اس دفعہ پنجابی صفحے کی خاص الخاص چیز ہمارے دوست خالد مسعود خاں کا انٹرویو تھا جس میں انہوں نے سرائیکی زبان پر سیر حاصل گفتگو کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں پنجابی ہوں لیکن ملتان میں رہائش کی وجہ سے سرائیکی بھی بول سکتا ہوں جو کہ لہجہ نہیں بلکہ مکمل زبان ہے‘پنجابی ہی کی طرح ۔ سرائیکی کے حروفِ تہجّی اور گرائمرکر پنجابی سے مختلف ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ یہاں پنجابی زبان کے اخبار کیوں کامیاب نہیں ہو سکے تو ان کا جواب تھا کہ ہم پنجابی زبان صرف بولتے اور سنتے ہیں‘ لکھتے نہیں‘ اس لیے اسے آسانی سے پڑھ بھی نہیں سکتے اور جب تک اس زبان کو پرائمری کلاس سے شامل نصاب نہیں کیا جاتا یہ مسئلہ حل طلب ہی رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ شاعری کا آغاز اُردو سے کیا اور اردو شاعری جم کے پڑھی بھی لیکن میرے اندر جو فطری طور پر مزاج کی چاشنی اوروفورتھا‘ اس کے لیے مجھے پنجابی ہی کا سہارا لینا پڑا۔
اس کے علاوہ دوسرا اہم مضمون امرتا پریتم پر تھا جو اسد مفتی کا تحریر کردہ تھا جس میں انہوں نے اس نامور شاعرہ‘ افسانہ نگار اور ناول نگار کی شخصیت اور فن سے آگاہ کیا۔ شاعری کی مقدار اس دفعہ کافی تھی اور وہ بھی صنفِ غزل ہی کی شکل میں لیکن کوئی زور دار نگارش سامنے نہیں آئی۔ تقریبات کا احوال تھا‘ لطیفے تھے اور تبصرۂ کتب۔
ایک انگلش میڈیم سکول میں پنجابی کو ماڈل لینگویج کہنے پر اہل پنجاب کی طرف سے بھر پور احتجاج کیا گیا جبکہ ہائی کورٹ میں بھی یہ کیس چل رہا ہے۔ تاہم ادارے کی طرف سے اس وضاحت کے بعد کہ ٹیکنیکل غلطی کی وجہ سے ایسا ہوا ورنہ ہمارا سٹاف سارے کا سارا پنجابی ہے‘ ہم پنجابی کے مخالف کیسے ہو سکتے ہیں‘ یہ گرد و غبار کا فی حد تک بیٹھ گیا ہے اور غلط فہمیاں رفع ہو گئی ہیں۔
پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹرصغریٰ صدف نے لائف اچیومنٹ ایوارڈ جاری کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اس پر ہر سال تین لاکھ روپے کا انعام دیا جائے گا اور یہ سلسلہ بہت جلد شروع ہو جائے گا۔ تاہم نفاذِاردو کے لیے جس طرح ایک باقاعدہ تحریک چلائی جا رہی ہے اسی طرح پنجابی کے سلسلے میں بھی لوگوں کو آگے آنا چاہیے اور اس نظر انداز زبان کو اس کا جائز حق دلانے کے لیے کوشش کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ یہ بہت بڑی زبان قصۂ پارینہ ہوکر رہ جائے گی اور ہمیں کم از کم اپنی ماں بولی کے حوالے سے تو کچھ جوش اورجذبے کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ پنجابی شاعری جو آج کل تخلیق کی جا رہی ہے وہ خاصی حد تک یبوست زدہ ہے جبکہ میرے سمیت شعراء اُردو زبان کو ہی لفٹ کراتے ہیں اور اس طرح ایک ٹھیک ٹھاک جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اردو کے حقوق اپنی جگہ‘ لیکن پنجابی زبان کے حوالے سے پنجابی ہوتے ہوئے جو ذمہ داری شاعروں ‘ادیبوں پر عائد ہوتی ہے‘ اس پر بے اعتنائی کا رویہ از حد افسوسناک ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پنجابی مشاعروں کا معیار بھی خاصی تک افسوسناک ہے۔ حالت
یہ ہے کہ لاہور‘ بلکہ پورے پنجاب سے صرف تین معیاری رسالے پنچم‘ ترنجن اور پنجابی ادب ہی نظر آتے ہیں۔ پنجابی زبان کی ترویج و اشاعت کے ضمن میں حکومتی عدم دلچسپی اپنی جگہ پر لیکن اس کے ذمے دار خاصی حد تک ہم خود بھی ہیں۔ پنجابی صفحے پر حسب معمول شاہ حسین کی شاعری کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو: ؎
ایتھے رہنا ناہیں کوئی بات چلن دی کر وو
وڈے اُچے محل اساریوگورنمانی تیرا گھر وو
جس دیہی دا توں مان کرینا ایں جیوں پرچھاویں ڈھر وو
چھوڑ ترکھائی‘ پکڑ حلیمی‘ بہیہ صاحب تھیں ڈر وو
کہے حسین حیاتی لوڑیں‘ نہ مرن تھیں اگے مر وو
تماہی‘ پنجابی ادب میں شائع ہونے والی شاہ حسین کی شاعری:
دل درداں کیتی پوری نی‘ دل درداں کیتی پُوری
لکھ کروڑ جنہاں دے جُڑیا سو بھی جُھوری جُھوری
بھٹھ پئی تیری چٹی چادر چنگی فقیراں دی بُھوری
ساڈ سنگت دے اوہلے رہندے بُدھ تنہاں دی سوری
کہے حسین فقیر سائیں دا خلقت گئی ادھوری
اور اب آخر میں سانگھڑ سے اکبر معصوم کا تازہ کلام:
فکر اپنی فرشہر دی اُتوں
نیندر پچھلے پہر دی اُتوں
موت دی گھوکر چڑھی ہوئی سی
پُڑی میں پھک لئی زہر دی اُتوں
انّھے واہ ٹُریا جاندا ساں
سردی ہووے قہر دی اُتوں
سدّھر کوئی رت رنگی سی
دل وچ نئیں سی ٹھہر دی اُتوں
اک پانی دا خوف سی ازلی
شکل عجیب سی لہر دی اُتوں
کُش سانوں ترنا نہ آوے
نیت بھیڑی نہر دی اُتوں
مُورت سی اوہ کم صرافی
پنڈے چمک سُنہر دی اُتوں
کِکّر وی معصومؔ سی کلّا
دُھپ فر شکر دوپہر دی اُتوں
......
کہیہ کہیہ گل وچ پھاہ نئیں لیندا
میں کوئی سوکھا ساہ نئیں لیندا
دُنیا ایویں ای رکھی ہوئی اے
کیوں ایہہ رنّ ویاہ نئیں لیندا
جان دین تے اسی نئیں راضی
دل اوہ بے پرواہ نئیں لیندا
کم اوسے دا بن دا اے جیہڑا
ساڈی کوئی صلاح نئیں لیندا
دُکھ چنگے‘ جا میری مرضی
دے کے اگ کپاہ نئیں لیندا
خلقت موت دے ویڑے سُتّی
توں وی منجی ڈاہ نئیں لیندا
سچ معصومؔ ایہہ فیدا دتا
سانوں کوئی گواہ نئیں لیندا
آج کا مقطع
دل تو بھرپور سمندر ہے ظفرؔ ‘ کیا کیجیے
دو گھڑی بیٹھ کے رونے سے نبڑتا کیا ہے