کم و بیش سبھی تجزیہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عمران خاں سیاسی طور پر تنہا ہو گئے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی چھوڑ‘ طاہر القادری نے بھی رائیونڈ کی طرف ان کے مارچ میں شمولیت سے اس بناء پر معذرت کر دی ہے کہ وہ کسی کے گھر پر حملے یا دھرنے میں شریک نہیں ہو سکتے حالانکہ واضح طور پر پی ٹی آئی کی طرف سے اعلان کر دیا گیا ہے کہ وہ جاتی امراء جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے بلکہ رائیونڈ کے قرب و جوار میں سے جلسہ کر کے واپس آ جائیں گے اور خوئے بدرا بہانہ بسیار کے مطابق پیپلزپارٹی کا اعتراض یہ بھی ہے کہ انہیں وقت پر اس سے آگاہ نہیں کیا گیا۔ وغیرہ غیرہ۔
حال اور ماضی کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہونے کا شرف پیپلز پارٹی ہی کو ہے۔ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ہمیشہ ایک دوسری کی فرینڈلی اپوزیشن ہی ہوتی ہیں؛ البتہ الیکشن کے قریب آنے پر نواز لیگ تھوڑے عرصے کے لیے واقعی اپوزیشن بن جایا کرتی ہے۔ واضح رہے کہ عمران خان نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ ان کا یہ مارچ جمہوریت یا حکومت کے لیے نہیں بلکہ کرپشن کے خلاف ہے اور چونکہ یہ دونوں بڑی پارٹیاں خود کرپشن میں گوڈے گوڈے دھنسی ہوئی ہیں اور دونوں کے خلاف کسی نہ کسی سطح پر کرپشن کے ضمن میں انکوائریاں اور مقدمات چل رہے ہیں اس لیے دونوں کے دل میں چور ہے اور دونوں ایک دوسری کے خلاف کوئی ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدام کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں۔ خورشید شاہ اور رحمن ملک کے خلاف کرپشن مقدمات کی فائلیں وفاقی وزیر داخلہ کے بقول ان کے پاس محفوظ ہیں۔
ان کالموں میں شروع سے ہی اس بات کا رونا رویا جاتا رہا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے اور ان سے کسی پیش رفت کی توقع نہ رکھی جائے۔ ن لیگ کے علاوہ جوکہ سیاسی جماعتوں کا ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ کرپشن کے حوالے سے ان کے بھی پر جلتے ہیں‘ اور ‘ دوسرے یہ کہ اس مرحلے پر عمران خان کا ساتھ دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ کامیابی کی صورت میں سارا سیاسی فائدہ عمران خاں اٹھا لے جائے گا‘ ہمارے ہاتھ کیا آئے گا کیونکہ یہ عمران خان ہی ہے جو دوسری جماعتوں کے لیے ہوّا بنا ہوا ہے جبکہ کرپشن کے خلاف جھنڈا بھی صرف اور صرف عمران خان نے اٹھا رکھا ہے اور اس نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ میری مہم کرپشن کے خلاف ہے‘ وزیر اعظم بننے کے لیے نہیں!
اس کے علاوہ عمران خاں نے واضح طور پر کہہ رکھا ہے کہ جب تک وزیر اعظم معروف چار سوالوں کے جواب نہیں دیتے‘ ان کی مہم جاری رہے گی‘ سو! یہ ملکی سیاست میں واقعتاً ایک نیا موڑ ہے کیونکہ اب تک جملہ سیاسی جماعتوں کے نزدیک کرپشن کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں اور اس کے سائے میں یہ پھل پھول بھی رہی تھیں‘ اور کرپشن کو اس حد تک طرزِ زندگی کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی کہ رائے دہندگان نے بھی اس بارے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا کیونکہ انہوں نے بھی سمجھ لیا تھا کہ یہی پارٹیاں ان کی قسمت میں لکھ دی گئی ہیں۔
چنانچہ کرپشن‘ اختیارات سے تجاوز اور اللّے تللّوں کی صورت حال اگر برقرار رہتی ہے تو اس ملک کا خدانخواستہ کوئی مستقبل نہیں ہے۔ صدر مملکت ‘ چیف جسٹس اور آرمی چیف اس پر سوفیصد متفق ہیں کہ کرپشن کا ناسور ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ شریف برادران بھی آئے دن کرپشن کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں جبکہ اپنی دیانتداری کا یقین دلانا اس کے علاوہ ہے‘ حتیٰ کہ پاناما لیکس نے جو طوفان اٹھایا تھا اس کی گرد بھی اب بیٹھنے لگی ہے کیونکہ سبھی ایک جیسے ہوں تو بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔
آرمی چیف سے لوگوں کی کچھ توقعات وابستہ ہوئی تھیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ساتھ چل کر اس عفریت کا گلا گھونٹنے کا کوئی اہتمام کریں گے اور جس دیدہ دلیری سے اربوں کی کرپشن کی جا رہی ہے‘ اسے لگام دینے کی کوئی صورت نکال لی جائے گی جبکہ اس گئی گزری حالت میں بھی جمہوریت کو پٹڑی سے اتار دینے کے کوئی بھی حق میں نہیں ہے حالانکہ یہ جمہور محض جمہوریت کی پیروڈی ہے بلکہ ایک طرح کی بادشاہت اور سول ڈکٹیٹر شپ ہے جوغلط ذرائع استعمال کر کے حاصل کی گئی جہاں ایک صریح ڈھونگ کو الیکشن قرار دے دیا جاتا ہے۔
آرمی چیف اگر کوئی ایکشن نہیں لے رہے تو یقیناً ان کی کچھ مجبوریاں بھی ہوں گی لیکن زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ وہ شہرت اور مقبولیت کی جن انتہائوں کو چھو رہے ہیں اس کا گراف اب تیزی سے نیچے کی طرف جا رہا ہے آرمی چیف نے کہا کہ ایکشن پلان پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے جس کے جواب میں دونوں بھائیوں نے بیان دیا کہ یہ تاثر غلط ہے اور اس پر پوری سنجیدگی سے عمل ہو رہا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ ملکی سرمایہ تیزی سے باہر جا رہا ہے تو اس کے جواب میں شریف برادران نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ باہرنہیں جا رہا بلکہ باہر سے آ رہا ہے۔
تازہ ترین مثال رینجرز کے پنجاب میں کارروائیوں اورکومبنگ آپریشن کی ہے کہ پہلے تو یہ کہا گیا کہ پنجاب میں رینجرز کے اقدامات کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن ان کو محدود مدت ‘ محدود علاقوں اور محدود سطح کے اختیارات دیئے تو گئے لیکن کومبنگ آپریشن کا حشر یہ کیا جا رہا ہے کہ اپنی پسند کے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو پولیس کے ذریعے ادھر اُدھر بھگایا جا رہا ہے کہ کہیں پکڑے نہ جائیں اور یہ بھی دہشت گردی کے خلاف تعاون کے اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اور یہ سب کچھ آرمی چیف کی آنکھوں کے عین سامنے ہو رہا ہے ‘ سو‘ آرمی چیف سے لوگوں کی توقعات صحیح تھیں یا غلط‘ اب ان کا ڈراپ سین تقریباً ہو چکا ہے اور ظاہر ہے کہ اوکھلی میں سر دینے کے لیے اب عمران خاں ہی رہ گیا ہے اور اسے بھی اگر نااہل قرار دلوادیا جائے تو گلیاں سنجیاں ہو جائیں گی اور ان کے اندر مرزا یار ہی دھمالیں ڈالتا نظر آئے گا اور ‘ یہ ہرگز غیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اس ملک میں کچھ بھی ممکن نہیں ہے‘ ہور چُوپو!
آج کا مقطع
ہے مُنتظر اک اور زمانہ مرا‘ ظفرؔ
ایک اور ہی طرف کا پُکارا ہوا ہوں میں