شُکر گزار ہوں عوام نے سڑکوں
پراحتجاج کو مسترد کر دیا۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہاہے کہ شکر ہے عوام نے سڑکوں پر احتجاج کو مسترد کر دیا‘ بلکہ سڑکوں کا توکہیں نام و نشان نہیں رہنے دیا گیا تھا‘ اس لیے عوام سے زیادہ کنٹینرز زدہ اور کھدی سڑکوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ الزام لگانے والے پھر شرمندہ ہوں گے''حالانکہ ہمیں شرمندہ کرنے کے لیے پاناما لیکس کے علاوہ بھی بہت سے معاملات تھے جن میں زیادہ رنگے ہاتھوں پکڑے جا سکتے تھے جس طرح بیوقوف را کے ایجنٹ بھارتی سفارت کار پکڑے گئے ہیں۔ اب تک تو ہم نے برداشت کیا لیکن صبر اور برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے چنانچہ میں مودی بھائی سے گزارش کروں گا کہ یہاں ایسے احمقوں کو سفارتکاری کے لیے نہ بھیجا کریں جو پکڑے بھی جائیں جبکہ انہیں پکڑنے والی ایجنسیاں قطعاً اور ہیں جن پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے‘ اس لیے مودی صاحب مجھ پر راضی رہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پرویز خٹک پر غدّاری کا مقدمہ
چلانا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پرویز خٹک کے خلاف غدّاری کا مقدمہ چلانا چاہیے‘‘ کیونکہ اس مصیبت سے اس کے علاوہ چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ تاہم میں عمران خاں اور پرویز خٹک دونوں کا نہایت ممنون ہوں کہ ان کے دبائو کی وجہ سے وزیر اعظم میرے ساتھ آج کل ضروت سے زیادہ سخاوت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور میں بھی ماشاء اللہ ایک آدھ آف شور کمپنی قائم کرنے کے قابل ہو گیا ہوں‘ بلکہ باقی ساری اپوزیشن جماعتوں کو ان دونوں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کی وجہ سے باقی حضرات کے بھی چیدہ چیدہ مسائل حل ہوتے جا رہے ہیں اور ہم سب کو ‘ بلکہ نواز لیگ کے وزراء اور ارکان اسمبلی کو بھی دعا کرنی چاہیے کہ عمران خان کو خدا مزید توفیق عطا کرے کہ اس مشق کو جاری رکھے جس کی وجہ سے ہم سب کا الّو سیدھا ہے اور حلوہ مانڈہ چلا ہوا ہے۔
قدم بڑھائو
ہمارے محبوب وزیر اعظم نے اپنے دشمنوں کو پھر للکارتے ہوئے کہا ہے کہ غیر پارلیمانی قوتوں کو مسترد کرنے پر قوم کا شکریہ۔ بعض شرپسندوں نے اسے ایک اور پنگے سے تعبیر کیا ہے کہ ابھی ایک پنگا پہلے ہی بیچ میں ہے تو یہ ایک اورلے لیا گیا ہے اور ان کے بقول وزیر اعظم عدالت کے ذریعے فارغ ہونے کی بجائے اس سے بھی پہلے سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں تاکہ ' ان کا مستقبل ہی کسی حد تک محفوظ ہو جائے جیسا کہ پہلے ہوا تھا‘ اس لیے غیر پارلیمانی قوتوں کو ان کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے ‘ اور‘ اس سلسلے میں وہ جو مخلصانہ کوششیں کر رہے ہیں کچھ ان کا بھی لحاظ کرنا چاہیے جن میں متنازعہ خبر بھی شامل ہے۔ اور یہ قوتیں تسلی رکھیں کہ یہ کوئی اچنبا نہ ہو گا بلکہ یہ قوتیں ایسا بارہا پہلے بھی کر چکی ہیں اور کبھی کوئی آسمان نہیں ٹوٹا‘ بلکہ عدلیہ بھی ان کی توثیق کرتی رہی ہے‘ اس لیے قدم بڑھائو کہ غیر پارلیمانی قوتو! ہم تمہارے ساتھ ہیں!
15ارب کے اشتہارات
ایک تجزیہ کار کے مطابق حکومت کی طرف سے ایک خاصی رقم مختص کی گئی ہے جس میں جج صاحبان کو تنقید کا ہدف بنایا جائے گا۔ بیشک یہ عوام کے ٹیکس سے جمع کیا ہوا روپیہ ہے لیکن ہمارے حکمران بھی تو حکومتی اور سرکاری ہیں اور اگر سرکاری پیسے سے ان کو پیش آمدہ مصیبتوں سے نجات دلائی جا سکتی ہو تو اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے کیونکہ اپنی جیب سے یہ رقم ہرگز ادا نہیں کی جا سکتی کہ عوام کا پیسہ ہے تو حکومت بھی عوام کی ہے اس لیے عوض معاوضہ گلہ ندارد۔ اور جو حضرات اس طرح کی شرانگیز اطلاعات بہم پہنچا رہے ہیں‘ وہ ہیں جو وزیر اعظم کے میڈیا سیل میں شمولیت کے خواہشمند تھے لیکن کفایت شعار مریم نواز شریف نے اس طرح بہت سا عوامی پیسہ بچا لیا ہے جس طرح حکومت ہر آئے دن ایسے اعلانات کر تی رہتی ہے کہ فلاں منصوبے سے اتنے ارب روپے بچا لیے گئے ہیں جن کی اگرچہ کبھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی لیکن اگر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے بیانات پر اعتبار ہی نہیں کرنا تو انہیں منتخب کیوں کیا تھا؟
کرپشن زدہ؟
ایک اخباری اطلاع کے مطابق پشاور یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے یہ کہتے ہوئے اقبال ظفرجھگڑا سے ڈگری لینے سے انکار کر دیا ہے کہ کرپشن زدہ گورنر سے ڈگری نہیں لوں گا۔ ہمارے خیال میں تو یہ ساری شرارت عمران خان ہی کی ہے جس نے کرپشن کو ایک ہوا بنا کر پیش کر رکھا ہے کہ کرپشن کے معنی ہی تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں کہ اب اسی بناء پر وزیر اعظم سے بھی استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور عمران خاں بظاہر یہی تبدیلی لائے ہیں جسے تبدیلی ہرگز نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ تو ہماری روایات ہی سے ایک طرح کا انحراف ہے جنہیں ہم نے ایک زمانے سے گلے لگا رکھا تھا۔ حالانکہ کرپشن سے کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا یعنی ضرورت مند کی احتیاج پوری ہو جاتی ہے اور دوسرے فریق کا بھلا ہو جاتا ہے‘ نیز اربوں کے میگا پراجیکٹس میں سے اگر چند ارب بچا بھی لیے جائیں تو اس سے منصوبوں کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اس لیے ہماری ناچیز رائے میں اس خطرناک رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ورنہ یہ سارا نظام ہی تلپٹ ہو کر رہ جائے گا خدا نخواستہ !
آج کا مقطع
دودھ ہے اتنا کیوں سفید‘ ظفرؔ
ورنہ ہے تو سیاہ کالی بھینس