"ZIC" (space) message & send to 7575

کاک ٹیل کالم

عوام نے فیصلہ دے دیا‘ عدالت کے 
فیصلے کا انتظار کروں گا : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''عوام فیصلہ دے چکے ہیں‘ عدالت کے فیصلے کا انتظار کروں گا‘‘ لیکن تسلیم میں اُسے ملکی مفاد کے مطابق ہی کروں گا کیونکہ ملکی مفاد سب سے مقدم ہے کہ ملک ہے تو ہم سب بھی ہیں‘ عدالتوں سمیت‘ جبکہ میں نے ہر کام ملکی مفاد کے مطابق کیا ہے اور کئی کام ملکی مفاد کے مطابق کرنے میں انتہا ہی کر دی ہے جس کے مظاہر اندرون و بیرون ملک آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں‘ نیز اگر امریکی صدارتی اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ الیکشن کو تسلیم کرنے کا فیصلہ اپنی مرضی سے کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بھی میری طرح ملکی مفاد کا خیال رکھنے کے بے حد قائل ہیں۔ علاوہ ازیں عدالتوں کا احترام اپنی جگہ لیکن طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ عدالتیں نہیں‘ بے شک عدالتیں بھی ہمارے عزیز ترین بچے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ مرغی کے پائوں جلنے لگیں تو وہ اپنے بچے بھی پائوں تلے دے لیتی ہے بلکہ بہتر ہو گا کہ چیف صاحب سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے بھی مشورہ کر لیں جو اپنے تجربات کی روشنی میں انہیں مشورہ دے سکتے ہیں۔ اگرچہ تمام الزامات ثابت شدہ ہی ہیں لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ نظریۂ ضرورت بھی ہماری عدالتی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے جس کے ذریعے متعدد بار ملک کو بچا لیا گیا، لہٰذا اس نازک مرحلے پر بھی ملک کو بچانا ازبس ضروری ہے‘ آگے آپ کی مرضی ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
متنازعہ خبر‘ دوبارہ تحقیقات
ایک اخباری اطلاع کے مطابق متنازعہ خبر کی تحقیقات دوبارہ وزیر داخلہ نے سنبھال لی ہیں اور وزیراعظم کے دو قریبی افسروں کے صحافی سے رابطے کہیں ثابت نہیں ہوئے۔ قیاس غالب ہے کہ چند ہفتوں کی تحقیقات کے بعد اس کے ذمہ دار دو مزید افراد کا انکشاف ہو گا اور کچھ عرصے بعد انہیں بھی کلیئر کر دیا جائے گا اور یہ عمل حسب توفیق بار بار دہرایا جاتا رہے گا، حتیٰ کہ ریٹائرمنٹ کا مرحلہ بھی آ کر گزر جائے گا اور عام لوگ بھی بھول جائیں گے کہ کبھی یہ واقعہ کسی کے ایما اور اجازت سے ہوا تھا۔ واضح رہے کہ یہی تکنیک پاناما لیکس کے معاملے پر بھی اپنائی گئی تھی لیکن شومئی قسمت سے وہ ثمر آور ثابت نہ ہو سکی اور بالآخر عدالت نے اس کا نوٹس لے کر جملہ فریقین کو طلب کر لیا۔ ہو سکتا ہے اسی طرح متنازعہ خبر والی بات بھی کسی لمحے سر اٹھا لے اور حکومت کو مجبوراً کسی سرکاری بکرے کی بھینٹ دینی پڑ جائے کہ آخر بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے‘ ہیں جی؟
اقتدار کی ہوس
نواز لیگ کے رہنما دانیال عزیز نے کہا ہے کہ عمران خان کو اقتدار کی ہوس کھاتی چلی جا رہی ہے۔ آپ کے منہ میں گھی شکر‘ اس طرح تو عمران خان کا ٹنٹنا زُود یا بدیر خود ہی نکل جائے گا‘ اس کے بارے میں حکومت کو پریشان ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے اور نہ ہی اس کے دھرنوں اور تحریکوں کو روکنے کی‘ چنانچہ حکومت کو اس شبھ گھڑی کا انتظار کرنا چاہیے۔ آخر کوئی چیز آدمی کو کھانے لگ جائے تو اس میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نوازشریف کو ہٹا کر خود وزیراعظم بننا چاہتا ہے کیونکہ ان لوگوں کے خیال کے مطابق سیاسی دوڑ کا مقصد وزیراعظم ہونا نہیں چاہیے کیونکہ یہ تو ایک درویش اور صوفیانہ سلسلہ ہے جبکہ شریف برادران بھی تصوف کی یہ ساری منزلیں طے کر کے ہی یہاں تک پہنچے ہیں کہ اقتدار کا کانٹوں بھرا تاج سر پر رکھ لیں‘ اور یہ سب کچھ اپنے من کو مار کر ہی کیا جاتا ہے کہ آدمی کو مال و جاہ دنیا سے کوئی تعلق ہی نہ رہے‘ اس لیے بھی عمران خان کو اپنا طریق کار اور مقاصد پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
عوامی حقوق کی پامالی 
وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر آصف کرمانی کہتے ہیں کہ عمران خان عوام کے حقوق پامال کرنا چاہتے ہیں۔ بالکل بجا ارشاد فرمایا کیونکہ عوام کے حقوق میں یہ اختیارات بنیادی طور پر شامل ہیں کہ وہ اپنے حکمرانوں کو کرپشن کے پُل باندھتے ہوئے دیکھیں اور چپ رہیں۔ اپنا اور اپنے پیدا ہونے والے بچوں کا بال بال قرض میں بندھا دیکھیں اور خاموش رہیں‘ مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی تلے پستے رہیں‘ اجتماعی خودکشیاں کرتے رہیں اور ماتھے پر شکن نہ آنے دیں‘ صاف پانی کو ترستے رہیں اور اس کے بجائے صبر کے گھونٹ بھرتے رہیں‘ ان کے بچے ہوٹلوں‘ ورکشاپوں اور بھٹوں پر کام کرتے اور سکول کا منہ نہ دیکھیں اور حکومت کا دم بھرتے رہیں‘ ناقص غذا سے اپنا بیڑہ غرق کرتے رہیں اور مطمئن رہیں‘ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دوائوں سے محروم رہیں اور حکومت کے گُن گاتے رہیں۔ عمران خان عوام کے ان سب حقوق کو پامال کرتے ہوئے ان مصیبتوں کے خلاف آواز اٹھانے کی سازش میں مصروف ہے‘ خدا اسے سمجھے۔
بھرپور تیاری
بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ کارکن اگلے انتخابات کی بھرپور تیاری کریں اور یہ کہہ کر وہ دبئی چلے گئے ہیں تاکہ والد صاحب سے اس سلسلے میں مزید ہدایات حاصل کر سکیں‘ اگرچہ اس مقصد کے لیے پھوپھی صاحبہ بھی کافی ہیں۔ علاوہ ازیں بلاول کو اس انقلاب آفریں تیاری کے لیے یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ رحمن ملک اور دیگر انکلز کی آشیرباد بھی مکمل طور پر حاصل ہے جو اپنے کرشماتی نتائج مہیا کرنے کے لیے موجود ہیں اور جن کے سابقہ کارہائے نمایاں کی وجہ سے ووٹرز ان پر اپنا تن‘ من‘ دھن سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے ایک اشارے کے منتظر ہیں، تو ہم نہیں سمجھتے کہ ان بیش قیمت وسائل کے ہوتے ہوئے موصوف کو الیکشن کی مزید بھرپور تیاری کی کیا ضرورت ہے کیونکہ زرداری صاحب سمیت ان برگزیدہ ہستیوں کی برکت سے اقتدار تو یوں سمجھئے کہ برخوردار کے لیے پلیٹ میں دھرا رکھا ہے‘ صرف انہیں اپنی کابینہ ترتیب دینی ہے جس کے لیے یہ ہردلعزیز انکلز بالکل تیار بیٹھے ہیں۔
سیاست نہیں آتی
ہمارے کرم فرما سید خورشید احمد شاہ نے بالکل سولہ آنے صحیح بات کہی ہے کہ عمران خان اور نوازشریف دونوں کو سیاست نہیں آتی‘ کیونکہ سیاست تو یہ ہے کہ آپ حکومت کے خلاف بیان بھی دیتے ہیں اور اندر خانے حکومت سے ملے بھی ہوئے ہیں۔ عمران خان کی تحریک میں اس لیے شامل نہیں ہوتے کہ آپ کی اپنی فائلیں بھی وزیر داخلہ کی تحویل میں ہیں اور کسی وقت بھی برآمد ہو سکتی ہیں۔ آپ وزیراعظم کو برسرعام للکارتے بھی ہیں اور بعد میں معذرت بھی کر لیتے ہیں۔ جمہوریت کو بچانے کا واویلا اس لیے مچاتے ہیں کہ جمہوریت ہی ہے جو آپ سب کے عیبوں کی محافظ ہے‘ یہ نہ رہی تو سارا کھایا پیا باہر نکل آئے گا اور عبرتناک سزا الگ‘ نوجوان بلاول کو تازہ خون قرار دے کر آگے کرتے ہیں لیکن وہ خود زرداری کے اشارے کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے اور ڈاکٹر عاصم حسین اور ایان علی کو سزا سے بچا لینا ہی اپنی سیاست کی معراج سمجھتے ہیں۔
آج کا مطلع
کہاں گئے جو ترے دل میں بسنے والے تھے
کہ دُور دُور سے ہم تو ترسنے والے تھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں