"ZIC" (space) message & send to 7575

ہمارے برتن

گلاس
یہ گلاس کی شکل کا ایک برتن ہے جس سے پانی پیا جاتا ہے۔ بڑے سائز کا گلاس لسّی کے لیے ہوتا ہے جبکہ اس سے بھی بڑا گلاس علمائے کرام کی شربت نوشی کے لیے مخصوص ہے۔ یہ آج کل عام طور پر شیشے کا ہوتا ہے لیکن کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کی بجائے اب گلاس توڑا 20 روپے ہونا چاہیے کیونکہ اس کی قیمت بھی ہماری معیشت کی طرح تیز رفتار ترقی پر رہتی ہے۔ علما کہتے ہیں کہ آدھے خالی گلاس کو آدھا بھرا ہوا کہنا چاہیے؛ حالانکہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ گلاس میں نہ علمائے کرام میں۔
چمچہ
یہ چاول اور میٹھا وغیرہ کھانے کے کام آتا ہے۔ چنانچہ اس کی ایجاد سے پہلے چاول اور میٹھا نہیں کھائے جاتے تھے۔ چائے میں چینی ملانے کے لیے یہ تیر بہدف نسخہ ہے۔ اسے پیالی میںگھماتے جائیں یا چمچہ درمیان میں کھڑا کر کے پیالی کو گھماتے جائیں، ایک سا نتیجہ برآمد ہوگا۔ چھوٹے چمچے کو سپون کہا جاتا ہے اور بڑے کو ٹیبل سپون؛ حالانکہ اس سے میز نہیں کھائی جاتی اور نہیں تو اسے پلاؤ سپون تو ضرور ہی کہنا چاہیے۔ اس سے بڑا چمچہ ڈونگے کا چمچہ کہلاتا ہے اور دیگ کا چمچہ کڑچھا۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی انہی القابات سے پکارا جاتاہے۔
پلیٹ 
عام طور پر یہ سالن ڈالنے کے کام آتی ہے، البتہ سیاسی جلسوں کی ضیافت میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی اور یار لوگ پراتوں اور سینیوں ہی سے کام چلا لیتے ہیں۔ یہ دھات کی بھی ہوتی ہے اور چینی کی بھی، حتی کہ تام چینی کی بھی۔ کھانے کے بعد اسے صاف کرنے کی مشقت بھی اٹھانا پڑتی ہے اور اسے اتنا صاف ہونا چاہیے کہ اس میں منہ نظر آئے جبکہ منہ کا قابل دید ہونا ضروری بھی نہیں ہوتا۔ ایک نیم پلیٹ بھی ہوتی ہے۔ اگر کم کھانا مطلوب ہو تو اس پر رکھ کر کھایا جاسکتا ہے، البتہ کھانے کے بعد اسے وہیں چسپاں کرنا ضروری ہے جہاں سے اکھاڑی گئی تھی۔ گاڑیوں کی پلیٹ صرف نمبر کے لیے ہوتی ہے۔ اکھاڑ کر کھانا اس پر رکھ کر کھا رہے ہوں تو آپ کا چالان بھی ہوسکتاہے۔
پیالہ
ایک شاعر کہتے ہیں کہ ما در پیالہ عکسِ رُخِ یاردیدہ ایم۔ لیکن اگر آپ خالی پیالے میں عکسِ رخِ یار ڈھونڈنے لگ جائیں تو آپ کو ناکامی ہوگی حتی کہ اس میں آپ کو اپنا عکس بھی نظر نہیں آئے گا۔ یہ کثیر الاستعمال برتن ہے، اس میں آپ کھانے والی چیز بھی ڈال سکتے ہیں اور پینے والی بھی۔ دہی کھانے کے لیے مثالی ہے بشرطیکہ آپ تن دہی سے کھائیں۔ یہ پیالی کا مذکر ہے لیکن ان میں اس طرح کے تعلقات نہیں پائے جاتے۔ بڑا پیالہ پہلوان حضرات کے دودھ پینے کے لیے ہوتا ہے لیکن ان کے پہلوان ہونے کا پیالے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سوکھے سڑے حضرات اس مشق سے پرہیز کریں کہ اتنے دودھ کو ہضم کرنا بھی ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔
پیالی
یہ عام طور پر چائے، کافی یا قہوہ پینے کے کام آتی ہے اور یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ اس میں پیالی کی رضامندی شامل نہیں ہوتی۔ اسے پکڑنے کے لیے ایک کنڈا بھی ہوتا ہے کیونکہ چائے گرم ہوتی ہے اور ہاتھ جل جانے کا اندیشہ بھی۔ لیکن پیالے کے ساتھ کوئی کنڈا نہی ہوتا؛ حالانکہ اس میں ڈالا ہوا دودھ بھی خاصاگرم ہوتا ہے۔ تاہم پیالی میں دقت یہ ہے کہ اگر اس میں بند ڈالا جائے تو ساری چائے بند ہی پی جاتا ہے اور خود پینے کے لیے ایک پیالی چائے دوبارہ منگوانی پڑتی ہے جبکہ بند بھی عام طور پر اکیلا نہیں بلکہ بند پلستر کی شکل میں ہوتا ہے۔
پرات
