"ZIC" (space) message & send to 7575

گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی اور خاور احمد

کل کی شام خاصی ہنگامہ خیز رہی۔ جن دو نابغۂ روزگار ہستیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، ان کے موبائل نمبر کہیں اِدھراُدھر کر بیٹھا تھا۔ چنانچہ پروفیسر گوپی چند نارنگ کا نمبر ڈاکٹر ناصر عباس نیّر سے ملا اور (ڈاکٹر؟) شمس الرحمن فاروقی کا محمود الحسن سے۔ فاروقی صاحب کے بارے میں ایک اطلاع تھی کہ ان کی طبیعت خاصی ناساز ہے اور وہ دلی میں اپنی صاحبزادی کے پاس ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب وہ الٰہ آباد واپس آ چکے ہیں اور طبیعت بھی خاصی بہتر ہے۔ میں نے کہا کہ ''اب تک‘‘ کی جلد پنجم میں نے صبا اکرام صاحب کو آپ کے لیے بھجوا دی تھی، امید ہے مل گئی ہوگی۔ کہنے لگے میں آپ کو فون کرنے ہی والا تھا کہ کتاب مل گئی ہے اور میں نے اس کے دو ''دیوان‘‘ (کتابیں) پڑھ بھی لیے ہیں۔ پھر میری شاعری کی تعریف میں چند کلمات ادا کیے۔
نارنگ صاحب کو کتاب تاحال نہیں ملی تھی لیکن کہا کہ آپ کے کالم نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔ آپ نے خوب رونق لگا رکھی ہے اور ساتھ ہی میری موجودہ شاعری اور ہمعصروں کے حوالے سے جو کچھ کہا، وہ یہاں لکھا نہیں جاسکتا۔ صبا اکرام کے پاس ان کا ایڈریس نہ ہونے کی وجہ سے کتاب ان تک نہیں پہنچی تھی، جو میں نے مہیا کردیا۔ امید ہے ان کی معرفت کتاب ڈاکٹر شمیم حنفی اور قاضی افضال حسین تک بھی پہنچ جائے گی۔
میں ان دونوں حضرات کو کتاب کے ساتھ کوئی شعر بھی لکھ کر بھیجا کرتا ہوں، اپنے دستخط کے ساتھ، لیکن کتابیں میں نے کراچی میں اپنے ناشر سے کہہ کر ان کے سپرد کروائی تھیں، اس لیے یہ کام نہ ہوسکا۔ شمس الرحمن فاروقی کے لیے شعر ہوتا ؎
بنامِ شاہدِ نازک خیالاں
عزیزِ خاطرِ آشفتہ حالاں
جبکہ نارنگ صاحب کے لیے یہ شعر ؎ 
زغارتِ چمنت بر بہار منت ہاست
کہ گُل بدستِ تو از شاخ تازہ تر ماند
سو، یہ دونوں حضرات اپنی اپنی کتاب پر اپنے اپنے حصے کا شعر درج کرسکتے ہیں کیونکہ موجودہ صورت حال میں یہی کچھ ممکن ہے نیز ؎
بہ آن گروہِ کہ از بادۂ وفا مستند
سلامِ ما برسانید ہر کُجا ہستند
ان کے ساتھ گفتگو کی سرشاری ابھی تک باقی تھی کہ جدید لب و لہجے کے شاعر خاور احمد ملنے کے لیے چلے آئے۔ آپ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے حال ہی میں ریٹائر ہوئے ہیں اور آج کل اپنے آبائی گائوں بھارہ کہو میں رہائش پذیر ہیں۔ چار عدد شعری مجموعے سرشاری، رقصِ وصال، ابرِ لب ریز اور منظر میرے دریچے سے شائع ہو چکے ہیں جو عمدہ پیپر بیک میں چھپے ہیں۔ ناشر وطنیار ہے اور کسی پر قیمت درج نہیں۔
ان کے تازہ اشعار دیکھیے: 
میں کنارے سے جو پانی میں چلا آیا ہوں
اپنے اشکوں کی روانی میں چلا آیا ہوں
جس میں اجداد کو جنت سے نکالا گیا تھا
میں اسی نقل مکانی میں چلا آیا ہوں
میں ترے شہر طلسمات میں کیسے آتا
بس تری جادُو بیانی میں چلا آیا ہوں
مجھ کو اک مرکزی کردار ادا کرنا ہے
اس لیے تیری کہانی میں چلا آیا ہوں
یارِ دیرینہ چلا آیا ہے ملنے خاور
اور میں عہدِ جوانی میں چلا آیا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جگنو، یہ چراغ اور یہ ستارے استعارے ہیں
شبِ تاریک میں بھی کتنے سارے استعارے ہیں
کبھی ڈُوبے نہیں جو عشق میں وہ خاک سمجھیں گے
کہ آخر کیوں سمندر اور کنارے استعارے ہیں
بس اک انداز ہے محفل میں دل کی بات کہنے کا
وگرنہ اور کیا ہیں استعارے، استعارے ہیں
بجز یک حرف سادہ کچھ نہیں ہے عرضِ خاور میں
تمہارے پاس تو رمزیں، اشارے، استعارے ہیں
اور آخر میں بطور خانہ پری یہ تازہ غزل:
تم بات کرو ہو نہ ملاقات کرو ہو
کیوں اتنے پریشاں مرے حالات کرو ہو
بتلائو، کس استاد سے سیکھی ہے یہ شطرنج
تم چال بھی چلتے نہیں اور مات کرو ہو
وہ ایک دن آئیں گے تمہارے ہی مقابل
تم جن پہ شب و روز عنایات کرو ہو
بس ایک طرف کا ہے یہ خوش رنگ نظارا
کیا دوسری جانب بھی کبھی جھات کرو ہو
دیکھو گے کل ان کی بھی بہت کارگزاری
تم جن کے سپرد آج یہ باغات کرو ہو
اس کام سے بھی منع کیے رکھتے ہو سب کو
جو سامنے سب کے یہاں دن رات کرو ہو
وہ لطف و کرم جس کو ترستے ہی رہیں سب
کرنے پہ جو آ جائو تو بہتات کرو ہو
اس شہر میں ہم امن سے رہتے ہیں، مگر تم
جب بھی یہاں آتے ہو، فسادات کرو ہو
ہو کر رہے وہ صرف تمہارا ہی، ظفر،ؔ کیوں
اب یہ بھی کوئی بات ہے، کیا بات کرو ہو
آج کامقطع
اتنے لوگوں میں اُسے ڈھونڈ ہی لیتے یوں بھی
کیا ضروری تھا‘ ظفر‘ اُس کو صدا بھی دینا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں