دھر لیے گئے!
لاہور پولیس کی ایک اطلاع کے مطابق سابق ڈی ایس پی بابر جمیل کو گرفتار کر لیا ہے۔ آپ ہمارے شاعر دوست جمیل یوسف کے فرزندِ ارجمند ہیں اور والد بزرگوار کی طرح شراب و شباب کے رسیا۔ کسی جھاڑی پر پڑا سرخ کپڑا بھی دیکھ لیں تو اس کی طرف والہانہ لپکنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ پہلے بھی اس عہدے سے متعدد بار برخواست ہو کر منت سماجت سے بحال ہو چکے ہیں، لیکن اب نوکر ی سے مستقل طور پر باہر تھے کہ اپنے آئی جی کے ساتھ پنگا لے بیٹھے۔ تاہم فی الحال گاڑی پر غلط اور خلافِ قانون لائٹ لگا کر گھوم رہے تھے کہ دھر لیے گئے کہ شاید ابھی تک اپنے آپ کو ڈی ایس پی ہی سمجھ رہے تھے اور اس طرح والد صاحب کا نام روشن کیا، جسے والد ماجد پہلے ہی کافی روشن کر چکے تھے۔ دونوں ہمارا ہدیہ ہمدردی قبول فرمائیں اور دُعا گو ہیں کہ ڈپٹی صاحب کی گلو خلاصی اگر نہیں ہوئی تو ہو جائے۔
وزارت کا بوجھ؟
ہمارے مہربان دوست میاں عطا محمد خان مانیکا جو پنجاب حکومت میں وزیرِ مال ہیں، انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان حالات میں وزارت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا کہ ایک تو یکلخت اُن کے بعض ریونیو اختیارات سلب کر لیے گئے ہیں اور دوسرے ان کی اجازت اور علم کے بغیر اُن کے تحصیلدار کا تبادلہ کر دیا گیا جس کی متعلق افسران سے شکایت بھی کی گئی لیکن کسی نے ایک نہ سنی؛ حالانکہ صاحبِ موصوف کو معلوم ہونا چاہیے کہ شریف برادران کے وزراء تو برائے نام ہی ہیں کیونکہ اکثر اختیارات وہ اپنی مرضی کے مطابق خود استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں تو ان کے وزیر بنائے جانے پر بھی حیرت تھی کہ آپ جیسا اپ رائٹ وزیر یا بیوروکریٹ تو انہیں راس ہی نہیں ہے۔ سو، آپ نے اتنا عرصہ جو یہ بوجھ اُٹھایا ہے کچھ دن مزید اُٹھا لیں کہ جلد ہی ان کا اپنا بوجھ بھی اُترنے والا ہے ع
چند روز اور مری جان، فقط چند ہی روز
غلط بیانی؟
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ سانحۂ کوئٹہ رپورٹ سے ثابت ہو گیا ہے کہ وزیرِ داخلہ نے غلط بیانی کی۔ آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں، غلط بیانی تو وہ ہوتی ہے جسے غلط بیانی کرنے والا تسلیم بھی کرے اور اگر چوہدری نثار کہہ دیں کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا تو پھر آپ کیا کریں گے۔ اسی طرح وزیر اعظم کی غلط بیانیوں کا بھی عدالت میں بہت چرچا ہوا، لیکن جب جواب میں یہ کہہ دیا گیا کہ وہ تو سیاسی بیان تھے تو سب کے منہ بند ہو گئے اور ایسے بند ہوئے کہ ابھی تک نہیں کھُلے۔ اسی طرح منی لانڈرنگ اور روپے کی غیر قانونی ترسیل کو بھی سیاسی منی لانڈرنگ وغیرہ کہا جا سکتا ہے اور ٹیکس چوری بھی اگر سیاسی ٹیکس قرار دے دی گئی تو آپ اور سارے کے سارے دوسرے حضرات بھی لا جواب ہو جائیں گے۔ اور اگر یہ کہہ دیا جائے کہ پارٹی کی طرف سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی ایک سیاسی مطالبہ ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں تو آپ کیا کہیں گے، ہیں جی؟
مکالمہ، کتابی سلسلہ : 25