یہ عام طور پر آٹا گوندھنے کے کام آتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے اپنے کسی دوست سے بیوی کو رام کرنے کانسخہ پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کے حسن کی تعریف کر دیا کر و، یہی کافی ہے۔ شخص مذکور گھر گیا تو اس کی بیوی آٹا گوندھ رہی تھی۔ میاں بولے، بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ بیوی نے حیران ہو کر سر اوپر اٹھایا اور کہا، کیا کہا؟ میاں بولے، خدا قسم بالکل حُور لگ رہی ہو۔ اس پر بیوی نے رونا شروع کردیا۔ میاں نے پوچھا، روکیوں رہی ہو تو بیوی بولی، چھوٹی بیٹی میرا پرس بازار میں گم کر آئی ہے اور بڑی نے ڈنر سیٹ توڑ دیا ہے، اوپر سے آپ شراب پی کر آ گئے ہیں، روؤں نہ تو اور کیا کروں؟
ٹرے 
سینی اور ٹرے میں فرق یہ ہے کہ سینی گول موتی ہے اور ٹرے مستطیل۔ دونوں کے اوپر کھانا سجایا جاتا ہے؛ اگرچہ بھوکے کو اس سجاوٹ سے کوئی غرض نہیں ہوتی، اسے کھانا چاہیے اور جلد ہی، ورنہ نوبت طلاق تک پہنچ سکتی ہے۔ ٹرے میں عام طور سے، جیسا کہ اوپر درج کیا گیا ہے، سیاسی جسلوں میں کھانا تقسیم کیا جاتاہے، اگرچہ اس کے تقسیم ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی کیونکہ شروع سے ہی پلیٹوں کا کام ٹرے سے لیا جا چکا ہوتا ہے، حتّی کہ بعض جیالے دیگ کے اندر بیٹھ کر کھانے مین بھی کوئی ہرج نہیں سمجھتے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
کانٹا
اس کی ایجاد سے پہلے لوگ مثلًا کیکر کانٹا استعمال کیا کرتے تھے۔ تاہم جو کانٹا ایجاد ہوا ہے اس میں چار پانچ کانٹے لگے ہوتے ہیں اس لیے اس کے لیے جمع کا صیغہ استعمال کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ چھری بھی ضروری ہے لیکن چاقو سے کام نہیں چل سکتا؛ حالانکہ دونوں کا کام ایک ہی ہے۔ زیادہ تر خواتین و حضرات چھری کانٹا ساتھ رکھنے کے باوجود ہاتھ سے کھانا پسند کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کھانے سے لطف اندوز بھی ہونا ہوتا ہے۔ من مرضی کا میلہ اس کو کہتے ہیں۔
تھال
یہ سینی سے ذرا چھوٹا ہوتا ہے لیکن کام اتنا ہی کر جاتا ہے۔ بچوں میں بتاشے وغیرہ تقسیم کرنا ہوں تو اسی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں یا کسی کے گھر کوئی خوردنی چیز بھیجنی ہو تو اسی پر سجاکر بھیجی جاتی ہے۔ تھال خواتین کے ایک گانے کو بھی کہتے ہیں اور بعض اوقات ساتھ ساتھ اس سے ڈھولگ کا کام بھی لیا جاتاہے۔ قصہ مختصر یہ ایک درویش برتن ہے، اس میں آپ کوئی بھی چیز ڈال کر کہیں بھی بھیج سکتے ہیں۔ اس کا سائز مختلف ہو سکتا ہے لیکن اس کی گولائی مثالی ہے۔
لوٹا
یہ دو طرح کا ہوتا ہے، پیندے والا اور بے پیندے کا حالانکہ دونوں میں کائی خاص فرق نہیں ہے کیونکہ ایک سیاسی آدمی اگر اپنی پارٹی چھوڑ کر کسی دوسری پارٹی میں لڑھکنا چاہے تو پیندا بھی اسے نہیں روک سکتا۔ پہلے یہ مہمانوں کے ہاتھ دھلانے کے کام آیاکرتا تھا لیکن اب اس کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ مہمان گھر سے ہی ہاتھ اچھی طرح سے دھو کر آتے ہیں۔ اب یہ صرف طہارت کے لیے کام آتا ہے۔ مسجدوں میں ان کی بہار لگی ہوتی ہے۔ دھات کا لوٹا کسی خاص وجہ سے اب ممنوع ہے۔
بالٹی
اس کی ایجاد بالٹی مور میں ہوئی تھی اور پھر آہستہ آہستہ برصغیر میں بھی پہنچ گئی۔ بھینسیں اور گائیں دوہنے کے کام آتی ہے، حتی کہ آٓلہ ضرب کے طور پر بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ دودھ کے علاوہ پانی وغیرہ ڈالنا اس کی توہین ہے۔ اس کی ساری خوبصورتی اس کے ہینڈل میں ہے۔ بعض حضرات اس کے برتن ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ یوں تو بعض لوگ خدا کو بھی نہیں مانتے۔ نعوذ باللہ
آج کا مقطع
ظفر کے ساتھ جو کچھ کر دیا سو کر دیا تم نے
خبر بھی ہے تمہارے ساتھ کیا کچھ ہونے والا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں