"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں، متن اور ٹوٹا

ماضی میں مُلک کی ترقی کی بجائے 
مسائل کھڑے کیے گئے... نواز شریف
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ماضی میں مُلک کی ترقی کی بجائے مسائل کھڑے کیے گئے‘‘ چنانچہ ہم اُنہیں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ مستقل کھڑا رہنے سے تو سخت تھکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، نیز ماضی میں بھی زیادہ تر ہماری ہی حکومت رہی ہے، اس لیے اس کارِ خیر میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''موجودہ حکومت نے معیشت بہتر کی‘‘ جس کے لیے روزانہ ایک ارب چالیس کروڑ کے نوٹ چھاپے جا رہے ہیں، جس سے مشینیں بھی گھِس گئی ہیں اور نئی پرنٹنگ مشینوں کا آرڈر دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''خسارہ کم ہوا ہے اور شرح نمو بڑھی ہے‘‘ اگرچہ ایکسپورٹ میں سراسر کمی آ رہی ہے اور مہنگائی روز افزوں ہے، لوگ غربت کے ہاتھوں خودکشیاں کر رہے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ خود کشی حرام ہے اور سب سے افسوناک بات یہ ہے کہ معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز ہی اُٹھ گئی ہے، ہیں جی؟ آپ اگلے روز ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
سرکاری ہسپتالوں میں وسائل ہیں
کمی دردِ دل کی ہے... شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہسپتالوں میں وسائل نہیں‘ کمی دردِ دل کی ہے‘‘ کیونکہ وسائل تو ہم مہیا کر سکتے ہیں، دردِ دل کہاں سے لائیں، جس سے خود ہمارا ہاتھ بے حد تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی کمی ہسپتالوں میں بھی پائی جاتی ہے‘ ورنہ ہسپتالوں میں بستروں اور ادویات کی کمی کوئی خاص بات نہیں ہے اور اگر دردِ دل ہو تو اس کے باوجود کام چلایا جا سکتا ہے اور جہاں تک ہمارا معاملہ ہے تو ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ دردِ دل، دل کے درد کو ہی کہتے ہیں جس سے ہارٹ اٹیک کا خطرہ سر پر سوار رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''صحت کے شعبے کو خوب سے خوب تر بنائیں گے‘‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ لوگوں کو ہسپتال سے باہر ہی مرنے کی عادت پڑتی جا رہی ہے یعنی پہلے ایک خاتون ہسپتال میں فرش پر پڑی اللہ کو پیاری ہو گئی اور اب ایک اکیس سالہ نوجوان کی اطلاع آئی ہے جسے ہسپتال میں گھسنے نہ دیا گیا اور باہر ہی اس کا کام تمام ہو گیا۔ آپ اگلے روز لاہور میں صدر ممنون حسین سے ملاقات کر رہے تھے۔ 
سب مل کر مُلک کو بینظیر بھٹو کا 
پاکستان بنائیں گے... بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''سب مل کر مُلک کو بینظیر بھٹو کا پاکستان بنائیں گے‘‘ بس ذرا سب کے ملنے کی دیر ہے کیونکہ میاں نواز شریف مُلک کو قائداعظم کا پاکستان بناہی چکے ہیں اس لیے بینظیر بھٹو کا پاکستان جلد از جلد بن جانا چاہیے، جس کے لیے والد صاحب کی مساعیٔ جمیلہ ہی کافی ہیں جو اُن کی شہادت کے بعد سے ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کارکن اپنا اتحاد برقرار رکھیں‘‘ بس ذرا کارکنوں کا سراغ لگانے کی دیر ہے جو تبدیلیٔ آب وہوا کی خاطر دوسری جماعتوں میں جا گھُسے ہیں۔ حالانکہ کئی بار اعلان کیا جا چکا ہے کہ وہ واپس آ جائیں، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''پارٹی آئندہ انتخاب جیت کر بینظیر بھٹو کے مشن کی تکمیل کرے گی‘‘ البتہ پچھلے دورِ اقتدار میں زرداری، یوسف رضا گیلانی، رحمن ملک اور دیگر زعما کے مشن کی تکمیل کی جاتی رہی اور اس میں مکمل طور پر کامیاب بھی ہوئی۔ آپ اگلے روز سرگودھا ڈویژن سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی کی ہر بات ٹھیک ہو گی
بس کرپشن کی بات نہ کریں... چوہدری نثار
