مُلکی دفاع پر کوئی حکومت ہے نہ اپوزیشن۔نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ملکی دفاع پر کوئی حکومت ہے نہ اپوزیشن‘‘ سوائے عمران خان کے جو خدا جانے کیوں میرے کھتّے پڑ گیا ہے؛ حالانکہ اسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ اقتدار میں نے کتنے پاپڑ بیلنے کے بعد حاصل کیا ہے اور کن کن محکموں، اداروں اور شخصیات کا مرہون منت ہونا پڑا ہے۔ میری جگہ عمران خاں ہوتے تو لگ پتا جاتا اور یہ پتا موصوف کو اگلے الیکشن میں ضرور لگ جائے گا بشرطیکہ اس سے پہلے ہمارا چھابہ ہی نہ اُلٹا دیا گیا‘ تاہم آرمی چیف صاحب کو منانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کم از کم ایک سال کی ہی توسیع قبول کر لیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ'' بھارتی حکومت قول و فعل کا تضاد دُور کرے‘‘ اور ہماری نقل کرنے کی کوشش نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ''وطن کا قرض چکانے میں ایک لمحہ ضائع نہیں کریں گے‘‘ البتہ جو قرضے معاف کرائے ہیں یا آئی ایم ایف کے ذریعے ملک پر چڑھائے گئے ہیں وہ آئندہ نسلوں کے لیے چھوڑ رہے ہیں تاکہ وہ ہر وقت مکھیاں ہی نہ مارتی رہے اور ہماری طرح کام کرنے کی عادت اپنے آپ کو ڈالے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
ایٹم بم صندوق میں رکھنے کے لیے نہیں ہیں۔ فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ''ایٹم بم صندوق میں رکھنے کے لیے نہیں ہیں‘‘ بلکہ صندوق میں تو نیک کمائی رکھی جاتی ہے جو ہر حکومت میں اللہ کے فضل و کرم
سے حاصل ہو جاتی ہے۔ اگرچہ یہ صندوق بھرتا پھر بھی نہیں ہے اس لیے موجودہ حکومت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے جو اگرچہ عمران خاں کی وجہ سے پہلے ہی بہت فکر مند ہے لیکن اگر وہ چاہے تو میں اس کے خلاف بیانات میں اضافہ بھی کر سکتا ہوں‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کی بقاء کا مسئلہ ہے تو ایٹم بم چل سکتا ہے‘‘ لیکن وہ بھارت میں جا کر چلے کہیں یہیں نہ چل جائے ورنہ ہم جیسے معصوم لوگ خواہ مخواہ مارے جائیں گے کیونکہ ہم نے ملک و قوم کی مزید خدمت کرنی ہے اور اس خدمت کی نوعیت سے خود اہل وطن بھی اچھی سے واقف ہیں‘ ماشاء اللہ! آپ اگلے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب فرما رہے تھے۔
پاکستان سے اچھی خبریں آنے والی ہیں۔ آصف علی زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''پاکستان سے اچھی خبریں آنے والی ہیں‘‘ کیونکہ جس طرح وزیر اعظم کی طرف سے برخور داربلاول بھٹو زرداری کا بے مثال استقبال کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی موسم کافی حد تک تبدیل ہو گیا ہے جس کے لیے ہم عمران خاں کے تہہ دل سے ممنون ہیں جس کی وجہ سے وزیر اعظم کو سپیکر سمیت اس قدر باریک ہونا پڑا ہے ورنہ ان کی طرف سے ایسی خوشامد اور چاپلوسی کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا تھا
جبکہ موصوف کے دھرنے کے دوران بھی وزیر اعظم کا موسم اس قدر تبدیل ہو گیا تھا کہ جو ارکان پارلیمنٹ ان سے ملاقات کے لیے چھ چھ ماہ سے ترس رہے تھے‘ وزیر اعظم نے خود بُلا بُلا کر ان سے ان کے مسائل دریافت کئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''بہت جلد وطن واپس جا کر پارٹی کارکنوں سے ملاقات کروں گا‘‘ کیونکہ اس وقت تک ‘ جیسا کہ بلاول نے انہیں دعوت دی ہے‘ وہ پارٹی میں واپس آ چکے ہوں گے۔ آپ اگلے روز لندن میں پیپلز پارٹی کے رہنما محسن باری سے ملاقات کر رہے تھے۔
