...میں نے برملا کہا! آپ کو شاید یہ معلوم نہیں حضرت رئیس تفریحاً بھی جھوٹ بولا کرتے ہیں۔ اختر بولے یہ انکشاف آج ہوا۔ میں نے کہا یہ انکشاف نہیں واقعہ ہے۔ کنور صاحب منتظر صرف شعرائے کرام کے تھے دم چھلے تو رئیس بغیر لکھے اور پوچھے لگا لائے ہیں۔ کنور صاحب کیا کریں، ایک کمرے کا انتظام تھا تو۔ میرے قبضے میں ایک منا سا کمرہ ہے‘ اس میں آپ بھی سما سکتے ہیں۔ عامر نے کہا ایسی کیا بات ہے، میں اس وقت پونے دو سو روپے ادا کرکے یخ کمرے کا مزہ لے رہا ہوں۔ ہاں تو ہم نے پہلے چندن گیسٹ ہائوس کے کمرہ نمبر4 پر قبضہ جمایا۔ اس دوران میںکنور صاحب گیسٹ ہائوس کے ملازمین کو ہدایات دیتے رہے۔ اپنے ایک سو دو سالہ والد کی شدید علالت کا ذکر کے رخصت ہوتے ہوئے چونک کر یہ کہتے ہوئے پلٹے، لیکن پہلے میں کچھ انتظام تو کردوں آپ کے لیے اور وہ انتظام ایک بوتل وسکی کی شکل میں نمودار ہوا۔ چلتے چلتے میں نے مطبوعات حیرت شملوی اکادمی کا ایک پلندہ کنور صاحب کو تھما دیا تاکہ وہ مجھ سے بھی اجنبی نہ رہیں۔ میں کمرے میں آیا تو بوتل کھل چکی تھی۔ صندوق بھی ایستادہ تھے، لٹائے تک نہ گئے تھے۔ میں نے کہا ذرا تو صبر کیجئے، سامان تو چن لوں۔ فرمایا یہ ہوتا رہے گا‘ مجھے یہ ندیدہ پن ایک آنکھ نہ بھایا۔ پی چکے تو معلوم ہوا یہاں انڈے (آملیٹ) اور ڈبل روٹی (توس) کے علاوہ کچھ فراہم نہ ہوگا‘ اسی سے کام چلایا اور چلاتے رہے۔ یہ بھی ایک لطیفہ بن گیا‘ جب دیکھو آملیٹ۔ آملیٹ کا نام آیا اور رئیس صاحب کے ہنسی چھوٹی، مہمانوں میں اضافہ دیکھ کر ایک چھوٹے کمرے کا اضافہ کر گئے تھے میزبان۔ میں نے اسی کو ترجیح دی۔ پاکستانی ہونے کی رعایت سے گیسٹ ہائوس کے منیجر مہندر سنگھ بسٹ
(ہندو، سکھ نہیں) آ گئے اور گفتگو پاکستان ہندوستان پر چل نکلی۔ پاکستان کی آسودگی اور کارکردگی کی باتیں اس کے لیے نئی تھیں۔ کلکتے میں ایس پی کے فرائض انجام دینے والے ایک شخص کا بیٹا یہ منیجر تین سو روپلی تنخواہ۔ تین سو روپے میں کہتا تھا، آپ ہی بتائیے کیونکر گزارہ ہوتا ہوگا۔مہنگائی ہے، پڑھ بھی تو رہا ہوں۔ کانگریسی، ہندی آمیز اردو بولتا تھا اور اسی کو ہندی کہتا تھا۔ میں نے پوچھا میں کون سی زبان بول رہا ہوں، بولا، ہندی، بس یہی تو بھیا جھگڑا ہے ہمارا تمہارا۔ ہم اسے اردو کہتے ہیں تم ہندی، کرکٹ وہاں بھی ایک موضوع گفتگو ہے اور عمران خان پسندیدہ کرکٹر‘ عمران پسند بہت پائے جاتے ہیں‘ ہندوستان میں۔ شراب‘ منیجر نے بھی بتایا، دیکھ بھی رہا تھا، عام ہے، کھلی چھٹی کھلے بندوں پی جاتی ہے، بچہ بوڑھا سبھی نمٹا نمٹ پیتے ہیں۔ پاکستان کچھ بنا نہیں سکتا تم نے یہ کیسے جانا ہم تو بہت کچھ بنا رہے ہیں، تم نے یہاں پاکستانی مصنوعات کی نمائش تو دیکھی ہوگی۔ راہ چلتے ہماری دس لاکھ کی مرسیڈیز بگڑ جائے تو عام مستری اس کا مزاج کھڑے کھڑے درست کر دیتا ہے۔ بہت ذہین ہیں ہم لوگ۔ چونکہ ہم مالدار ہیں۔ ہمارا ملک امیر ہے۔ اس لیے باہر کی چیزیں خریدنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہماری اس خوش حالی کی خبر پر وہ حیرت زدہ ضرور ہوا۔ عام تاثر وہاں یہی ہے کہ ہم مانگے کے آ جانے سے کام زیادہ لیتے ہیں۔ پاکستان کی صنعتی ترقی کی باتیں سن کر متعجب ہوا۔ ہر ہندوستانی صرف وہ بسٹ ہی نہیں۔ بیرے کی تنخواہ ڈیڑھ سو روپے، اوپر کی آمدنی
نہیں۔کوئی بھلامانس آ گیا تو ہفتے بھر میں دو ڈیڑھ روپے وصول ہوگئے، باقی اللہ اللہ خیر سلا۔ پاکستانی محنت کش کس بلا کا ہے، خوب کماتا بھی ہے اور جی بھر کے لٹاتا بھی ہے یہ بات بھی اس کے لیے ناقابل یقین تھی‘ ہندیوں کا گمان ہے سب پاکستانی نکمے اور امریکہ کے ٹکڑوں اور خیرات پر پلنے والی قوم ہیں۔ میں نے آدھ پون گھنٹے میں اس کی یہ غلط فہمی دور کردی۔ امراء کو صلواتیں ہمارے یہاں کی طرح وہاں بھی پس پشت عام سنائی جاتی ہیں۔ ٹیلی فون کھڑکھڑایا تو منیجر نے میرا کمرہ خالی کیا۔ میں نے قلم اٹھایا ہی تھا کہ بسٹ دوبارہ آیا اور بتایا آپ کے ساتھیوں کے کمرے میں تو شور محشر چونک اٹھا ہے، مشاعرہ برپا ہے شاید۔ میں لٹا سلا کر آیا تھا۔ یہ کیا ہوا کون آیا۔ یہ رات گئے۔ چلو چل کے دیکھنا چاہیے۔ کیا دیکھتے ہیں۔ گلزار دہلوی زشتی لہک لہک کر شراب کی شان اور اردو کے مان میں رباعیات پڑھ نہیں، برسا رہے ہیں۔ رئیس صاحب اور اختر فیروز خوب پی کر سوئے تھے۔ جگائے گئے تو برا حال، بالکل ادھ موئے جھول رہے تھے، واہ واہ سبحان اللہ کا شور بھی مچاتے جاتے ہیں اور تینوں لپٹ چمٹ بھی رہے ہیں۔ بلکہ گلزار جو خود بھی چڑھائے ہوئے ہیں، لمبی زبان نکال کر جوش محبت میں مہمانوں کو ایک طرح سے چاٹ بھی رہے ہیں۔ بارے یہ طوفان ہائو ہوتھما اور گلزار اپنے حواریوں موالیوں کو لے کے رخصت ہوئے۔
گلزار دہلوی پنڈت تربھون لال زشتی شاگردِ حضرت سائل دہلوی کے بیٹے ہیں، اردو گھٹی میں پڑی ہوئی ہے، ہندو ہیں لیکن زبان پر آداب و تسلیمات، سبحان اللہ ، ماشاء اللہ چڑھے ہوئے ہیں۔ کوئی کہہ نہیں سکتا مسلمان نہ ہوں گے۔ لال قلعے کی زبان بولتے ہیں‘ لکھنے میں تو خیر گفتگو میں بھی مترادفات کے ڈھیر لگانے والے۔ یہی حال تقریر کا ہے۔ اپنا مدعا خوب کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور یہ باتیں وہی ہیں جن پر سج جاتی ہیں۔ گلزار صاحب ملگجے سے پتلون بشرٹ میں ملبوس تھے۔ چھوٹے قد کے طرحدار۔ کھلتا ہوا رنگ روپ، کسی زمانے میں یقینا روپہلی بھی رہا ہوگا اور غالب کی زبان میں چمپئی بھی، غلافی آنکھیں، چوڑی دار پاجامہ اور اچکن بھی زیب تن فرماتے ہیں۔ دلی کے روڑے یہی چندایک رہ گئے ہیں۔ رئیس صاحب کو کھانے پر تو نہیں، اب تو وہ گریٹر کیلاش میں رہتے ہیں، اپنے پرانے مکان بازار سیتارام میں ہمیں لے گئے اور دعوت شیراز و شراب کا اہتمام کیا۔ گھر کا وہ حصہ بھی دکھایا جو مغل طرز تعمیر کا نمونہ تھا۔ جہاں سائل، بیخود اور دیگر اساتذہ سخن ان کے ابا سے ملنے آتے تھے۔ مجلس آرائیاں ہوتی تھیں ۔ دلی کے چپے چپے سے آگاہ اور آشنا۔ غالب کے ٹھکانے تو اب ہم دور افتادگان شہر مہرومروت اور ایک دنیا جان گئی ہے‘ دلی میں کہاں کہاں ہیں۔ غالبیات اردوادب میں مستقل موضوع ہے۔ اس بڈھے کی کھال اس بری طرح سے ادھیڑی اور کھینچی گئی کہ شاید و باید۔ کفن تک پھاڑ پھوڑ دیئے گئے۔ تحقیق اور جستجو کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ سو برس سے چلے جاتا ہے۔ اس خاکستر سے ایک آدھ چنگاری کوئی خط، کوئی وثیقہ کوئی شعر کوئی قصیدہ کوئی ہجوادھرادھر نکل ہی آتی ہے۔ اور تو اور جہاں غالب کا گزر نہیں وہاں بھی کریدتے رہنا ایک مشغلہ ہے، یعنی ہم بھی شہیدغالب ہیں۔ میں نے اور کچھ نہ ملاتو غالب کی دشنام طرازیوں کا مجموعہ سجایا۔ ثقہ حضرات خصوصاً مولانا غلام رسول مہر نے بہت ناک بھوں چڑھائی۔ میں کیا کرتا۔ یہی میرے بس میں تھا جو میں نے کیا۔ ٹاٹ ہی کا سہی ماننا پڑے گا، پیوند تو تھا ہی...
دوخوش خبریاں...
یہ ہیں کہ حکومت نے ہمارے دو نہایت عزیز دوستوں، افتخار عارف کو ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغ اردو اور ڈاکٹر ناصر عباس نیئر کو ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ مقرر کر دیا ہے۔ دونوں حضرات کو دلی مبارکباد اور حکومت کا شکریہ کہ اسے کہتے ہیں رائٹ مین فار دی رائٹ جاب۔ میں نے بھی کچھ عرصے پہلے لکھا تھا کہ افتخار عارف کام کے آدمی ہیں، اب ان سے کام لینا چاہیے۔ عرفان صدیقی صاحب سے بھی گزارش کی تھی کہ وہ اس ضمن میں کچھ کریں۔ پچھلے دنوں وزیراعظم نے پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی بھی قدر افزائی کی ہے۔ اگر وہ اسی طرح کے اچھے کام کرتے رہے توبیشک باقی ماندہ مدت بھی پوری کرلیں، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
آج کامقطع
ظفر‘ کرنا پڑے گا اُس کو پہلی بار بھی قائل
نہ ہو پایا تو پھر بارِ دگر کچھ بھی نہیں ہو گا