"ZIC" (space) message & send to 7575

شعیب بن عزیز‘ منصور آفاق‘ حسین مجروح اور دیگران

چند روز پہلے شعیب بن عزیز اور منصور آفاق نے نزولِ اجلال فرمایا۔ فارم ہائوس کا راستہ چونکہ پیچدار ہے اس لیے انہوں نے عقلمندی کی کہ پوچھ لیا۔ میں نے بتایا کہ بیدیاں روڈ پر آپ کالٹیکس پٹرول پمپ پر پہنچ جائیں‘ وہاں سے میرا آدمی آپ کو لے آئے گا۔ سو‘ ایسا ہی ہوا۔ منصور آفاق نے اپنی وہ طویل مختصر نظم سنائی جو اس نے میری تعریف میں لکھی تھی۔ میں نظم سنتا اور شرمندہ ہوتا رہا۔ چونکہ محبت بھری اور ستائشی نظم تھی اس لیے وہ یہاں پیش نہیں کر سکتا۔ کوئی ہجو ہوتی تو اور بات تھی‘ جیسا کہ علی اکبر عباس نے ہجو لکھ کر بھیجی تھی جو میں نے اپنے کالم میں چھاپ دی تھی۔
جینوئن شاعر جب آتا ہے تو سب سے پہلے سابقون پر خطِ تنسیخ پھیرتا اور پھر آگے بڑھتا ہے۔ اگر وہ اُن کی مدح سرائی شروع کر دے تو پھر سمجھ لے کہ وہ فارغ ہے۔ میں نے جب شعر کہنا شروع کیا تو اس وقت غزل میں ناصر کاظمی تھا جس کا طوطی بول رہا تھا۔ میں نے اُسی کے ساتھ ایٹ کھڑکا شروع کر دیا کہ ؎
سبھی تسلیم ہے اے معُتقدِ میرؔ مجھے
اپنے بھی شعر کی دکھلا کبھی تاثیر مجھے
اور پھر چل سو چل۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں فلاں سے آگے نکل گیا یا فلاں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ شاعری میں ایسا ہوتا بھی نہیں۔ ہر کوئی اپنی بولتا ہے اور اُڑ جاتا ہے۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرا قبلہ درست تھا۔ سو‘ منصور آفاق بھی اگر واقعی کچھ کرنا چاہتا ہے تو پیار محبت اپنی جگہ‘ سب سے پہلے وہ اپنا قبلہ درست کرے۔ اگرچہ شاید اب دیر بھی ہو چکی ہو کیونکہ گُربہ کُشتن روزِ اوّل ۔
ابھی ان دونوں کی ملاقات کا نشہ باقی تھا کہ حسین مجروح اور عدنان خالد تشریف لے آئے۔ عدنان خالد شاعر ہیں لیکن اس وقت اُن کے نیوی گیٹر کے طور پر ساتھ آئے تھے کیونکہ حسین مجروح کو راستہ معلوم نہیں تھا۔ انہوں نے تازہ اشعار بھی سنائے اور میری فرمائش پر لکھ کر بھی دیئے۔ پہلے موصوف کے دو تازہ مطلعے: ؎
ہمیں تو مزرعۂ غم میں یہی سہولت تھی
قلم لگا دی جہاں بیج کی ضرورت تھی
کچھ اس لیے بھی تو خلقت کو آرزو نہ کیا
کہ ہم نے حوضِ شہی پر کبھی وضو نہ کیا
اور اب یہ پنجابی نظم :
ھیروا
فجرے نیتی اوہدے ناں دی
چار رکات نماز
سارا دینہہ نئیں ٹٹن دتا
وضو نہ اپنی نیت
سیس نوا کے کھلتی رئی
میرے ساہواں وچ پریت
رات دے جُھلّن تیکر میتھوں
اک رکات نہ مُکّی
میں سُکّی دی سُکّی
اور اب محمد عدنان خالد کے کچھ اشعار:
نہ شکل خاص مری اور نہ کام خاص مرا
بس اُن کے سامنے چلتا ہے التماس مرا
خدا کا شکر سیہ کاریاں چُھپیں مری
کفن بنائی گئی دُودھیا کپاس مرا
قریب بیٹھا بھی اس کو نظر نہیں آیا
بُجھے چراغ نے روکا ہے انعکاس مرا
کاش اُس سے کہہ دیا ہوتا کہ افسوس ہے
چُپ رہا‘ یہ جُرم تھا جس کی سزا افسوس ہے
شہر دل میں دو ہی لوگوں کو سکونت راس ہے
ایک تیرا ہجر ہے اور دوسرا افسوس ہے
ابھی ابھی ''فانوس‘‘ کا تازہ شمار موصول ہوا ہے جس میں نذیر قیصر اور سعود عثمانی کی شاعری پر ایک ایک مضمون اس کی خاص چیزیں ہیں۔ یہ لوگ غنیمت اس لیے ہیں کہ شعر کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ میں بھی شعر کی تلاش میں رہتا ہوں‘ یعنی ؎
میں بھاگتا پھرتا ہوں بے سُود تعاقب میں
یہ شعر کی تتلی ہے جو ہاتھ نہیں آتی
تبھی میں نے ایک انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میں نے ابھی تک اپنی پسند کا شعر نہیں کہا اور اب تو شاید اس کا امکان بھی نہیں ہے!