قوم کو اکٹھا کرنے وقت ہے۔ شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ '' قوم کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے‘‘ جس طرح ہم نے سب کچھ اکٹھا کیا ہے اور جس کی یہاں گنجائش نہیں تھی وہ لندن بھجوایا جا رہا ہے ‘جلنے والوں کا منہ کالا۔ انہوں نے کہا کہ ''انتشار کی سیاست کی گنجائش نہیں‘‘ اور اس سے بڑی انتشار پسندی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وزیر اعظم کے اثاثوں کا حساب مانگا جا رہا ہے اور دیگر اُلٹے سیدھے سوالات کئے جا رہے ہیں اور قوم کا سارا قیمتی وقت اسی سوال جواب میں ضائع کیا جا رہا ہے اور وزیر اعظم اسی لیے ان سوالوں کا جواب نہیں دے رہے کہ وہ وقت کی بہت قدر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' قومی مفاد کے سامنے ذاتی مفاد کی کوئی حیثیت نہیں‘‘ اور قوم نے چونکہ ہمیں منتخب کیا ہے ا س لیے ذاتی مفاد نے اپنے آپ ہی قومی مفاد کی صورت اختیار کر لی ہے اور اب کوئی اس سلسلے میں کیا کر سکتا ہے کیونکہ اگر کرنے والوں نے اب تک کچھ نہیں کیا تو للو پنجو کیا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں کپتان حسن سردار کے والد کے انتقال پر اظہار افسوس کر رہے تھے۔
انسدادِ بدعنوانی مہم میں تیزی لائیں گے۔ چیئرمین نیب
چیئرمین نیب چوہدری قمر زمان نے کہا ہے کہ ''انسداد بدعنوانی مہم میں تیزی لائیں گے‘‘ اس لیے چھوٹی مچھلیاںہشیار ہو جائیں البتہ مگر مچھوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے بھی ہدایت کر رکھی ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں‘ اور ہمارے لیے حکومت نے جو حدود مقرر کر رکھی ہیں ہم ان سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکلتے کیونکہ حکومت کی طرح ہم بھی سپریم کورٹ کے احکامات کی پوری پوری پاسداری کرتے ہیں اور سپریم کورٹ پر جو حملہ کیا گیا تھا وہ حکومت کی مجبوری تھی اور دعا کرنی چاہیے کہ اب کے ایک بار پھر حکومت کوکوئی ایسی مجبوری لاحق نہ ہو جائے‘ جیسا کہ شاعر نے بھی کہہ رکھا ہے کہ ؎
نہ بینی کہ چُوں گُربہ عاجز شود
بر آرد بہ چنگال چشم پلنگ
آپ اگلے روز اسلام آباد میں نیب کے ڈائریکٹرز جنرل کی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
فکر مندی
اپوزیشن کے ناگفتہ بہ حالات اور تعاون کے باوجود وزیر اعظم کے لیے فکر مندی کی صورت حال پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ان کا معاملہ اب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں جگہ پہنچ چکا ہے جبکہ ہائی کورٹ نے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما کیس الزامات کی سماعت کے لیے لارجر بنچ تشکیل دینے کی سفارش کر دی ہے جبکہ شواہد کی روشنی میں بہت سے الزامات کم و بیش ثابت شدہ ہیں اور اب اعلیٰ عدلیہ سے کسی رو رعایت کی توقع رکھنا ایک غیر دانشمندانہ عمل ہو گا جبکہ نظریہ ضرورت اپنی موت آپ مر چکا ہے اور عدلیہ اپنا وقار پھر سے قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے جبکہ ملزمان کے خلاف سابق چیف جٹس افتخار چودھری کی درخواست جو سپیکر نے مسترد کر دی تھی ‘ وہ بھی اپنے مراحل طے کر رہی ہے ‘ اور صورت حال الیکشن کمیشن کے نرم و گداز ہاتھوں سے بھی نکل چکی ہے‘ اس لیے وزیر اعظم کے لیے سب اچھا نہیں ہے ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
آج کا مطلع
کسی اندرونی سہارے پہ تھا
ابھی خواب اپنے کنارے پہ تھا