"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن‘ وضاحت کی وضاحت اور ٹوٹا

اُمید ہے کہ قوم نئے سال کو بہترین بنائے گی۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے، ''اُمید ہے کہ قوم نئے سال کو بہترین بنائے گی‘‘ کیونکہ ہم تو ماشاء اللہ اپنے گزشتہ سارے سالوں کو بہترین بنا چکے ہیں اس لیے قوم کو بھی چاہیے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی نہ رہے اور کچھ کام بھی کر کے دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ ''دُعا ہے کہ نیا سال پاکستان کے لیے خوشیاں اور خوشحالی لائے‘‘ اگرچہ ہماری دُعائیں بھی خاصی مشکوک ہو گئی ہیں جو نئے چیف جسٹس نے حلف اٹھاتے ہی پاناما لیکس کی سماعت کے لیے نیا بنچ تشکیل دے دیا ہے کہ آخر اتنی جلدی کی کیا ضرورت ہے کیونکہ محاورہ بھی یہی ہے سہج پکے سو میٹھا ہو اور میں نے دیکھا ہے کہ کچھ عرصے سے ہم محاوروں کی بے دریغ خلاف ورزی کر رہے ہیں‘ آخر ہمارا کیا بنے گا‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئے ہیں‘‘ اس لیے ضروری ہے کہ بے چارے بچے کُھچے دہشت گردوں اور ان کے معصوم سہولت کاروں کو مزید پریشان نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہا، ''اُمید ہے کہ اس سال پاکستان میں نئے دور کا آغاز ہو گا‘‘ تاہم آثار کچھ اچھے نظر نہیں آ رہے ہیں اور لوگوں کا رویّہ یہ ہے کہ کاتا اور لے دوڑی‘ یعنی جس محاورے کو نظر انداز کرنا تھا‘ اُلٹا اُسی پر عمل ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ سال پاکستان کی تاریخ کا نیا باب ہو گا‘‘ اور دُعا ہے کہ خدا عدلیہ کو بھی نیک ہدایت دے۔ انہوں نے کہا کہ ''نیا سال ہمارے لیے نئی روح اور قومی تجربے کے ساتھ خوشخبری لائے گا‘‘ اور اگر یہ خوشخبری میرے لیے نہ ہوئی تو مخالفین کے لیے ضرور ہو گی، البتہ نئی روح کے حوالے سے فکر مندی ہے کیونکہ یہ بدرُوح بھی ہو سکتی 
ہے؛ اگرچہ ہم روحانی طور پر کافی مضبوط ہیں البتہ جسمانی طور پر طرح طرح کے وسوسے اور خطرات لاحق نظر آتے ہیں کیونکہ کچھ نجومیوں کے مطابق ہمارا ستارہ گردش میں ہے؛ حالانکہ اسے یہ آوارہ گردی چھوڑ کر ایک جگہ پر ٹِک کر شریف آدمیوں کی طرح بیٹھ جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''میری حکومت بے لوث طریقے سے اپنے منصوبوں اور عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے‘‘ جبکہ زیادہ زور بے لوث ہونے پر ہے اور یہ زور ہم بار بار دے رہے ہیں لیکن کوئی تسلیم ہی نہیں کرتا؛ حالانکہ جو دانہ دُنکا اکٹھا کر رہے ہیں بے لوث انداز میں ہی کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز نئے سال پر اپنا پیغام جاری کر رہے تھے۔
''2013ء کا الیکشن تسلیم نہیں کرتے‘
دل پر پتھر رکھ کر مانا‘‘۔ زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''2013ء کا الیکشن تسلیم نہیں کرتے دل پر پتھر رکھ کر مانا‘‘ اور یہ میثاقِ جمہوریت ہی کا پتھر ہے جو کم بخت ابھی تک دل پر پڑا ہُوا ہے نیز یہ کہ نواز شریف کو باری بھی دینی تھی‘ اس لیے تسلیم کر لیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب وہ مجھے باری دینے کے مُوڈ میں نہیں ہیں؛ حالانکہ انہوں نے اگلے روز زور دے کر کہا ہے کہ میں میثاق جمہوریت پر قائم ہوں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے ایسا اس لیے کہا تھا کہ کہیں میں عمران خاں کی تحریک میں شامل نہ ہو 
جائوں حالانکہ وہ کم بخت مجھے گھاس ہی نہیں ڈالتا اور اس نے آج پھر بیان دیا ہے کہ جس پارٹی کے قائدین پر کرپشن کے الزامات ہیں ان کے ساتھ اتحاد نہیں ہو سکتا جبکہ انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ میں مردِ حُر بھی ہوں اور ٹین پرسنٹ سے لے کر سینٹ پر سینٹ تک ترقی بھی کر چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''ووٹوں کی مدد سے اقتدار میں آئیں گے‘ لوگ نوٹوں کی مدد سے آتے ہیں‘‘ اور چار پیسے جو اتنی محنت سے کمائے ہیں وہ الیکشن کی نذر نہیں کیے جا سکتے جبکہ ووٹوں کی تلاش