تلاشی نہیں‘ جیب تراشی
ہمارے کرم فرما جناب پرویز رشید کا کہنا ہے کہ عمران خان تلاشی لینا نہیں‘ ہماری جیب کُترنا چاہتے ہیں۔ حق کی بات بھی یہی ہے کہ یہ جیب جتنی محنت سے بھری گئی ہے‘ ہر لالچی شخص کی اس پر نظر ہے جو کہ نہایت افسوسناک بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں کو صرف حسد کرنا آتا ہے اور خود محنت کرنا نہیں‘ جبکہ حکومت تلاشی دینے سے بھی اس لیے گریز کر رہی ہے کہ تلاشی لینے والا کہیں جیب ہی نہ خالی کر دے؛ حالانکہ حکومت سارے پیسے جیب میں بھی نہیں رکھتی۔ میں نے تو جب سے یہ بیان پڑھا ہے میرا ہاضمہ ہی خراب ہو گیا ہے‘ کچھ بھی کھانے پینے کو جی ہی نہیں چاہتا‘ بلکہ میں تو کہوں گا کہ دھرنے والے دن بھی لوگ اپنی جیبوں سے ہوشیار رہیں‘ کہیں ان کا لیڈر ہی ان پر ہاتھ صاف نہ کر جائے۔ مجھ سے اس بیان کی حمایت میں کالم لکھنے کی فرمائش کی گئی تھی جو میں بصد شوق پوری کر رہا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ میری یہ ادنیٰ کاوش پسند بھی کی جائے گی کہ تالی دو ہاتھوں سے ہی بجتی ہے جبکہ میرا ہاتھ تو ہر وقت حاضر ہے۔
ڈُگڈگی بجانے والا کون...؟
ایک اخباری اطلاع کے مطابق صوبائی اسمبلی پنجاب میں اپوزیشن نے وزیراعظم کے بیان پر شدید احتجاج کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ انہوں نے ڈگڈگی بجانے والا کس کو کہا ہے اور اس پر اسمبلی سے واک آئوٹ بھی کیا ہے۔ یہ ایک خواہ مخواہ کی شرانگیزی ہے جس کا مقصد محض وزیراعظم کو پریشان کرنا ہے کیونکہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ وزیراعظم کا اشارہ غیر سیاسی لوگوں کی طرف ہے اور غیر سیاسی لوگوں کو بھی یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے اور اس کے خلاف خود احتجاج کر سکتے ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں وہ بھی احتجاج کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے اور یہ بات وزیراعظم کو بھی اچھی طرح معلوم ہے اس لیے کسی ہما و شما کو بیچ میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے اور جوں جوں ریٹائرمنٹ کے دن قریب آتے جائیں گے، وزیراعظم کے لیے مزید سہولت پیدا ہوتی رہے گی اور وزیراعظم کو اسی دن کا انتظار بھی تھا کہ خزاں کے بعد بہار تو آیا ہی کرتی ہے‘ ہیں جی؟
انجمن محبانِ نوازشریف کا قیام
عوام الناس کو مبارک ہو کہ انجمن محبان نوازشریف کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے جس کا اکثریتی رائے سے خاکسار صدر منتخب ہوا ہے۔ میرے مقابلے میں جن صاحب نے الیکشن لڑا‘ ان کا نام ہی ووٹر لسٹ میں شامل نہیں تھا ورنہ گھمسان کا رن پڑتا؛ چنانچہ اس طرح جمہوریت کا بول بالا اور دشمنوں کا منہ کالا کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا گیا ہے۔ اس انجمن کی بنیادی ذمہ داری وزیراعظم کی صحت کے معاملات کا خیال رکھنا ہے جو عوام کی خدمات سرانجام دیتے دیتے مستقل طور پر تسلی بخش نہیں رہتی‘ خاص طور پر صاحب موصوف کے ہاضمے کا بغور اور قریبی مشاہدہ زیرنظر رہے گا جبکہ اللہ میاں نے انسان کو صرف کھانے کے لیے پیدا کیا ہے اور اسی لیے اسے دو ہاتھ اور بتیس دانت عطا کئے ہیں کہ کھانے کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا جا سکے۔ ویسے بھی اگر وزیراعظم نے مثلاً ناشتہ کر رکھا ہو یا کھانا کھایا ہوا ہو اور اوپر سے کوئی مہمان آ جائے تو صاحب موصوف کو دوبارہ اس عمل سے گزرنا پڑتا ہے جبکہ مہمانوں کا ویسے بھی تانتا بندھا رہتا ہے۔
ملاقات کی خواہش...
ہماری پرزور تائید و حمایت سے متاثر ہو کر وزیراعظم نے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے لیکن جب تک وہ اس سلسلے میں کرتے کراتے کچھ کہیں‘ پھوکی ملاقات کا کیا فائدہ ہے‘ اس لیے میری طرف سے اسے موخر کر دیا گیا ہے کہ کسی مناسب وقت پر یہ کام بھی کر لیا جائے گا۔ اس سلسلے میں بزرگوار مولانا فضل الرحمن سے بھی مشورہ کیا ہے اور انہوں نے بھی یہی سنہری اصول بتایا ہے کہ وزیراعظم کو کچھ نخرہ دکھا کر ان سے جو چاہیں نکلوایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بعض اپنے نتیجہ خیز اور خوشگوار تجربات کی مثالیں بھی دیں جنہیں میں نے مضبوطی سے پلے باندھ لیا ہے، اس لیے اگر اب کوئی پیغام آتا ہے تو خاکسار کا جواب یہی ہو گا کہ ہم کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ ہم چونکہ خود نہایت عملی آدمی ہیں اس لیے ہمارے ساتھ سلوک بھی عملی انداز میں ہونا چاہیے اور یہ لالچ کی بات نہیں بلکہ اس کے ساتھ عزت اور وقار کا مسئلہ بھی منسلک ہے‘ لہٰذا تھوڑے لکھے کو بہت سمجھا جائے۔
بجلی‘ گیس بند‘ مچھر آزاد۔۔۔!
گجرات سے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق بجلی اور گیس بند ہے اور شہری مچھروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ آخر اس میں اچنبھے کی بات کون سی ہے‘ کیا مچھر اللہ میاں کی مخلوق نہیں ہیں اور انہیں اپنا رزق تلاش کرنے کی اجازت نہیں ہے؟ شہریوں کو بھی اس قدر آرام طلب نہیں ہونا چاہیے۔ جہاں تک لوڈشیڈنگ کا تعلق ہے تو سب جانتے ہیں کہ وزیراعظم نے ایک بار پھر قوم کو خوشخبری دی ہے کہ یہ انشاء اللہ ختم ہو جائے گی جبکہ گیس میں لوگ اپنے طور پر بھی خودکفیل ہو سکتے ہیں‘ کیونکہ تبخیر معدہ کا رواج عام ہے اور پیٹ میں گیس کا بھر جانا معمول کی بات ہے اور بجائے اس کے کہ اسے ختم کرنے کے لیے ڈاکٹروں کی جیبیں بھری جائیں‘ اسے محفوظ کر کے کام میں لایا جا سکتا ہے اور اگر مچھروں کی کوئی مزاحمت کی گئی تو یہ بے چارے بھوکوں مر جائیں گے اور اتنی جانوں کا ضیاع کس کے کھاتے میں جائے گا اور اگر مچھروں سے بچنا ہی ہے تو لوگ مُسہریاں کیوں نہیں لگاتے؟ کیا یہ باتیں بتانا بھی حکومت کے فرائض میں شامل ہے؟
قربانی کا بکرا
شیخ رشید احمد لکھتے ہیں کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات خوشگوار ماحول میں نہیں ہوئی اور حکومت اس سلسلے میں قربانی کے لیے سرکاری بکرے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد نے تو اس کی انکوائری کرنے سے معذرت کر دی ہے کیونکہ اگر آپ سے کہا جائے کہ آپ نے جو یہ قمیض پہن رکھی ہے‘ انکوائری کر کے بتائیں کہ یہ قمیض واقعی آپ نے پہن رکھی ہے تو چوہدری صاحب کیا کریں گے۔ تاہم صدقہ خیرات ویسے بھی بہت بابرکت اور دافع بلیّات ہوتے ہیں اور اس سے گناہ بھی جھڑتے ہیں‘ اگرچہ حکومت آج تک کسی گناہ کی مرتکب نہیں ہوئی ہے اور اس پر الزامات سارے کے سارے جھوٹے اور منتقمانہ کارروائی ہیں؛ تاہم صدقے میں بکرا وہی لگے گا جو ہر طرح کے عیب اور نقص سے پاک ہو؛ چنانچہ اس معیار پر تو چوہدری صاحب ہی پورا اترتے ہیں‘ اگرچہ اتنے موٹے تازے تو نہیں ہیں اور اب ان کی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں رہی کیونکہ وزیراعظم اب خود آزاد اور خود مختار ہیں اور ڈگڈگی بجوا کر اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ سرعام اعتراف کر سکیں کہ متنازعہ خبر کو لیک اور فیڈ بھی خود اُنہی نے کرایا تھا‘ اگرچہ یہ بات سب کو پہلے ہی سے معلوم ہے۔
آج کا مطلع
ہر ایک شے سے کوئی شے نکال سکتا ہوں
کسی بھی شے میں کوئی چیز ڈال سکتا ہوں