''مابعد جدیدیت اور امتزاجی تنقید‘‘ کے عنوان سے یہ کتاب عمران شاہد بھنڈر نے لکھی‘ بک ٹائم کراچی نے چھاپی اور اس کی قیمت 495 روپے رکھی ہے۔ کتاب کو مختلف عنوانات کے تحت ان چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی چند باتیں‘ بنیادی مقدمہ‘ مابعد جدیدیت‘ امتزاجی تنقید‘ مغالطے اور سرقے‘ فلسفیانہ اور لسانی ساختیات‘ مابعد جدیدیت اور تصور امتزاج‘ دستک اُس دروازے پر‘ مغالطے اور سرقے‘ مغربی فلسفہ اور ڈی کنسٹرکشن‘ تصّوف اور ڈی کنسٹرکشن اور امتزاجی تنقید۔ یہ فہرست اس لئے دی گئی ہے کہ ان موضوعات سے دلچسپی رکھنے والے قارئین اس کی طرف رجوع کر سکیں۔
اس کا لُب لباب کتاب کے پس سرورق تحریر ہی سے واضح ہے جو اس طرح سے ہے : ''جب مابعد جدیدیت کے بنیادی مقولات یعنی ''افتراق‘‘ اور ''دوسرے‘‘ کے دوسرے پن کو حتمی تصور کر لیتے ہیں تو پھر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ مابعد جدیدیت کے برآمد کردہ تمام نتائج کو بالائے طارق رکھ دیا جائے جن کا اردو تنقید میں مابعد جدیدیت کے نام پر اطلاق کیا جاتا رہا ہے تاکہ ''دوسرے‘‘ کی حقیقت سامنے آ سکے۔ اُردو زبان جو مغربی سامراجی زبانوں کا ''دوسرا‘‘ صرف اس لیے بنی رہی ہے کہ اسے سامراجی زبانوں کے تعقلات کی تشریح و توضیح پر لگا دیا گیا تھا۔ اسے اس کے اپنے ثقافتی و سماجی پس منظر میں پیش ہی نہیں کیا گیا۔ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ اردو ناقدین کی اکثریت بالخصوص پاکستان میں اس کے قارئین مابعد جدیدیت کی تفہیم سے مکمل طور پر عاری رہے۔
اثبات ذات کے لیے انہوں نے سرقوں اور نقالی کا سہارا لیا اور تمام زندگی نقالی اور سرقہ ہی ان کی اولین ترجیح بنے رہے۔ انہوں نے مابعد جدیدیت کے بنیادی تعقلات کی تفہیم کے بغیر صرف مغربی مابعد جدیدیت ناقدین کے نتائج کو قبول کرتے ہوئے‘ ادب اور شاعری کو ان کے سماجی پس منظر میں دیکھنے کی بجائے اندھا دھند انہی تعقلات کا ادب اور شاعری پر اطلاق کرنا شروع کر دیا جن کی نفی ''دوسرے‘‘ کے ''دوسرے پن‘‘ تک پہنچنے کے لیے ضروری تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ''دوسرا‘‘ ابھی تک سامراجی یلغار کا شکار ہے اور اپنے اظہار کے ذرائع تلاش کر رہا ہے۔ مابعد جدیدیت نے ''پہلے‘‘ کے جس جبر کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا جو جدیدیت کی شکل میں بھی اُردو میں درآمد کر لیا گیا تھا‘ اُردو کے مابعد جدید ''ناقدین‘‘ نے اس جبر کو ایک بار پھر قائم کر دیا۔ مصنف کی موت‘ معنی کی غیر حتمیت‘ تضادات اور روزنوں کا انکشاف ایسے نتائج ہیں جن کو دکھانا ''دوسرے‘‘ کے جداگانہ وجود کو ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا۔ حقیقی چیلنج یہ تھا کہ مغربی مابعد جدید فلسفیوں اور ناقدین کے نظری مباحث سے ماخوذ نتائج کو سمجھا جاتا اور اپنے معاشروں کی حقیقی معاشی ساخت اور اس کی بالائی اشکال یعنی الٰہیاتی رُجحانات‘ علم الوجود‘ منطق کی حقیقت اور شعری و ادبی متون کے سماجی و ثقافتی پس منظر اور پیش منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے تشریح و توضیح کا سلسلہ قائم کیا جاتا‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔‘‘
اس تحریر میں جس سرقے اور نقالی کا رونا رویا گیا ہے‘ دو مضامین میں اس کا صراحت کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے یعنی امتزاجی تنقید : مغالطے اور سرقے اور دستک اسی دروازے پر : مغالطے اور سرقے میں۔ ان دونوں مضامین میں مثالیں دے دے کر اور ٹھوس وضاحت کے ساتھ ڈاکٹر وزیر آغا کی تصنیف ''امتزاجی تنقید‘‘ کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ اس کتاب میں مصنف نے کن کن مغربی مصنفین سے کھینچے مارے ہیں اور اُن کی تحریروں کو لفظ بہ لفظ ترجمہ کر کے (اردو ترجمہ بھی ناقص) اپنے نام سے پیش کیا گیا ہے گویا یہ سارے کے سارے خیالات و نظریات ڈاکٹر وزیر آغا ہی کے ہیں۔
صرف ڈاکٹر وزیر آغا ہی نہیں‘ بلکہ اُن کے مداحوں‘ مدافعت کاروں اور نیاز مندوں کا وتیرہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے ۔ ان کے ایک معروف شاگرد رشید ڈاکٹر انور سدید نے کئی سال پہلے کسی کی نظم اپنے نام سے چھپوا دی۔ میں نے اس کا نوٹس لیا تو آئیں بائیں شائیں ہی کرتے رہ گئے۔ اس کے بعد ایک بھارتی رسالے ''سرسبز‘‘ میں میرا ایک خط شائع ہوا تھا جس میں میں نے جدید غزل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ موصوف نے وہی خط من و عن رسالہ ''چہارسو‘‘ میں اپنے نام سے چھپوا دیا۔ میں نے اپنے کالم میں اس پر شور مچایا تو جواب میں خاموشی‘ حتیٰ کہ اس رسالے کے ایڈیٹر بھی کوئی وضاحت نہ کر سکے۔ اس کے بعد یوں ہوا کہ آپ لاہور کے ایک اخبار میں جب اس کے ادبی صفحے کے انچارج تھے تو محیط اسماعیل نے منصورہ احمدکی کتاب پر تبصرہ لکھ کر بھیجا جو موصوف کو اتنا پسند آیا کہ اپنے نام سے چھاپ لیا۔ محیط اسماعیل کے ہاہا کار مچانے پر ایڈیٹر کو معذرت کرنا پڑی! اور اب خانہ پُری کے لیے : غزل :
عکس ہے دریا سے باہر‘ آئینہ پانی میں ہے
دیکھنے والا خُود اپنی ہی پریشانی میں ہے
اُس کا ہنس کر بات کرنا ہی بہت مہنگا پڑا
کیا خبر تھی اِس قدر مُشکل بھی آسانی میں ہے
ایک شاعر میں ہُوا ظاہر زمانے بھر کا عجز
تمکنت سارے جہاں کی ایک اُستانی میں ہے
اُتنے ہی لُطف و کرم کا کر رہے تھے ہم سوال
جتنی گنجائش ہماری تنگ دامانی میں ہے
روشنی اتنی تھی گویا کچھ نظر آتا نہ تھا
ایک انوکھی پردہ داری اُس کی عُریانی میں ہے
اُس سے بھی ہُشیار رہنے کی ضرورت ہے بہت
آپ کا یہ مال وزر جس کی نگہبانی میں ہے
چاند گہنایا ہوا لگتا ہے یہ اک عُمر سے
کچھ اندھیرا سا جو اپنے دل کی تابانی میں ہے
بس یہی ماحول مُجھ کو راس آتا ہے بہت
شام ہے اُجڑی ہوئی سی‘ شہر ویرانی میں ہے
وہ نہیں موجود جس شے کی ضرورت ہے ظفرؔ
جو نہیں درکار‘ وہ کیسی فراوانی میں ہے
آج کا مطلع
کیا کیا گلاب کھلتے ہیں اندر کی دھوپ میں
آ مل کے مجھ کو دیکھ دسمبر کی دھوپ میں