جہاز ابھی رکنے بھی نہ پایا تھا کہ فرمایا، یار اگلے سال لندن چلو، گویا ہم نے ہندوستان کی سیر دیکھ لی، اب آگے چلو۔ سبھی مسافر نکل بھاگنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے، بعض سیانے بیٹھے رہے۔ میں نے چاہا تھا کہ بیٹھا رہوں مگر رئیس صاحب کی بے قراری نے بیٹھنے نہ دیا، جہاز سے دل ہی دل میں یہ کہتا ہوا اترا: ع
عاشقاں بدھیاں کمراںتے دلی ڈھائی کوہ
سیڑھیوں کے سامنے ہی بسیں ہماری منتظر کھڑی تھیں۔ پہلی بس کی طرف ہجوم نظرآیا۔ رئیس دوسری بس کی طرف لپکے۔ پیچھے پیچھے میں۔ لوگ بھی اسی پر ٹوٹے اور ہر ایک نے سب سے پہلے سوار ہونے کی کوشش کی، سبھی چپک کر رہ گئے۔ نہ آگے بڑھیں نہ پیچھے ہٹیں۔ کچھ اٹک اور کچھ لٹک کر رہ گئے۔ کراچی کے ریگل کا منظر نگاہوں میں گھوم گیا۔ گھس پیٹ کر سوار ہو ہی گئے۔ رئیس صاحب کے پہلو میں بیٹھا ہوا شخص جانے کون تھا، اُٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے بٹھا دیا۔ ہوائی اڈے کی عمارت کراچی سے ہر لحاظ سے کمتر تھی۔ ہمیں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ہمارے منتظر تھے۔ خصوصی اجازت لے کر اندر آ گئے تھے۔ ایک ذمہ دار افسر کے حوالے ہمارے کاغذات ہوئے اور سب لوگ تو کرسیوں پر براجے اور کنور صاحب سے باتوں میں مشغول ہوگئے۔ میں سامان برآمد کرنے والی گھومتی ہوئی سیڑھیوں پر جا کھڑا ہوا۔ بیسیوں صندوق بکھرے پڑے تھے، متعدد سیڑھیوں پر چکر کاٹ رہے تھے۔ میں سیڑھی سامان ڈھیلے سکھ سپاہیوں کی سیر دیکھتا رہا۔ عام چہرے بھی بے رونق، یہ میرا احساس تھا۔ خاصے انتظار کے بعد ہمارے صندوق بھی نکلے۔ میں نے اپنا اور رئیس صاحب کا صندوق اُٹھایا لیکن فوراً ایک ٹھیلہ فراہم ہوگیا۔ کراچی
والوں نے تو نہیں پوچھا، یہاں دلی والوں نے میرے کندھے پر جھولتے ہوئے کیمرے کو بھی درج بیاض کیا۔ کنور صاحب نے ہوائی اڈے کے نگران کا شکریہ ادا کیا۔ ہم اور ہمارا سامان کسی دیکھ بھال کے بغیر باہر آ گئے۔ منظر دھندلا نہ بھی ہوتا تب بھی جاذب نظر نہ تھا۔ رات کے اندھیرے پھیل رہے تھے۔ سڑکیں اور دالان اکھڑے ہوئے ادھڑے ہوئے تھے۔ امروہہ کے سادہ سادہ سے اور دلی کے مسلمانوں نے رئیس صاحب کو گھیر لیا۔ بیس پچیس حضرات کے خیر مقدمی ٹولے نے سب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ہاروں سے لاد دیا۔ ایک ہار عزیز وارثی نے میرے گلے میں بھی ڈالنا چاہا مگر میں نے یہ کہہ کر معذرت کردی، حضرت نہ میں شاعر نہ ادیب، رئیس صاحب ہی اس کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ کھٹاکھٹ کبھی اس رخ سے کبھی اس رخ سے تصویریں اتار دی گئیں۔ کنور صاحب اس قافلے کے سرخیل گونج دار آواز میں کھڑے ہدایات جاری کرتے رہے۔ ہمارا سامان دیگر امروہیوں کے سامان میں گڈمڈ ہونے سے بچ گیا۔ یہ لوگ غالباً محرم منانے جا رہے تھے۔ امروہہ۔ رئیس صاحب کے طفیل وہ بھی کاغذات اور سامان کی کھکھیڑسے محفوظ نکل آئے تھے۔ جانچ پڑتال کی کھکھیڑ۔ ایک بس جس میں ہم سب بآسانی سما گئے، سامان سمیت۔ بس چلنے کو تھی کہ ایک قلی نے آ کر نہایت ادب سے کنور صاحب سے کچھ کہا جس کے جواب میں ایک پانچ کا نوٹ دے کر ایک روپے کا اضافہ کر دیا اور بڑی شان استغنا کے ساتھ فرمایا، اب یہ تمہاری مرضی ہے، رسید کاٹو نہ کاٹو ہم نے تم کو دے دیئے۔ یہ کوئی ہوائی اڈے یا چنگی سے متعلق تھا آدمی۔ جونہی بس روانہ ہوئی جالی پر کالے رنگ کی پٹی باندھی بانداز ڈھاندہ، خوب رعب دار لگ رہے تھے۔ آواز اور لب و لہجے میں ایک کھنک سی ہے، قوی الجثہ خوب چاق چوبند ،خاصی عمر ہے لیکن یہ ایسے ویسے ساٹھے نہیں بالکل پاٹھا ہیں۔کرتہ اور چوڑی دار پاجامہ چمکدار سنہری جوتی۔ رات کی تاریکی پھیل چکی تھی۔ بجلی کے قمقموں کی چندھیائی ہوئی روشنی میں سڑکیں غنیمت اور فٹ پاتھ خستہ حال نظر آتے رہے۔ رہنمائی کے لیے جگہ جگہ انگریزی اور ہندی کارفرما تھے۔ پہلا اردو تختہ جو نظرآیا وہ تھا ''ڈلہوزی روڈ‘‘۔ چھکڑا بس تلک مارگ (روڈ) پر ساغر اپارٹمنٹ کی برساتی میں جاکر رکی اور ہم اڑن کھٹولے (لفٹ) میں ٹھنس کر چھٹی منزل پر چندن گیسٹ ہائوس میں آ براجے۔ کاروباری اداروں کے دفاتر کا کوئی مسئلہ نہیں۔ شاندار رہائشی عمارت مالکان عمارت نے چھٹی اور آٹھویں منزل کے آٹھ نو کمروں کو گیسٹ ہائوس بنا رکھا ہے۔ باقی حصے کرائے پر چڑھے ہوئے۔ کوئی کہہ رہا تھا دلیپ کمار فلموں والے بھی یہیں اترتے ہیں، اس لیے کہ ایک مالک اس دس گیارہ منزلہ عمارت کے وہ بھی ہیں۔
سفر کرنے کے، ہر ایک کے ،ہم سب جانتے ہیں کہ اپنے اپنے طور طریقے ہیں، مثلاً میں ہوں، موٹر نہ ہو تو بس میں قاعدے قرینے سے سوار ہونے کو جی چاہتا ہے۔ ہجوم عاشقاں میں گھس پڑنا اور گتھم گتھا ہو جانا مجھے نہیں آتا۔ قطار بنانے کا فن اپنے یہاں جانتے تو سب ہیں بناتے کبھی نہیں۔ لہٰذا ایک دو بسیں تو یونہی ہاتھ سے نکل جاتی ہیں، تیسری چوتھی بس میں سوار بھی ہو گئے تو اب کرسیوں پر لپک کے ٹانگ اڑا کے کسی کو لتاڑ بلکہ پچھاڑ کر قبضہ جمانا بھی ایک پہلوانی ہے۔ میں ایک نحیف الجثہ، زور آزمائی کون کرے۔ یہی حال ریل گاڑی میں ہوتا ہے، تین تین گھنٹے کھڑے کھڑے گزر گئے، پائوں پسارے نیم دراز مسافروں کو تکتے رہنا، کسی نے کونے کھدرے میں اٹک جانے کی دعوت دے دی توفبہا بصورت دیگر کبھی ایک کبھی دوسری ٹانگ پر بگلا بھگت بنے رہے۔ یہ تو ہمارے اچھو میاں ہیں، بس ہویا ریل، لڑجھگڑ کر، سوتوں کو جگا کردھرنا دے ہی بیٹھتے ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ ہمیں تو اپنے ہی زور بازو اور دست کرامت سے سفر کے جملہ چھوٹے بڑے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔ رئیس صاحب اور اس شان و شوکت کے بزرگوں کے لیے سینکڑوں کارکن عقیدت مند اوراحباب قدم قدم پر نکل آتے ہیں۔ شہرت کے پروں پر سفر سقر نہیں بننے پاتا۔ یہاں سے وہاں تک گھر کا سا آرام اور راحت یہ تو ان کا معاملہ تھا، اپنی حالت ظاہر ہے مختلف رہی ہوگی۔ رئیس صاحب کے اصرار کے پیش نظر طفیلی بن کر جانا ظاہر ہے باعث سعادت تھا، تاہم خدشات اور وساوس
سے بھی مفر نہ تھا، اس لیے میں نے بار بار کہا، حضور کنور صاحب کو لکھ دیجیے، میرے ساتھ میرا ایک ''دوست‘‘ بھی ہے، ایسا نہ ہو وہاں جا کر بلائے بے درماں سمجھا جائوں۔ میرا زور اس بات پر زیادہ رہا، اتنا زیادہ کہ رئیس جھلا کر رہ گئے، بھئی کہہ چکا ہوں، لکھ دیا ہے، کنور صاحب کے فرستادہ رعناسحری بھی جانتے ہیں۔ وہ ہمیں لینے کے لیے آئے ہوئے بھی تو ہیں۔ لیجئے وہ آ بھی گئے۔ ان سے ملیے سید انیس شاہ جیلانی، یہ ہیں رعنا سحری۔ یہ سب کچھ تھا لیکن میرے اندیشے باطل نہیں، صحیح نکلے، رئیس صاحب نے مجھے ہی نہیں ایک اور مرید عامر رضی الدین کو بھی ٹانک لیا تھا۔ وہ کہیں سعودی عرب میں کام کرتے ہیں۔ ہم یہ سمجھے اپنے طور پر ڈالروں سے لیس ہم سفر ہیں۔ رئیس صاحب نے ان سے بھی کہہ رکھا تھا، چلو میاں بیوی صاحب نے بلایا ہے، تامل کاہے کاہے، بس تیار ہو جائو، ویزہ ہم سے لو دومنٹ میں۔ دلی اتر کردیکھا تو وہ بھی حضرت کے پیچھے پیچھے۔ چونکہ اطلاع تو صرف دومہمانوں کی تھی، انتظامات کی شکل دیکھ کر عامر صاحب کے کان میںساغر اپارٹمنٹ کے صحن ہی میں بس سے اترتے ہی غالباً کیا، سچ مچ کہہ دیا رئیس صاحب نے۔ تم اپنا ٹھکانہ تلاش کرلو میاں، ایکا ایکی وہ غائب ہوگئے۔ دوسری صبح کو ملے تو میں نے چھوٹتے ہی کہا بھائی آپ کہاں غائب ہوگئے۔ بولے تم نے بھگایا۔ ان کو یہ شک تھا، میری علیحدگی کا باعث انیس کا اضافہ ہے...۔
آج کا مقطع
ہو کر رہے وہ صرف تمہارا ہی ‘ ظفر‘ کیوں
اب یہ بھی کوئی بات ہے ‘ کیا بات کرو ہو