کراچی سے افسانہ نویس، شاعر اور نقاد مبین مرزا کی زیرِ ادارت چھپنے والے اس جریدے کا تازہ شمارہ شائع ہو گیا ہے۔ پہلی خوشی کی بات تو یہ ہے کہ اب یہ باقاعدگی سے چھپنے لگا ہے اور قارئین کو سال سال اور دو دو سال تک انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اگرچہ اس کی تلافی یوں بھی کی گئی کہ دوسال کے بعد دو ضخیم شمارے شائع کر دیے گئے جبکہ لوگ اس وقت تک بھول بھلا چکے ہونے تھے کہ پچھلی بار کیا کچھ پڑھا تھا۔ مرزا صاحب کا اعلان تو یہ تھا کہ اب یہ ہر ماہ شائع ہوا کرے گا لیکن اس کا تین چار ماہ کے بعد چھپنا بھی بسا غنیمت ہے۔
اس دفعہ شاعری کی جگہ صرف خاکسار کی حمدوں سے کام چلانے کی کوشش کی گئی ہے ع
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
حرفِ آغاز مدیر کا اپنا تحریر کردہ ہے جسے اداریہ بھی کہا جا سکتا ہے اگرچہ یہ کوئی رسمی اداریہ نہیں بلکہ بجائے خود ایک نیم تخلیقی تحریر ہے۔ حمد کے بعد سب سے پہلے پروفیسر فتح محمد ملک کا 'فیض کی حسرتِ تعمیر‘ کے عنوان سے پر مغز مضمون ہے جو سید مظہر جمیل کے مجموعۂ مضامین ''ذکرِ فیض‘‘ سے شروع ہوتا ہے اور جس کا اختتام اس جملے پر ہوتا ہے: فیض کے اندیشہ ہائے دور و دراز درست ثابت ہوئے، ملائیت کے ترجمانوں کے شوروغل سے ڈر کر حکومت نے اس کارِ خیر کو پسِ پشت ڈال دیا، اس پر فیض حسرت تعمیر اپنے دل میں لیے اسلام آباد کو خیرباد کہہ کر لاہور جا بیٹھے۔
باقر نقوی کا مضمون ادب کا نوبل انعام 2015ء کے حوالے سے ہے جبکہ نجیبہ عارف نے ''راگنی کی کھوج میں- 3‘‘ پر لکھا ہے جو مضمون کا مضمون ہے اور فکشن کی فکشن۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے ''معاصر نظم، نئی نو آبادیات اور روایت کی بازیافت- 2‘‘ پر مضمون باندھا ہے جو ان کی زیرِ تصنیف کتاب کا ایک باب ہے۔ اس میں انہوں نے اکیسویں صدی کی اُردو نظم اور نئی نو آبادیات کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔
اگلا مضمون سلمیٰ اعوان کا سفرنامہ عراق ہے جس میں انہوں نے بیسویں صدی کے ایک عظیم لکھاری، دلیر سیّاح، ایک منفرد کردار اور بہترین منتظم، جن سے وہ بغداد میں ملیں، کے ذکر خیر سے شروع ہوتا ہے۔
اگلا مضمون نبیلہ کیانی کا ہے جس کا عنوان ہے ''مجید امجد کا نسوانی سندرتا اور شکتی کا تصور‘‘۔ نبیلہ کیانی کا تعلق ساہیوال سے ہے جہاں ان کے والد ماجد پروفیسر عبدالقادر کیانی سے بھی شرفِ ملاقات حاصل رہا جبکہ مجید امجد بھی اُن دنوں وہیں رہائش پذیر تھے۔
اس کے بعد ایلس فیض کے نام فیض احمد فیض کے خطوط ہیں۔ پھر حسن سجاد کا مضمون بعنوان ''زندگی کا شاعر۔۔۔ مصطفی زیدی‘‘ ہے جبکہ معین الدین عقیل نے ''ادب، تاریخ اور تعلیمات کے ایک نابغہ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی‘‘ پر مضمون قلم بند کیا ہے۔ اس کے بعد خاکسار کی خود نوشت بعنوان ''درگزشت‘‘ کا چوتھا باب ہے جو وہاں قسط وار چھپ رہی ہے۔
آخر میں اسد محمد خاں کا مضمون بعنوان ''ٹکڑوں میں کہی گئی کہانی 2016ئ‘‘ کی تیسری قسط ہے جو مبین مرزا کے ایک افسانے ''یخ رات کا ایک ٹکڑا‘‘ کے حوالے سے ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ اس کی قیمت 250 روپے ہے۔
آج کا مطلع
اب کے اُس بزم میں کچھ اپنا پتا بھی دینا
پائوں پر پائوں جو رکھنا جو دبا بھی دینا