بارش نہیں ہوئی۔ جاڑا غائب ہے۔ لاہور کے گرد و نواح میں کہیں کہیں رم جھم ہوئی ضروری ہے، لیکن ہمارے سُوکھے دھانوں پانی نہیں پڑا۔ ہوا چلتی ہے تو تھوڑا سردی کا احساس ہوتا ہے۔ کئی روز تک تو دُھند نے ہی ڈیرے ڈالے رکھے‘ سورج کی شکل کوئی دس گیارہ بجے کے بعد دکھائی دیتی۔ پرندوں کا یہ ہے کہ صبح سب سے پہلے ممولے کی رونمائی ہوتی ہے۔ مینہ ہو‘ آندھی ہو یا دُھند‘ یہ شیر کا بچہ ناغہ نہیں کرتا۔ اس کا سائز تو جڑیا جتنا ہی ہے لیکن یہ پھدکتا نہیں‘ چلتا بلکہ دوڑتا بھی ہے، لیکن یہ دو یا تین سے زیادہ نہیں ہوتے۔ اس کے بعد دو چار نسواری چڑیاں‘ کوّا اور لالیاں۔ پرندوں میں موروں کا اضافہ ہوا ہے۔ کل چار ہیں‘ یعنی ایک مور اور تین مورنیاں۔ مور کی عیّاشی کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ ان کے لیے نفیس جالی کا مورخانہ علیحدہ تیار کروایا گیا ہے جسے شام پڑتے ہی قنات نما کپڑے سے ڈھک دیا جاتا ہے تاکہ سردی سے محفوظ رہیں۔ ان کے علاوہ دس مرغ ہیں اور آٹھ تیتر۔ یہ سب دوستوں کی طرف سے آفتاب کو تحفے میں دیے گئے ہیں۔ شہد‘ دیسی انڈے اور دیسی گھی ان پر مستزاد۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ آج کل موصوف کا گزارہ دوستوں کے تحفوں ہی پر ہے۔ اس
سے یاد آیا کہ ایک صاحب کو پڑوسی ملک کے سرحدی شہر میں جانا تھا۔ گاڑی ان کی ورکشاپ میں تھی۔ انہوں نے اپنے ایک دوست کو فون کیا اور ایک دن کے لیے گاڑی مانگی۔ دوست نے گاڑی کے ساتھ کچھ سامان بھی بھیج دیا کہ اسی شہر میں ان کے ایک دوست تک پہنچانا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس کا فون آیا کہ میری اہلیہ کی ایک سہیلی بھی وہیں رہتی ہے۔ اُسے بھی ساتھ لیتے جائیں، وہ اس سے مل لے گی۔ موصوف سرحد پر پہنچے، چیکنگ شروع ہوئی تو ان سے پوچھا گیا‘ ''آپ کی گاڑی ؟‘‘ تو انہوں نے کہا‘ ''نہیں‘ میرے دوست کی ہے‘‘۔ پھر سوال ہُوا‘
''آپ کا سامان؟‘‘ تو موصوف نے کہا‘ ''نہیں‘ میرے دوست کا ہے‘‘ جواب ملا۔
پھر پوچھا گیا، آپ کی بیوی؟جواب ملا‘ ''میرے دوست کی ہے‘‘۔اس پر وہ اہلکار بولا، ''کمال کے دوست ہیں آپ کے بھی!‘‘
پھلوں کا یہ ہے کہ موسمی‘ مالٹا اور کینو تقریباً ختم ہیں۔ چکوترہ البتہ ہماری دستبرد سے بچا ہوا ہے۔ لیموں کی فصل بھی زوروں پر ہے۔ آفتاب کے بیوی بچے بھی کچھ دنوں سے یہاں آئے ہوئے ہیں اور خوب رونق لگی رہتی ہے۔ آفتاب نے اگلے روز برنچ پر کچھ دوستوں اور عزیزوں کو مدعو کر رکھا تھا، جن میں سید علی رضا صوبائی وزیر اور پولیس آفیسر انیس وینس نمایاں تھے اور ان سب کے دوست سعید قادر بھی۔ مسز آفتاب نے بھی اپنی کولیگز اور دوستوں کو بلا رکھا تھا جن میں شاعرہ ادیبہ اور کالم نگار بشریٰ اعجاز شامل تھیں۔ ان کے علاوہ اویس‘ جنید اور ننھیال سے نعمان‘ وقاص اور منصور اویس اور جنید شام تک بیٹھے رہے‘ بہت مزہ آیا۔
اگلے روز سابق بیورو کریٹ اور یار دیرینہ آفتاب احمد شاہ کا فون آیا جو دونوں دفعہ کٹ گیا۔ شکستہ جملوں سے فقط یہ معلوم ہوا کہ آنا چاہتے ہیں۔ لگتا ہے حسب معمول عالم بالا سے بول رہے تھے۔ ان کی غزلوں کا مجموعہ 'فردِ جرم‘ کے نام سے چھپ چکا ہے جس کا دیباچہ اس خاکسار نے لکھا تھا۔ اردو سائنس بورڈ میں چارج لینا تھا تو یہ اور آفتاب ساتھ لے گئے تھے۔
ناصر بشیر کا بھی فون آیا کہ میرے ایک دیرینہ مداح ڈاکٹر فرحت عباس آپ سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں، کیا آج ملاقات ہو سکتی ہے؟ میں نے بوجوہ معذرت کر دی۔ نیٹ پر آصف اسحاق کا پلندری سے یہ خوبصورت شعر موصول ہوا، آپ بھی سُنیے ؎
اب دکھائی نہیں دیتا ہے کہاں رکھا تھا
لوٹ آنے کے لیے ایک نشاں رکھا تھا
مطلب یہ کہ عمدہ شعر کہیں بھی اور کسی پر بھی اُتر سکتا ہے۔ امید ہے موصوف اپنے کچھ اور اشعار بھی بھیجیں گے۔
اور اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل:
فراغت ہو چکی تھی مُبتلا ہونے سے پہلے ہی
علیحدہ ہو لیے تھے ہم جُدا ہونے سے پہلے ہی
کئی دن سے تو جیسے طور ہی کچھ اور تھے اُس کے
خبر تھی مجھ کو اُس کے بے وفا ہونے سے پہلے ہی
اگر سمجھو تو اک یہ بھی قیامت کی نشانی ہے
جو محشر رُک گیا دل میں بپا ہونے سے پہلے ہی
زمانہ جس کے گُن گانے لگا ہے اب کہیں جا کر
مجھے اچھا لگا تھا خوش نُما ہونے سے پہلے ہی
کسی کی رُونمائی ہونے والی تھی وہاں‘ لیکن
میں اُٹھ کر آ گیا تھا جمگھٹا ہونے سے پہلے ہی
بہت ابرِ کرم کی آمد آمد ہے مگر شاید
یہ سبزہ سُوکھ جائے گا ہرا ہونے سے پہلے ہی
مرا بکھرائو کوئی آج کا قصہ نہیں ہرگز
کہ میں تو مُنتشر تھا جا بہ جا ہونے سے پہلے ہی
ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے سب چل دیے اُٹھ کر
کہانی میں ہمارا تذکرہ ہونے سے پہلے ہی
ظفرؔ‘ کچھ شور میں نے اور بھی کرنا تھا‘ جانے کیوں
یہ چُپ سی لگ گئی ہے بے صدا ہونے سے پہلے ہی
آج کا مطلع
اتنا مجبور ہے دل اُس کو بتانا ہی پڑا
اپنی اوقات پہ آخر مجھے آنا ہی پڑا