پوری شدت سے جاری ہے اور جویندہ یابندہ کے مصداق ہمیں مل بھی جائیں گے‘ کم از کم سابق وزرائے اعظم اور وٹو صاحب نے مجھے یہی بتایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بینظیر بھٹو کو کھو کر پاکستان سمیت دُنیا کو بھی نقصان ہوا ہے‘‘ ماسوائے میرے‘ کیونکہ اگر وہ شہید نہ ہوتیں تو میرا تو اقتدار میں آنے کا دُور دُور تک کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ بی بی نے تو مجھے کافی عرصے سے گرائونڈ ہی کر رکھا تھا اور کبھی ملنے کی بھی روادار نہیں تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم جمہوریت کے لیے آگے بڑھے ہیں‘‘ کیونکہ جس طرح کی جمہوریت ہمارے ہاں رائج ہے میاں صاحب سمیت ہمیں وہی راس ہے اور دونوں طرف ساری ریل پیل اسی کے طفیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے خود کو منوایا ہے‘‘۔ لیکن جب ہمیں اقتدار ملا تو ہم نے خود کو منوانا شروع کیا اور منوا کر چھوڑا جبکہ اس دفعہ کارکن اپنے آپ کو منوائیں گے جن کی تلاشِ گُمشدہ کا اشتہار بھی دے رہے ہیں کہ اگر وہ واپس آ جائیں تو اُنہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ آپ اگلے روز نواب شاہ میں پارٹی کے ایم پی اے چوہدری طارق مسعود ارائیں کی جانب سے دیے گئے عشائیے سے خطاب کر رہے تھے۔
وضاحت کی وضاحت
اکادمی ادبیات کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو نے میرے ایک بیان کی درستی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکادمی کے بجٹ پر کبھی کٹ نہیں لگایا گیا اور ہم ضرورت مند ادیبوں کی مدد حسبِ سابق جاری رکھے ہوئے ہیں، بلکہ اب کے ہمیں 50 ملین کی گرانٹ بھی ملی ہے۔ چند روز پہلے بھی اُن کا فون آیا تھا‘ میری خیرت دریافت کر رہے تھے اور جلد ہی منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی خصوصی دعوت بھی کہ اس میں ایک سیشن میرے ساتھ بھی رکھا جا رہا ہے۔ میں نے کہا کہ میں پہلے سے بہتر ہوں لیکن اتنا بھی نہیں کہ کانفرنس میں شامل ہو سکوں۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ میں دوچار روز بعد پھر فون کر کے معلوم کروں گا کہ اگر آپ آ سکتے ہوں تو ہم ہر طرح سے آپ کے آرام و آسائش کا خیال رکھیں گے۔ چنانچہ میں نے پھر معذرت کر دی کہ میں ابھی سفر کرنے کے پوری طرح قابل نہیں ہوں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ میں جلد ہی لاہور آئوں گا تو آپ سے ملاقات ہو گی۔
لینے کے دینے
ہمارے دوست مخدوم ہاشمی نے عمران خاں کے خلاف بیان تو بڑے طمطراق سے دیا تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ موصوف کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے کیونکہ ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق آرمی جنرل طارق حیات خاں نے اپنے خلاف الزامات کی نہ صرف تردید کی ہے بلکہ اس الزام کی انکوائری کا بھی مطالبہ کیا ہے، جس میں مخدوم صاحب نے کہا تھا کہ فوج کے مایوس عناصر ہر قیمت پر جنرل راحیل شریف کو عمران خاں کے ذریعے ناکام بنانا اور پارلیمنٹ کو تباہ کرنا چاہتے تھے۔ اپنے اوپر الزامات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جاوید ہاشمی نام کے ایک سیاستدان نے مجھ پر فوج میں بغاوت کی سازش کرنے کا الزام لگایا ہے جب میں فوج میں تھا۔ موصوف پہلے بھی اس طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں لیکن میں نے انہیں بچگانہ اور انہیں دماغی طور پر معذور سمجھتے ہوئے نظر انداز کیا جبکہ ان کا بڑھاپا ایک الگ عنصر ہے، لیکن میں تو ایک طرف رہا‘ انہوں نے پورے ادارے کو ملوث کرتے ہوئے اس کی لیڈر شپ کی وقعت کو گھٹانے کی کوشش کی ہے جو اُن کے اپنے توہمات کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص جو مہران سکینڈل میں ملوث رہا اور بغاوت کے جرم میں قید بھی رہا‘ ایسے بیانات کا عادی بھی ہے۔
آج کا مقطع
جنگل میں مور ناچ رہا ہے ابھی‘ ظفر
جلدی سے کوئی دیکھنے والا کہیں سے لائو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں