اور سندھ بہتا رہا: یہ مستنصر حسین تارڑ کا سفر نامۂ سندھ ہے جسے سنگ میل پبلشرز نے چھاپا اور اس کی قیمت700روپے رکھی ہے۔ انتساب کی تحریر اس طرح سے ہے۔شیر دریا سندھ کے نام جو میری تہذیب کا بہائو ہے‘ جو کسی مندر میں نہیں‘ میرے دل میں گرتا ہے۔ موہن جودڑو کی سندھیا اور سچل سرمست کے نام‘‘ اور اس سفر نامے کے 22 حصے ہیں جسے نسبتاً بڑی تقطیع پر چھاپا گیا ہے۔
سرورق پر مصنف کی تصویر ہے جس کے پس منظر غالباً موہن جودڑو ہی کے کھنڈرات ہیں‘ تعریف کی ضرورت نہیں‘ نہایت دلچسپ!
تلخ نوائی: ہمارے دوست‘ صاحب طرز شاعر محمد اظہار الحق کے کالموں کا انتخاب ہے جسے المیزان لاہور نے شائع کیا ہے اور قیمت 500 روپے۔ کتاب کا انتساب بیٹیوں رضیہ شاہین اور ماہ وش بتول کے نام ہے۔ سرخ رنگ میں جاذب نظر ٹائٹل اور عمدہ گٹ اپ۔ پیش لفظ مصنف کا بقلم خود ہے جبکہ پس سرورق ممتاز کالم نگار و تجزیہ کار رئوف کلاسرا نے لکھا ہے۔ ان کے کالم ذوق و شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔
ہئیتِ شعر: اس کے مصنف ہمارے دوست علی اکبر ناطق ہیں جو شاعری‘ فکشن کے بعد اب تنقید کی طرف آئے ہیں۔ یہ کتاب اسوہ کالج اسلام آباد نے چھاپ کر اس کی قیمت 500 روپے رکھی ہے۔ پس سرورق جدید نقاد ناصر عباس نیّر نے تحریر کیا ہے جبکہ پیش لفظ مصنف نے خود لکھا ہے۔ اس میں مصنف نے شعر اقبال کی جمالیاتی سخت اور فکری نظام سے بحث کی ہے۔ انداز تحریر سلیس اور دلچسپ ہے۔ آپ اسے فکشن کے طور پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔
میں ایک زندہ عورت ہوں: یہ یونس جاوید کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ہے جسے دوست پبلی کیشنز اسلام آباد نے چھاپا اور قیمت 190روپے رکھی ہے جو بے حد معمولی ہے۔ کتاب کے پسِ سرورق ڈاکٹر انیس ناگی‘ قیصر نجفی اور ناصر شہزاد کی تحسینی رائے درج ہے۔ کتاب کا انتساب اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کے نام ہے اور اس کا دیباچہ شاہین مفتی نے لکھا ہے۔ اس میں کل17افسانے ہیں۔ ٹائٹل خیال انگیز اور گٹ اپ عمدہ اور اسے بڑی تقطیع پر چھاپا گیا ہے۔ بے حد دلچسپ افسانے ہیں۔
معاصر اردو ادب‘ نثری مطالعات: یہ تصنیفِ لطیف ہمارے دوست ڈاکٹر تحسین فراقی کی ہے جو آج کل مجلس ترقیٔ ادب کو چلا رہے ہیں۔ شاعری کے علاوہ تنقید اور تحقیق ان کے خاص میدان ہیں۔ یہ تحفہ کتاب کلیہ علوم اسلامیہ و شرقیہ پنجاب لاہور نے چھاپی اور اس کی قیمت 150روپے رکھی ہے جو برائے نام ہے۔ اس کے دیباچے پروفیسر ڈاکٹر جمیلہ شوکت اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے لکھے ہیں۔ مقالات کی کل تعداد 13ہے۔
بک شیلف: یہ کتاب شاعرہ اور نقاد ڈاکٹر شاہین مفتی نے لکھی‘ بک ہوم نے چھاپی اور اس کی قیمت 600 روپے رکھی گئی ہے۔ انتساب زاہد مسعود اور عامر مفتی کے نام ہے۔ پس سرورق مصنفہ کی تصویر کے ساتھ ادارے کی طرف سے مصنفہ کا مختصر تعارف درج کیا گیا ہے؛ حالانکہ وہ اس کی محتاج ہرگز نہیں تھیں۔ یہ کتاب ہمعصر ادیبوں کے بارے میں مختصر اور دلچسپ تاثرات پر مشتمل ہے۔ خوبصورت ٹائٹل اور عمدہ گٹ اپ کے ساتھ کل مضامین کی تعداد 21 ہے۔
ستونت سنگھ کا کالا دن: یہ ڈاکٹر یونس جاوید کا ناول ہے جسے سنگِ میل پبلشرز نے چھاپا اور اس کی قیمت 700روپے رکھی ہے۔کتاب کا انتساب کشور ناہید کے نام ہے۔ پس سرورق ڈاکٹر انور سدید کا تحریرکردہ ہے جبکہ اپنی بات کے عنوان سے کتاب کا پیش لفظ مصنف کا قلمی ہے۔ اسے دیدہ زیب ٹائٹل اور عمدہ گٹ اپ کے ساتھ چھاپا گیا ہے۔ اس کا مرکزی کردار ایک سکھ ہے جو پاکستان بننے کے بعد خود اور پھر اپنے لڑکے کو پاکستان بھیجتا ہے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان میں: اس کتاب کے مصنف ہمارے دوست پروفیسر فتح محمد ملک ہیں جو تنقید میں بطورخاص ایک نام اور مقام کے مالک ہیں۔ اسلامی روشن خیالی یا اشتراکی ملائیت اس کا ذیلی عنوان ہے۔ یہ کتاب بھی بڑی تقطیع میں سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپ کر اس کی قیمت 700 روپے رکھی ہے۔ پس سرورق کتاب کا مختصر تعارف بغیر کسی نام کے درج ہے۔ انتساب ہے‘ انتظار حسین کی یاد میں۔ یہ کتاب انجمن کا بھر پور تعارف پیش کرتی ہے۔
شبنم شکیل کی تخلیقی اور فکری کائنات: اس کی مصنفہ حنا جمشید ہیں اور یہ کتاب بیکن بکس نے چھاپی اور قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ پس سرورق ڈاکٹر ناصر عباس کا تحریرکردہ ہے جبکہ اندرون سرورق زہرہ نگاہ اور ڈاکٹر روبینہ ترین کے تحریر کردہ ہیں۔ دیباچے ڈاکٹر انوار احمد اور ڈاکٹر سلیم اختر کے قلم سے ہیں۔ کتاب کا انتساب خنسار اور انیسہ کے نام ہے۔ یہ کتاب شبنم شکیل پر ایم فل مقالے کے طور پر لکھا گیا تھا۔ سرورق پر شبنم شکیل کی تصانیف کا عکس چھاپا گیا ہے۔
وجودیت اور اردو شعری طرز اظہار: یہ کتاب ڈاکٹر افتخار بیگ نے لکھی ہے جسے پورب اکادمی اسلام آباد نے چھاپا اور قیمت 495 روپے رکھی ہے یعنی خریدار کو پانچ روپے کی رعایت دی گئی ہے۔ پس سرورق مصنف کا تفصیلی تعارف درج ہے۔ کتاب کا انتساب کچھ اس طرح سے ہے''اُن تمام صاحبانِ علم و فن کے نام جو نئے مباحث کو خوشگواریت کے ساتھ قبول کرتے ہیں‘ زندگی کی تفہیم روایت کے حوالے سے نہیں کرتے بلکہ روایات کی تخلیق پر یقین رکھتے ہیں‘ ہستی کا چنائو جذب دروں سے کرتے اور زندگی کے جوکھم سے نبرد آزما رہتے ہیں‘‘۔
تَسّی دھرتی: یہ کتاب جو ناول کی شکل میں ہے ہمارے دوست اور پنجابی ادب کے ایک بڑے نام زاہد حسن کی تخلیق ہے جسے پنجابی ادبی بورڈ لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ اس کا انتساب بارداسوں کے نام ہے۔ اس کا مختصر پیش لفظ ناشر ڈاکٹر پروین ملک نے اور دیباچہ سعید بھٹہ نے تحریرکیا ہے جس کا ایک اقتباس پس سرورق بھی درج ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل اور عمدہ گٹ اپ کے ساتھ اور زائد از دو سو صفحات اس کی ضخامت ہے۔
پرامن انقلاب: اس کتاب کے مصنف افتخار خان ہیں۔ اسے بک ہوم نے چھاپا اور اس کی قیمت 600 روپے رکھی گئی ہے۔ انتساب کی جگہ یہ جملے درج ہیں: بابا جی لوگ کہتے ہیں کہ ہم سب چور ہیں‘ اسی میں سُدھارکو پرامن انقلاب کہتے ہیں۔ پس سرورق انجینئر افتخار خان کا مختصر تعارف درج ہے۔ انقلاب کی رعایت سے ٹائٹل سرخ رنگ کا ہے۔ آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تفسیر درج کی گئی ہے۔ پیش لفظ مصنف نے خود لکھا ہے اور کتاب کسی دیباچے کے بغیر ہے جو اچھا لگا۔ ضخامت تقریباً تین سو صفحات۔ کتاب کو 99 مقالات میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ریل کی سیٹی: اس کے مصنف محمدحسن معراج ہیں۔ اسے سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت 1200روپے رکھی ہے۔ پس سرورق ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے لکھا ہے۔ انتساب دادی اور عمارہ کے نام ہے۔ مصنف نے پنڈی سے اُچ شریف ریل کی پٹڑی کے ساتھ سفر کیا ہے اور ایک طرح کا یہ دلچسپ سفر نامہ اور اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جبکہ اس کی ایک علامتی خصوصیت بھی ہے۔ اسے بڑی تقطیع پر خوبصورت انداز میں چھاپا گیا ہے۔
میں نے یہ جانا: اس کتاب کے مصنف طارق حنیف ہیں اور یہ ہمیں اکبر معصوم کی وساطت سے موصول ہوئی ہے اور اسے زاویہ فائونڈیشن لاہور نے چھاپ کر قیمت500 روپے رکھی ہے۔ اس کا انتخاب بھی اکبر معصوم نے کیا ہے۔ انتساب محمد طاہر بخش المعروف محبوب سجن سائیں کے نام ہے۔ پس سرورق ڈاکٹرعزیز ابن الحسن نے لکھا ہے۔ اس میں دانائی کی باتیں درج کی گئی ہیں اور نہایت سادہ و صاف زبان استعمال کی گئی ہے۔ٹائٹل دیدہ زیب اورگٹ اپ عمدہ ہے۔
آج کا مقطع
زمیں دیکھ کر باز آئے، ظفرؔ
یہاں پھولنے اور پھلنے سے ہم