ہم انتخاب جیت کر مستعفی ہونے
کے لیے نہیں آئے... نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم انتخاب جیت کر مستعفی ہونے کے لیے نہیں آئے‘‘ بلکہ کمانے کے لیے آئے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ کما بھی رہے ہیں اور آئندہ بھی کماتے رہیں گے، کرلو جو کرنا، پیسہ کمانا کوئی جرم بھی نہیں ہے، جبکہ ہم نے کسی کو پیسہ کمانے سے نہیں روکا بلکہ ع
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
انہوں نے کہا کہ ''میثاق جمہوریت ٹھیک طرح سے نہیں چل سکا‘‘ اور پیپلز پارٹی والے مخالفانہ بیانات دے دے کر ہماری ناک میں دم کر رہے ہیں؛ حالانکہ ہم نے ان کی ساری فائلیں اسی طرح بند رکھی ہوئی ہیں جبکہ کائرہ صاحب نے یہ نیا طعنہ دیا ہے کہ شہباز شریف نے میٹرو ٹرین منصوبے میں ایک ارب روپے کمائے ہیں، تو بھائی آپ کو کس نے منع کیا ہے۔ آپ بھی کوئی میٹرو ٹرین شروع کر دیں اور اربوں کمانے لگے جائیں، ہم نے کون سا اعتراض کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے جمہوریت کو پٹڑی سے اُتارنے والا کوئی کام نہیں کیا‘‘ کیونکہ جس جمہوریت نے ہمیں چھپر پھاڑ کر دیا ہے، ہمارا دماغ خراب ہے جو اسے پٹڑی سے اُتار دیں، بلکہ اگر صرف پٹڑی ہی رہ جاتی تو وہ بھی سکریپ کی صورت میں الگ سے مالا مال کر دیتی۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے دھاندلی کا رونا نہیں رویا‘‘ کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا تھا کہ یا
دھاندلی کرتے یا اس کا رونا روتے؛ چنانچہ رونا رونے کا کام ہم نے دوسروں پر چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ایک جماعت کی سیاست سے ملک آگے کی بجائے پیچھے کی طرف جائے گا‘‘ بیشک اس کا الزام ہم پر ہی لگایا جاتا ہے تاہم ایک جگہ پر جامد ہونے کی بجائے ملک اگر پیچھے کی طرف بھی جا رہا ہے تو آگے پیچھے، دائیں بائیں یہ ساری طرفیں اللہ میاں ہی کی بنائی ہوئی ہیں اور اگر ملک واقعی پیچھے کی طرف جا رہا ہے تو یہ طرف بھی اللہ میاں ہی کی بنائی ہوئی ہے اور پیچھے کی طرف جانے میں بھی اس کے حکم کی تعمیل ہی کے برابر ہے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''پی پی نے 90ء کی سیاست شروع کر دی‘‘ حالانکہ اگر قبل از مسیح کی سیاست بھی شروع کر دی جائے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ملکِ عزیز کی طرح اللہ کے فضل و کرم سے ہم بھی نا قابلِ تسخیر ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے کئی بار کہا گیا مستعفی ہو جاؤں‘‘ حالانکہ شریف آدمی کے لیے ایک بار کا کہا بھی کافی ہوتا ہے لیکن انہیں ابھی اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ ان کا پالا کس سے پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اب دنیا چل کر ہمارے پاس آنے لگی ہے‘‘ تاکہ ہم سے پیسہ کمانے کے گر سیکھ سکے۔ لیکن ہم بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے یعنی اپنے ہنر کا ہم خود ہی زیادہ سے زیادہ فائدہ کیوں نہ اُٹھائیں، اس لیے دنیا کو
چاہیے کہ اس موضوع پر خود دماغ لڑائے اور اپنے طریقے خود دریافت کرے۔ انہوں نے کہا کہ ''نظام کا تسلسل ہی ترقی کا ضامن ہے‘‘ اور ہماری ترقی ایک روشن مثال کی طرح سب کے سامنے ہے بلکہ اب تو یہ صحیح معنوں میں دن دگنی اور رات چگنی ہو گئی ہے، حتّیٰ کہ خود ہم سے سنبھالی ہی نہیں جا رہی اور اگر بیرون ملکی بینک ہماری مدد کو نہ آتے تو ہمارے لیے پریشانی ہی پریشانی ہوتی جو اب ہمارے مخالفین کا مقدر بن چکی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ناشتے کی میز پر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
ہم جنرل راحیل شریف کے مشن کو
آگے بڑھائیں گے... خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ''ہم جنرل راحیل شریف کے مشن کو آگے بڑھائیں گے‘‘ کیونکہ ہمیں جرنیلوں کے مشن کو آگے بڑھانے کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے جس کی ابتداء میں ہمارے قائد نے جنرل ضیاء الحق کے مشن کو آگے بڑھانے کا بیڑہ اُٹھایا تھا اور ان کی قبر پر رو رو کر یہ عہد کیا تھا، اس لیے جنرل راحیل شریف کو آگے بڑھانے کا مشن ہمارے لیے ہرگز کوئی مشکل بات نہ ہوگی جبکہ اس کی ابتداء ہم نے متنازعہ خبر شائع کروا کر ہی کر دی تھی اور پرویز رشید کو خواہ مخواہ قربانی کا بکرا بنانا پڑ گیا تھا اور اب موصوف کی ریٹائرمنٹ کے بعد تو یہ قصۂ پارینہ ہو کر رہ گیا ہے اس لیے وزیر موصوف بھی بہت جلد اپنے کام پر آ جائیں گے بلکہ متعلقہ نامہ نگار کو بھی ہم نے کہلا بھیجا ہے کہ بیرونِ ملک سے واپس آجائے، اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ اگر ہمارا کوئی بال بیکا نہیں ہوا تو اُسے پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
چور دروازے تلاش کرنے والے
کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے... مریم
وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے کہا ہے کہ ''چور دروازے تلاش کرنے والے کبھی وزیر اعظم نہیں بن سکتے‘‘ جبکہ ہمارے قائد کو تو چور دروازہ تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی اور بنا بنایا ہی مل گیا تھا اور جنرل ضیاء الحق کے کہنے پر جنرل جیلانی نے ہمارے قائدکو خواہ مخواہ ہی وزیر خزانہ پنجاب لگا دیا تھا حالانکہ بابے آدم سے لے کر اب تک سیاست سے ہمارا کبھی دور کا بھی تعلق نہ رہا تھا، اور اس کے بعد یہ ساری ریل پیل بھی اپنے آپ ہی شروع ہو گئی تھی جو اب تک پوری آب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے اور تا صبحِ قیامت جاری رہے گی کیونکہ ہم نے مخالفوں پر اقتدار کے سارے دروازے بند کر دیے ہیں، حتیٰ کہ اب کوئی چور دروازہ بھی باقی نہیں رہا ہے اور صرف چور اور ڈاکو باقی رہ گئے ہیں جو لاہور میں بھی دن رات اُودھم مچائے رکھتے ہیں اورکوئی انہیں ہاتھ نہیں لگا سکتا کیونکہ ہم کسی کے رزق پر لات مارنے میں یقین نہیں رکھتے، البتہ مخالفین ہمارے رزق پر لات مارنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں جو سال ہا سال کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہے جبکہ انہیں بھی محنت کر کے اپنا رزق تلاش کرنا چاہیے کیونکہ اللہ میاں کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتے، جس کی درخشندہ مثال کے طور پر ہم ساری دنیا کے سامنے ہیں جو حیران اور پریشان ہو کر ہماری طرف دیکھ رہی ہے۔ اللہ میاںنظرِ بد سے بچائیں، آمین ثم آمین۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پی ٹی وی سالگرہ تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔
آج کا مطلع
یہ شہر وہ ہے جس میں کوئی گھر بھی خوش نہیں
دادِ ستم نہ دے کہ ستم گر بھی خوش نہیں