا کہ یہ افسر بھی ایسا ہی ہو گا جبکہ خود وزیراعظم ‘ان کی فیملی اور بعض ارکانِ کابینہ پر کرپشن کے واضح الزامات ہیں اور یہ معاملات الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ وزیراعظم کا لگایا ہوا ہر افسر ہی کرپٹ ہو۔
ہم سید طلعت محمود کو نہیں جانتے البتہ اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ اچھی شہرت کے مالک ہیں جبکہ ان سے پہلے والوں، مثلاً ذکا اشرف، بدر الدین زیدی اور فضل معبود کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔ البتہ ان کے ایس ای وی پی خالد محمود گِل کو ضرور جانتے ہیں جو ایک شاعر ادیب اور اپ رائٹ آدمی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ان کے علم میں آجائے کہ ان کا چیئرمین دیانتدار نہیں ہے تو وہ علیحدہ ہو جائیں اور کبھی ایسے شخص کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہ ہوں۔ اور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے۔
اس قحط الرّجال میں بھی دیانتدار افسروں کی کمی نہیں ہے بلکہ اب سے تیس چالیس برس پہلے تو بد دیانت افسر باقاعدہ تلاش کرنے سے ہی دستیاب ہوتا تھا۔ اسی زمانے کے ہمارے کئی ڈپٹی کمشنر یادگار لوگ تھے جبکہ ساہیوال میں ڈاکٹر ظفر الطاف، مصطفی زیدی ، مہر جیون خاں اور اس کے بعد اوکاڑہ میں طارق محمود ‘طارق فاروق‘ فقیر سید انوار الدین اور چودھری محمد اسلم کمبوہ۔ طارق محمود اوکاڑہ کے پہلے ڈپٹی کمشنر تھے اور ان کے ساتھ سعید شیخ اسسٹنٹ کمشنر۔ دونوں ادبی ذوق سے مالا مال، دونوں نے افسانہ نگاری وہیںسے شروع کی۔ ڈاکٹر ظفر الطاف اور طارق محمود فیڈرل سیکرٹری ریٹائر ہوئے جبکہ شیخ سعید ممبر بورڈ آف ریونیو کے طور پر۔ طارق محمود انگریزی اخبار میں کالم بھی لکھتے ہیں۔ مہرجیون خاں نے بھی ریٹائرمنٹ لینے کے بعد کچھ عرصہ تک کالم نویسی کا شغل اختیار کیے رکھا۔ ان کے حوالے سے لطیفہ یہ ہے کہ 77ء میں قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے بعد جب تحریک کے نتیجے میں مجھے ایک ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا تو تب مہر صاحب ہی ڈپٹی کمشنر ساہیوال تھے۔ اس دوران جیل سے بھیجی گئی میری گرما گم سیاسی شاعری شامی صاحب کے ہفت روزہ میں چھپا کرتی تھی۔ میں جیل سے باہر آیا تو کچھ عرصے بعد مہر صاحب نے کچھ مشترکہ دوستوں کے درمیان کہا کہ ظفر اقبال نے اس دوران بہت اچھی شاعری کی، انہیں ایک بار پھر نہ اندرکر دیا جائے؟
دیانتداری کا ایک اور واقعہ۔ فیاض حمید قریشی جب اسی زمانے میں سول جج اوکاڑہ تعینات ہوئے تو پیسے وغیرہ لے لیا کرتے تھے‘ لیکن کچھ عرصے بعد جب انہوں نے حج کر لیا اور اوکاڑہ ہی میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن آ لگے تو مکمل طور پر تائب ہو چکے تھے۔ اُنہی دنوں ہمارے ایک ایڈیشنل سیشن جج کا تبادلہ فیصل آباد ہو گیا۔ میں ان دنوں ڈسٹرکٹ بار کا صدر تھا۔ انہیں ہم نے اپنی طرف سے الوداعی عشائیہ دیا تو مجھے بھی کچھ کہنے کی دعوت دی گئی۔ میں نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ یہ صاحب جو تبدیل ہو کر جا رہے ہیں یہ تو جدّی پُشتی ایماندار تھے، اس لیے ان کی یہ کوئی بہادری نہیں جبکہ حاجی فیاض حمید تو ہماری آنکھوں کے سامنے ایماندار ہوئے ہیں!
تا ہم، جہاں تک دیانتداری اور مکمل طور پر اپ رائٹ ہونے کا تعلق ہے تو چوہدری اسلم ان سب سے نمبر لے گئے۔ ان کا رہن سہن بھی اتنا سادہ تھا کہ حیرت ہوتی تھی۔ وہاں سے تبدیل ہونے کے بعد وہ سیکرٹری تعلیم پنجاب ہوئے جبکہ ابھی ملازمت میں ہیں اور پچھلے دنوں انہیں کسی نئے عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ع
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
آج کامطلع
کئی دن سے ترے ہونے کی سرشاری میں رہتا ہوں
میں کیا بتلائوں آسانی کہ دشواری میں رہتا ہوں