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان نے کہا ہے کہ ''پیپلزپارٹی کی ہر بات ٹھیک ہو گی، بس کرپشن کی بات نہ کریں۔ کیونکہ یہی ہماری دُکھتی رگ ہے جسے ہر کوئی چھیڑنے پر تلا ہؤا ہے، حالانکہ اس جماعت کو خوب اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اس کے اکثر زعما کی فائلیں میرے پاس ہیں جو میں نے محض قومی مفاد کی خاطر دبائی ہوئی ہیں اور جب کبھی انہیں کھولنے کا ارادہ کرتا ہوں تو وزیراعظم مجھے میثاقِ جمہوریت یاد دلا دیتے ہیں، اس لیے ان سے التماس ہے کہ وہ جس احتجاجی لانگ مارچ کا ارادہ کر رہے ہیں، اُن کے حق میں بہتر یہی ہے کہ اس سے باز رہیں اور اس طرح عمران خان کے ہاتھ مضبوط نہ کریں بلکہ ہمارے ہاتھوں کی طرف توجہ دیں جو آج کل کسی عجیب کمزوری کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اہم معاملات پر اپوزیشن نے پوائنٹ سکورنگ کی انتہا کر دی ہے‘‘ حالانکہ سیاسی جماعتوں کا کام پوائنٹ سکورنگ نہیں ہوتا بلکہ حکومت کے ساتھ تعاون کرنا ہوتا ہے کیونکہ حکومت بھی بندہ بشر ہے اور غلطیاں کرتی رہتی ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں واقع اپنے چیمبرمیں صحافیوں کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔
کالعدم تنظیموں کو انتخابات سے روکنا 
حکومت کا کام نہیں ہے... رانا ثناء اللہ
صوبائی وزیرِ قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''کالعدم تنظیموں کو انتخابی سرگرمیوں سے روکنا حکومت کا کام نہیں‘‘ کیونکہ حکومت اتنی بے فیض اور احسان فراموش نہیں ہو سکتی کہ اپنے ہی محسنوں پر اس طرح کی پابندیاں لگانا شروع کر دے۔ اس کے علاوہ حکومت جس کام میں مصروف ہے اُسے کسی اور چیز پر دھیان دینے کی فرصت ہی کہاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ دوسرے اداروں کی ذمہ داری ہے‘‘ اگرچہ یہ دوسرے ادارے بھی سراسر حکومت ہی کے ماتحت ہیں۔ اس لیے وہ حکومتی پالیسی کے خلاف کیونکر جا سکتے ہیں اور جو ادارہ ذرا چوں چاں کرتا ہے، اس کامکوّ اچھی طرح سے ٹھپ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جو عناصر نواز شریف کو سیاسی میدان میں شکست نہیں دے سکے وہ حکومت کو ختم کرنے کے لیے اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘ مثلاً وہ اپنی ساری اُمیدیں سپریم کورٹ سے لگائے بیٹھے ہیں بلکہ ہماری تمام اُمیدیں بھی اسی ادارے سے وابستہ ہیں اور صورتحال خاصی نازک نظر آتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ناقص حکمت عملی؟
شروع سے ہی دیکھا جا رہا ہے کہ حکومت نے جو بھی اور جس کے خلاف بھی آپریشن کرنا ہوتا ہے، اس کا پیشگی اعلان کر دیتی ہے بلکہ تاریخ بھی بتا دیتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن عناصر کے خلاف اس نے ایکشن لینا ہوتا ہے، اُن کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ آپریشن سے پہلے ہی اپنے بچاؤ کے لیے ضروری اقدامات کر لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپریشن کرنے والوں کو خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوتی اور ہونی بھی نہیں چاہیے کیونکہ انہیں پیشگی خبردار کر دیا جاتا ہے اور وہ ہر طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے بچ نکلتے ہیں۔ کیونکہ آپریشن یا چھاپے کا مقصد تو یہ ہے کہ یہ کام اچانک کیا جائے تا کہ مطلوبہ عناصر کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملے۔ لیکن یہاں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے اور قبل از وقت ہی کارروائیوں کا اعلان کر دیا جاتا ہے، میرے خیال میں اس سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہو سکتی اور یہ اُنہی حماقتوں میں شامل ہے جو یہ لوگ اکثر و بیشتر روا رکھتے ہیں!
آج کا مقطع
اتنا بے رنگ تھا ہنگامۂ ہستی کہ ظفر
چار و ناچار اُسے ڈھونڈ کے لانا ہی پڑا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں