ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اوکاڑہ میں ہمارے کولیگ اور نہایت عزیز دوست چوہدری عبدالرحمن ہیں جن کی وجہ شہرت یہ ہے کہ ایک بار ایک نئے جج کے سامنے پیش ہوئے‘ جج صاحب نے نام پوچھا تو ذرا کھینچ کر بتایا‘ عبدالررررحمن۔ چوہدری صاحب نے جج صاحب سے ان کا اسم گرامی پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نام تو میرا بھی عبدالرحمن ہے لیکن میرے نام میں اتنا ہُرررر نہیں ہے۔ سو‘ یہ ان کا طرۂ امتیاز ہی بن گیا‘ فون بھی کرنا ہو توانہیں ہیلو کی بجائے ہُرررر ہی کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں۔ اس فیملی کے ساتھ ہمارے بہت قریبی گھریلو تعلقات بھی رہے ہیں، مثلاً والد صاحب مرحوم کا ان کے بزرگوں کے ساتھ گہرا یارانہ تھا، جن میں چوہدری بشیر احمد‘ چوہدری مشتاق احمد‘ بھائی شبیر اور چودھری شریف جن میں سے بہت سے اب نہیں رہے۔
میں نے وہاں 35 سال پریکٹس کی ہے جو میری زندگی کا بہترین حصہ تھا۔ بہت سے گزر گئے مثلاً چوہدری محبوب عالم‘ چوہدری اللہ دتہ‘ چوہدری محمد دین‘ لالہ انور‘ ملک فخر حسین‘ چوہدری فیض احمد‘ رائے سلیم‘ چوہدری علی احمد مجاہد‘ چوہدری رشید احمد گجر۔ زندہ دوستوں میں چوہدری محمد سعید‘ چوہدری محمد شفیق‘ اسلم طاہر القادری‘ امین بلوچ (ان کی بارات کے ساتھ لاہور آنے کا شرف بھی مجھے حاصل ہے) رانا اظہر‘ رانا شوکت علی‘ چوہدری محمد رمضان اشرف سنگوکا‘ سید مقبول حسین‘ رائے ناصر‘ چوہدری عبدالرشید اور بہت سے کہ کالم میں گنجائش ہی زیادہ نہیں ہے۔
یقیناً ان میں ہمارے عزیز میاں انور علی بھی شامل ہیں۔ زمیندار آدمی ہیں اور وکالت بس شوقیہ ہی کرتے ہیں۔ ایک بار عدالت میں پیش‘ ایک تھانیدار پر جرح کر رہے تھے کہ تین چار سوالات کے بعد جب کوئی اور سوال نہ سوجھا تو کہنے لگے ہور کیہ حال اے؟ میں نے یہ پر لطف واقعہ کالم میں چھاپ دیا۔ اسی دن موصوف لاہور گئے اور پیپلز ہائوس میں وفاقی وزیر بلدیات میاں غلام محمد احمد مانیکا سے ملاقات کے لیے جب کمرے میں داخل ہوئے تو انہوں نے بھی چونکہ کالم پڑھ رکھا تھا، چھوٹتے ہی بولے میاں انور علی‘ ہور کیہ حال اے؟ فوت شدگان میں چوہدری عبدالشکور کو بھی شمار کر لیں۔ حافظہ ساتھ دینا تقریباً چھوڑ گیا ہے اس لیے لوگ ٹھہر ٹھہر کر یاد آ رہے ہیں۔ ہاں‘ ہمارے بے حد عزیز اور بے تکلف دوست چوہدری قطب نثار خاں بھٹی جن کے بارے میں ''رطب و یابس‘‘ کا یہ شعر بھی ہے ؎
میری بھی نہ چوڑ کر ترقی
اے خان قطب نثار بھٹی
جوانی ہی میں مرحوم ہو جانے والوں میں شامل تھے۔ پرانی کچہری میں میرے بالکل ہمسائے میں چوہدری محمد افضل کا چیمبر تھا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب ان دنوں ''فنون‘‘ نکال رہے تھے، مجھے تخلیقات بھجوانے کے لیے خط لکھا تو یہ بھی تحریر کیا کہ چونکہ آپ کی اٹھان میں میرا ہاتھ بھی ہے اس لیے امید ہے کہ مایوس نہیں کریں گے۔ وہ خط چوہدری افضل نے بھی پڑھ لیا اور میری چھیڑ ہی بنا لی کہ آپ کی اٹھان میں قاسمی صاحب کا ہاتھ ہے۔ وہ جہلم کے تھے اور کچھ عرصہ بعد جہلم شفٹ ہو گئے۔ میں نے ان کا کھوج نکالنے کی بہت کوشش لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔
لیجیے ‘ مرحومین میں سے ایک درخشندہ و تابندہ نام‘ کنور سعید احمد ۔ ان کا جوان اور ایس پی صاحبزادہ ایک پولیس مقابلے میں شہید ہو گیا اور اس کے بعد وہ سنبھل ہی نہ سکے۔ وہ شرارتاً مختلف کولیگز کے بارے میں مجھ سے فرمائش کر کے نظمیں لکھوایا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک نظم لالہ انور پر بھی لکھوائی جس کا مقطع ہے: ؎
سعید احمد کنور لکھوائی ہے یہ نظم تونے ہی
کھڑا ہو کر یہاں اب تو ہی سُن تقریر لالے کی
مرحومین میں رائے میاں خاں کھرل بھی شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں وہ ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ لوگوں کے کام بھی کرتے اور پیسے ویسے بھی لے لیا کرتے تھے۔ میں نے ان کے بارے میں نظم لکھی جس کا پہلا شعر تھا ؎
گُڑ کھائے میاں خاں
اے رائے میاں خاں
یہ ایک مقامی ہفت روزے میں چھپ بھی گئی۔ اگلے روز جب موصوف نے کسی کام کے لیے ایس پی آفس ساہیوال گئے (ان دنوں اوکاڑہ ابھی ضلع نہیں بنا تھا) تو انہوں نے دیکھا کہ کسی ستم ظریف نے وہ نظم اخبار میں سے تراش کر نوٹس بورڈ پر چسپاں کر رکھی ہے۔ بعدمیں وہاں وہ ضلع کچہری کے وکلاء سے یہ پوچھتے ہوئے پائے گئے کہ یہ نظم ان کے حق میں ہے یا خلاف؟
اوکاڑہ بار کا خاص الخاص کریکٹر اسلم طاہر القادری ہیں۔ انتہائی کثیر المطالعہ اور حیران کن یعنی غیر وکیلانہ حد تک ادبی ذوق کے مالک ۔ بار کی مجلسی زندگی میں ہمیشہ ان کا ایک اہم کردار رہتا ہے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ انہیں کم از کم لاہور میں ہونا چاہیے تھا جہاں ان کا ادبی پہلو کُھل کر سامنے آتا۔ بیورو کریسی میں جو بھی صاحب ذوق آدمی‘ جہاں بھی ہے قادری صاحب کا ان سے مستقل رابطہ رہتا ہے۔ ظفر الطاف مرحوم کے ساتھ ان کے قریبی اور گہرے تعلقات تھے۔ بیورو کریسی کے علاوہ بھی اہم ادبی شخصیات کے ساتھ وہ ربط و ضبط رکھتے ہیں ۔ اکبر ایس احمد‘ خواجہ شمائل احمد اور حسیب اطہر ان کے خاص دوستوں میں شامل ہیں، لیکن افسوس صد افسوس کہ وہ اوکاڑہ میں صرف ایک وکیل ہو کر رہ گئے ہیں۔
اوکاڑہ جانے کو بہت جی چاہتا ہے لیکن لاہور ہی کا ہو کر رہ گیا ہوں۔ اوکاڑہ میں میرا سارا زمانہ ان لوگوں کی قربت میں بسر ہوا۔ لیکن میں اب بھی ہر روز اوکاڑہ کا ایک چکر لگاتا ہوں اور زیادہ تر وقت کچہری میں انہی لوگوں کے ساتھ گزارتا ہوں۔ یہ سب بھی مجھے یاد رکھتے ہیں اور ان کی طرف سے مجھے جو خصوصی پیار ملا وہ میری بچی کھچی یادداشت کا باقاعدہ حصہ ہے۔ وہ بار بار بلاتے بھی ہیں لیکن میں خرابیٔ صحت کی بناء پر نہیں جا سکتا۔ بہرحال ‘ میں جب چاہوں ‘ آنکھیںبند کر کے ان سے ملاقات کر لیتا ہوں ؎
بہ آں گروہ کہ از بادۂ وفا مستند
سلامِ ما برسانید ہر کُجا ہستند
آج کا مطلع
اُوپر بھی تماشا تھا، نیچے بھی تماشا تھا
اور اصل تماشے سے پہلے بھی تماشا تھا