میں نے کبھی اس کا نام بھی نہیں سنا تھا لیکن یہ تو بہت مزیدار شاعر ہے۔ اس نے مجھے حیران بھی کر دیا ہے اور پریشان بھی۔ یار لوگ عام طور پر ہر شعر کا پتلا بنا دیتے ہیں لیکن اس میں جان نہیں ڈال سکتے یا بھول جاتے ہیں۔ یہ کوئی معرکۃ الآرا شاعری نہیں ہے لیکن یہ پُرلطف اتنی ہے کہ اپنا جواز ہے اور شاعری کے لیے اپنا جواز ہونا کافی ہی نہیں ضروری بھی ہے۔ اس کے بارے میں ہمارے دوستوں عطا الحق قاسمی‘ خالد شریف‘ محمد افتخار شفیع اور ندیم بھابھہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے‘ اگر نہ بھی کرتے تو بھی اسے کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ ایسی آراء فرمائشی اور رسمی ہی ہوتی ہیں۔
اسے نستعلیق مطبوعات لاہور نے چھاپا اور قیمت 500 روپے رکھی ہے۔ انتساب دختر عزیز ازجان مہرین افتخار کے نام ہے۔ خوبصورت ٹائٹل احسن گل گرافکس کا مرہون منت ہے جبکہ گٹ اپ خوبصورت ہے۔ تزئین و اہتمام حسن محمود کا ہے۔ شاعری ہمارے ملک میں اس قدر زور و شور سے ہو رہی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی لیکن زیادہ تر ایسی ہے کہ اس پر رائے دینا بھی وقت کے ضیاع کے مترادف ہے۔ بس موزوں گوئی ہے اور ٹریش‘ جبکہ سب کو کتاب چھپوانے کی بڑی جلدی ہوتی ہے‘ تاہم افتخار شوکت نے اس سلسلے میں کسی جلد بازی یا بے صبری کا مظاہرہ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ اس کی شاعری بطور خاص توجہ طلب ہے۔
اچھی شاعری کی بہت سی تعریفیں مقرر ہیں جنہیں ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آئے ہیں جبکہ اس کے مختلف معیارات بھی طے شدہ ہیں لیکن اس کا ایک ہی معیار صحیح ہو سکتا ہے کہ شعر سن کر آپ کے منہ سے ''واہ‘‘ نکل جائے اور آپ کو بے دست و پا کر کے رکھ دے۔ اس شاعر نے اپنا کوئی خاص لب و لہجہ اور سٹائل استوار کرنے کا اہتمام نہیں کیا اور نہ ہی دوسروں سے مختلف نظر آنے کے لیے اس نے کوئی اور پاپڑ بیلا ہے بلکہ اپنی جدت طبع پر ہی بھروسہ کرتے ہوئے یہ فاصلہ طے کیا ہے بلکہ اس سفر میں اپنے پڑھنے والوں یعنی ہم جیسوں کو بھی شامل کر لیا ہے۔
اگلے روز مجھے ممتاز شاعر نذیر قیصر کا فون آیا کہ میں اس وقت ماڈل ٹائون کے جس گھر سے فون کر رہا ہوں وہاں ایک بالکل نوعمر اور پیاری سی بچی سے ملاقات ہوئی ہے جس کے بارے میں پتا چلا کہ شعر بھی کہتی ہے۔ مجھے خوشی بھی ہوئی اور تجسس بھی‘ چنانچہ آزمانے کے لیے اس سے پوچھا کہ کون کون سے شاعر پسند ہیں تو اس نے کہا صرف ظفر اقبال۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہا اس لیے کہ وہ دوسروں سے ڈیفرنٹ ہیں (براہ کرم اسے ڈفرنٹ ہی پڑھا جائے‘ ڈفرٹ نہیں۔) اس نے مجھ سے اس کی بات بھی کروائی۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ دوسروں سے مختلف نہیں ہیں تو اس تکلف کی ضرورت نہیں‘ اور یہ کام دوسروں کو ہی کرتے رہنے دیں‘ آپ کی بہت مہربانی ہو گی۔
افتخار شوکت دوسروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اس کی شاعری ایک اپنا لطف رکھتی ہے۔ اعجاز حسین بٹالوی کہا کرتے تھے کہ غزل کے شعر کو خوش مزہ ہونا چاہیے‘ چنانچہ یہ شاعری اس معیار پر ہر لحاظ سے پورا اترتی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے‘ اور اگر میں پیشہ ور نقادوں کی طرح اس کی غزل کی خوبیاں گنوانا شروع کر دوں تو یہ ایک سعی لا حاصل ہو گی۔ بعض حضرات آپ سے آپ کے نظریہ شعر کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں حالانکہ غزل کسی خاص نظریے کو پیش نظر رکھ کر نہیں کہی جاتی۔ البتہ اس کے اندر سے آپ کوئی نظریہ برآمد کر سکیں تو الگ بات ہے۔ آئیے اب آپ کو اس کی شاعری کی سیر کراتے ہیں :
یہی اک جُرم ہے جس نے یہاں تک ہم کو پہنچایا
جہاں پر بولنا ہو ہم وہاں خاموش رہتے ہیں
اُتنی ہی سہولت سے گنوا بیٹھا میں اُس کو
وہ شخص مجھے جتنی سہولت سے ملا تھا
شوکتؔ کسی بھی گھر میں جو ماں کا وجود ہو
رہتی ہے اُس میں چھائوں شجر کے بغیر بھی
میرے علاوہ کوئی نہیں تھا جہان میں
اپنے ہی درمیان تماشا بنا رہا
دوریاں جتنی ہیں دریا میں بہا دیتے ہیں
ایسا کرتے ہیں کناروں کو ملا دیتے ہیں
لفظ کو پھول بنانے میں بہت دیر لگی
حال دل اُس کو سنانے میں بہت دیر لگی
اُس کی بکھری ہوئی یادوں کو سمیٹا میں نے
یہی سامان اٹھانے میں بہت دیر لگی
دل کی دیوار پہ آ بیٹھی تھیں یادیں شوکت
ان پرندوں کو اڑانے میں بہت دیر لگی
عین ممکن ہے عشق ہو جائے
ورنہ فی الحال دل لگی ہے میاں
کیا بتائوں جہاں کے بارے میں
میں یہاں ہوں نیا نیا میرے دوست
منزلیں منزلوں سے آگے ہیں
راستہ راستے سے باہر ہے
سمندر کا سفر ہے اور ستارا بھی نہیں کوئی
پریشانی ہے وہ جس کا کنارا بھی نہیں کوئی
شاعری میں اپنی کچھ نہیں شوکتؔ
یار لوگوں سے چھیڑ خانی ہے
گرچہ کوئی کمی نہیں لیکن
پھر بھی کوئی کمی سی لگتی ہے
میں کب کا بھاگ جاتا تیری قید سے، مگر
کچھ اور بھی ہے پائوں میں زنجیر کے سوا
میں کسی کی آنکھ سے سرسبز تھا
میں کسی کی بات سے پیلا ہوا
شوکتؔ میں اُس کے ساتھ بھی تھا اپنے ساتھ بھی
تاعمر یہ عجیب تماشا لگا رہا
آج کا مقطع
وقت اچھا گُزر رہا ہے‘ ظفرؔ
بُرے لوگوں کے درمیان میں بھی