میں سمجھتا ہوں کہ نذیر قیصر‘ سعود عثمانی‘ آفتاب حسین‘ شاہین عباس‘ اکبر معصوم اور ذوالفقار عادل کی شاعری پر کام ہونا ابھی باقی ہے۔ کئی اور بھی ہیں جو اس وقت ذہن میں نہیں آئے۔ کل ہی ایک گُم شدہ شاعر خاور احمد کا فون آیا کہ میں لاہور آیا ہوا ہوں‘ ملنے کے لیے آنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ آج تو میں گھر پر موجود نہیں ہوں‘ پھر کبھی لاہور آنا ہو تو ملاقات ہو سکتی ہے۔ اس کا ایک شعر بھی یاد آیا ؎
تُو ایک بار جو دل کی زمین چُھو لیتی
میں اُس سے اگلا قدم آسمان پر رکھتا
موصوف کے والد سعید احمد بھی شاعر تھے اور متعدد مجموعوں کے خالق بھی۔ اُنہی دنوں کا ذکر ہے کہ مجھے ایک خاتون کا فون آیا کہ آپ خاور احمد کی بہت تعریف کرتے رہتے ہیں۔ وہ مجھے بہت تنگ کرتے ہیں‘ انہیں روکیے۔ میں نے کہا بی بی! اگر آپ واقعی اس قابل ہیں کہ آپ کو تنگ کیا جائے تو یہ اُن کا حق ہے‘ تاہم مجھے لگ رہا ہے کہ آپ شکایت کم کر رہی ہیں اور مزہ زیادہ لے رہی ہیں۔ اتفاق سے اس کے بعد میرا موصوف کے ساتھ رابطہ نہ رہا ورنہ میں انہیں روکتا ٹوکتا کہ شریف آدمی ایسا نہیں کیا کرتے اور اب مجھے ایک کھوئی ہوئی شاعرہ دوست شاہین مفتی کا یہ خوبصورت جملہ یاد آ رہا ہے کہ کوئی شاعر شریف نہیں ہوتا!
تری آواز مکّے اور مدینے
مُحبی ڈاکٹر اختر شمار کے پرچے ''بجنگ آمد‘‘ سے دو افسوسناک اطلاعات ملیں۔ ایک تو یہ کہ اس بار صدارتی ایوارڈز کے سلسلے میں نذیر قیصر نے بتایا ہے کہ ان کا نام بھی تھا لیکن وزیراعظم کے دفتر جانے والی فائل میں ان کا نام نہیں تھا اور یہ کہ وہ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے اور نام کٹوانے والی شخصیت کو بے نقاب کریں گے۔ اکادمی کو کم از کم اگلی بار ہی اس کی تلافی کر دینی چاہیے۔ اور دوسری یہ کہ محمد سلیم الرحمن نے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ افسوسناک اس لیے بھی ہے کہ یہ ایوارڈ تو انہیں پچیس تیس سال پہلے مل جانا چاہیے تھا۔ عباس تابش کو بھی یہ ایوارڈ دیر سے ملا ہے‘ میں نے ان سے ہمدردی کا اظہار کیا تو وہ خوش طبعی سے بولے‘ اب بھی بہت جلد مل گیا ہے۔
آج کا مطلع
عکس ہے دریا سے باہرآئنہ پانی میں ہے
دیکھنے والا کسی اپنی پریشانی میں ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں