بھارت کشمیریوں کی تحریک کو سمجھنے
سے قاصر ہے: نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''بھارت کشمیریوں کی تحریک کو سمجھنے سے قاصر ہے‘‘ اور اسی ناسمجھی کی بنا پر وہ کشمیریوں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہا ہے کیونکہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ مودی صاحب دل کے بُرے نہیں ہیں۔ دنیا دیکھ لے گی کہ جب مودی صاحب کو اس مسئلے کی سمجھ آ گئی وہ یہ کارروائیاں بند کر دیں گے جبکہ میں انہیں خود بھی سمجھانے کی کوشش کروں گا جیسا کہ بعض باتیں وہ مجھے سمجھاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دنیا کو مسئلہ کشمیر پر توجہ دینا ہو گی‘‘ کیونکہ اگر ہم خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکے تو کم از کم دنیا کو تو کچھ خیال کرنا چاہیے کیونکہ جس کام میں ہم لگے ہوئے ہیں سب جانتے ہیں کہ یہ ایک ہمہ وقتی کام ہے جس سے توجہ ادھر ادھر نہیں کی جا سکتی‘ ہیں جی! آپ اگلے روز نیٹو ملٹری کمیشن سے ملاقات کر رہے تھے۔
سونے کی کانیں؟
یادش بخیر ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اگر سونے کی کانیں نکل آئیں تو ملک کا سارا قرضہ اتر جائے گا۔ واضح رہے کہ انہوں نے کانیں کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ایک کان کے نکلنے سے کام نہیں چلے گا۔ ہم انہیں ملک کو بری طرح مقروض بنانے کے طعنے دیتے نہیں تھکتے‘ لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ان قرضوں کے بارے میں فکرمند کتنے ہیں اور اسی سوچ بچار کے بعد انہوں نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا ہے ورنہ تو آئندہ کئی نسلیں یہ مرحلہ سرانجام نہیں دے سکیں گی۔ تاہم اس سلسلے میں مایوس بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ جس ملک میں اتنی کرپشن ہو رہی ہو اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور پوچھنے والے خوابِ خرگوش میں مست ہوں یا انہوں نے بھنگ پی رکھی ہو تو وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور سونا چھوڑ کسی چیز کی بھی کانیں نکل سکتی ہیں۔ اگرچہ حکمرانوں کے لیے یہ ملک پہلے بھی سونے کی کان سے کم نہیں ہے اور یہ سونا دونوں ہاتھوں سے نکالا بھی جا رہا ہے!
حافظ سعید کی پرورش؟
اگلے روز حکمران پارٹی مسلم لیگ نواز کے ایم این اے رانا افضل نے اپنی حکومت سے برملا انداز میں سوال کیا کہ بتایا جائے کہ حافظ سعید کو کیوں پالا جا رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایسی رکاوٹیں دور کرنے کی ضرورت ہے جس سے دنیا ہمیں تنہا کر کے شدت پسند ملک قرار دیتے کی کوشش کرتی ہے۔ رانا افضل بھی بادشاہ آدمی ہیں جو سمجھ رہے ہیں کہ وزیراعظم ان کے فرمودات پر کان دھریں گے کیونکہ انہوں نے تو کابینہ کو کبھی بھی گھاس نہیں ڈالی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مملکت خداداد ہے، اسے کچھ نہیں ہو گا۔ اللہ میاں جانیں اور اُن کا کام۔
پاکستان زندہ باد کا نعرہ ؟
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پاکستان زندہ باد کا نعرہ کسی پر مسلط نہیں کیا جا سکتا جبکہ سپیکر نے کہا ہے کہ جو پاکستان زندہ باد کا نعرہ نہیں لگاتا وہ پاکستانی نہیں ہے۔ اس حد تک بات ٹھیک ہے۔ اگر یہ نعرہ لگوانا ہے تو لوگوں کو حقوق بھی دیں بصورتِ دیگر تو جو کچھ حکومت کر رہی ہے اسے بھی زندہ باد کہنا پڑے گا۔ میگا کرپشن بھی زندہ باد ہی کی ذیل میں آئے گی اور چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتیوں اور ان کی حق تلفیوں کو بھی زندہ باد کہنا پڑے گا۔ کمر توڑ مہنگائی‘ بے مہار قرضوں‘ بے پناہ لوڈشیڈنگ بلکہ جو کچھ خود سپیکر صاحب نے وزیراعظم کے خلاف آنے والے ریفرنسز کے ساتھ کیا، اس کو بھی زندہ باد کہنا پڑے گا۔
حمیدہ شاہین
پچھلے دنوں حمیدہ شاہین اور ڈاکٹر ضیاء الحسن، میاں بیوی اکٹھے ہی تشریف لائے تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے فرمائش کر کے غزل سنی جو اتنی عمدہ تھی کہ مجھے ان سے پوچھنا پڑا کہ خود لکھی ہے یا حمیدہ شاہین سے لکھوائی ہے۔ وہ غزل میں اس کالم کی زینت بنانا چاہتا ہوں۔ حمیدہ شاہین کی کچھ غزلیں میں نے محفوظ کر رکھی ہیں جو وقتاً فوقتاً پیش کرتا رہوں گا۔ ان میں سے ایک غزل دیکھئے۔
جانے کدھر کدھر ہے کہاں کی لگی ہوئی
کس کس نئے کو تو ہے پرانی لگی ہوئی
نقشے میں آ گئی تو اسے ماننا پڑا
کونے میں اک لکیر تھی یونہی لگی ہوئی
بازی گروں کو جب سے بنایا ہے منتظم
میلے میں ہر دکان ہے جھوٹی لگی ہوئی
تندور سا دہکتا رہا ہے تمام عمر
تن میں ہے کوئی آتشیں مٹی لگی ہوئی
بارش ہی طے کرے گی کوئی حدِ انجذاب
اس کوٹھڑی میں اینٹ ہے کچی لگی ہوئی
پہنچیں گے ہم کہاں‘ یہ نہیں ہے خبر مجھے
بس دوڑ تیرے ساتھ ہے اچھی لگی ہوئی
مانو تو جیت مات سے آگے نکل چلیں
چاروں طرف ہے آخری بازی لگی ہوئی
اس داستاں میں آگ بجھانا ہے لازمی
اک چیز ہے الائو میں ایسی لگی ہوئی
ہم پر تھی ایک تہمت آشفتگی سو اب
آدھی اُتر چکی ہے تو آدھی لگی ہوئی
رکھیو قدم سنبھال کے گھر بھر کی لاڈلی
سیڑھی ہے اعتبار کی اونچی لگی ہوئی
آج کا مطلع
ویسے تو راستے میں ہی پڑتی دکان ہے
آیا کرو کہ آپ کی اپنی دکان ہے