نئے پاکستان کے دعوے داروں نے
کچھ بھی نہیں کیا... نواز شریف
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''نئے پاکستان کے دعوے داروں نے کچھ بھی نہیں کیا‘‘ ماسوائے اس کے کہ کرپشن کا شور مچا مچا کر ملک میں خواہ مخواہ ایک اضطراب پیدا کر دیا، ورنہ اُن سے کوئی پوچھے کہ کرپشن کے بغیر بھی کوئی حکومت چلائی جا سکتی ہے اور مستقبل کے لیے نان و نفقہ اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور ہم دیکھیں گے کہ جب اُن کی حکومت آئی تو وہ کرپشن کے بغیر کیسے کام چلاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''الزام لگانے سے پہلے ہمیں گریبان میں جھانکنا چاہیے‘‘ لیکن ہم اس لیے نہیں جھانکتے کہ سارا گریبان ہی ایسی الابلا سے بھرا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا ''کہیں تو اپنے منصوبوں پر ان کے نام کی تختی لگا دیتے ہیں‘‘ لیکن چونکہ یہ منصوبے بیچ میں ہی رہ جاتے ہیں، اس لیے اس تختی کا انہیں کیا فائدہ ہو گا، آدمی کو ہر کام فائدے کے لیے کرنا چاہیے اور یہی تجارت کا اصول بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاست میں نئے لوگ آ گئے جو روز جھوٹ بولتے ہیں‘‘ حالانکہ ہماری مساعی جمیلہ کے ہوتے ہوئے مزید کسی جھوٹ کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ترقی میں رکاوٹیں ڈالنے والے سُن لیں، ہم رُکنے والے نہیں‘‘ کیونکہ ہمیں دھکا ہی اس زور سے دیا گیا ہے کہ اگر چاہیں بھی تو نہیں رُک سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ''مسلمانوں کا نہیں، ہر پاکستانی کا وزیراعظم ہوں‘‘ کیونکہ سب کے سب ہماری جان کو رو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''تعلیمی اداروں کا معیار بہتر بنائیں گے‘‘ کیونکہ جو کام پونے چار سال میں نہیں کر سکے، باقی ماندہ سوا سال میں تو انہیں خود ہی ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''کیچڑ اُچھالا جاتا ہے‘‘ چنانچہ
ہم کیچڑ پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہیں کہ نہ نو من تیل ہو گا نہ مخالفوں کی رادھا ناچے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''بُہتان تراشی کرنے والے اللہ سے معافی مانگیں‘‘ اگرچہ ہمیں تو اپنے کارناموں سے معافی ملتی نظر نہیں آتی حالانکہ ہم تو کئی بار اپنے وکیل بھی تبدیل کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''سابقہ ادوار میں سولہ سولہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی‘‘ لیکن ہماری لوڈشیڈنگ غیر اعلانیہ ہوتی ہے تاکہ لوگ گھنٹوں وغیرہ کے چکر میں نہ پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میں صدیق الفاروق صاحب کا شکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے یہاں آنے کی دعوت دی‘‘ اگرچہ دیگر کئی معاملات پر میں ہر وقت ان کا مشکور رہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا والے کہیں سے پندرہ منٹ کی لوڈشیڈنگ نکال کے بھی پگڑیاں اُچھالنا شروع کر دیتے ہیں‘‘ اس لیے ہم نے پگڑی پہننے کا تکلف ہی چھوڑ دیا ہے اور ٹوپی بھی نہیں پہنتے کیونکہ یہ حامد کی ٹوپی محمود کے سر پر بھی لگا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اِن رپورٹوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے‘‘ بلکہ میری تقاریر پر ہر وقت دھیان دینا چاہیے۔ جہاں میں ایک تقریر میں کچھ کہتا ہوں تو دوسری میں اس کے اُلٹ، کہ اس طرح ذرا ویرائٹی بھی رہتی ہے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''بلوچستان میں سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے‘‘ کیونکہ ہم ملک کے باقی مسائل حل کر چکے ہیں، نیز سڑکوں والے کام میں ویسے بھی بڑی برکت ہوتی ہے جبکہ موٹروے تو برکت ہی برکت ہے۔ آپ اگلے روز کٹاس میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اشرافیہ نے معاشی قتل کیا، موجودہ صورتحال
تک پہنچنے کے سب ذمہ دار ہیں... شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ ''اشرافیہ نے معاشی قتل کیا، موجودہ صورتحال تک پہنچنے کے سب ذمہ دار ہیں‘‘ ماسوائے ہمارے، کیونکہ ہم تو غریب اور مسکین لوگ ہیں، ہمارا اشرافیہ سے کیا تعلق، ہمیں تو زکوٰۃ بھی لگتی ہے اور جہاں تک معاشی قتل کا تعلق ہے تو ہم نے کبھی جوں تک نہیں ماری، معاشی قتل کیسے کر سکتے ہیں، اسی لیے جوؤں کی بھرمار ہے اور ہمیں سرکھجانے کا بھی وقت نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ ''وسائل کی لوٹ مار سے انتہا پسندی بڑھی‘‘ اور حکمران ہونے کے باوجود ہمیں پتا نہیں چل سکا کہ یہ لوٹ مار کس نے کی ہے اور اگر پتا چل جاتا تو اُس سے پوچھتے کہ ہمارا حصہ کہاں ہے؟ انہوں نے کہا کہ ''اعلیٰ تعلیم کا حصول پاکستان کے ہر بچے کا حق ہے‘‘ لیکن غریب غرباء کے بچے ہوتے ہی نالائق ہیں، اس لیے وہ یہ حق استعمال کرنے سے معذور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعظم نواز شریف کی قیادت میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے‘‘ جس کا اندازہ روز افزوں مہنگائی اور غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیوں سے لگایا جا سکتا ہے جن میں روز بروز مزید ترقی ہو رہی، جبکہ چوریوں اور ڈکیتیوں کا تو ماشاء اللہ کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ وقت دور نہیں جب ملک سے اندھیرے چھٹ جائیں گے‘‘ بس ذرا پاناما لیکس کے فیصلے کی دیر ہے جس سے ایک نیا سورج طلوع ہو گا اور یہ سارے اندھیرے دور ہو جائیں گے، جنہیں ہم بھی دور سے دیکھا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''آج دنیا کے ایئرپورٹس پر سبز پاسپورٹ کی توتیر نہیں کی جاتی‘‘ اور ہم اس کی پوری ذمہ داری قبول کرتے ہوئے، صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پنجاب ایجوکیشنل اینڈ ڈویلپمنٹ فنڈ کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
39 ملکی اتحاد کی سربراہی، سعودی عرب یا
جنرل راحیل، کسی نے رابطہ نہیں کیا... خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ''39 ملکی اتحاد کی سربراہی کے لیے ، سعودی عرب یا جنرل راحیل،کسی نے رابطہ نہیں کیا‘‘ حالانکہ میں نے تو بیان دے دیا تھا کہ حکومت کی رضا مندی سے جنرل صاحب یہ عہدہ سنبھال سکتے ہیں اور بعد میں اس لیے مُکرنا پڑا کہ وہ تو ایک سیاسی بیان تھا جیسے بیانات ہمارے وزیراعظم صاحب دیا کرتے ہیں اور اس بیان کا اصل مقصد یہ بھی تھا کہ موصوف کچھ زیادہ ہی مقبولیت حاصل کر گئے تھے، انہیں ذرا نارمل کیا جائے جبکہ آدمی متنازعہ ہونے سے خاصی شہرت بھی حاصل کر جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جب انہیں آفر ہو گی تو پراسیس سے گزریں گے‘‘ اوّل تو خاکسار کے پہلے بیان اور پھر اس سے مُکرنے کے بعد انہوں نے یہ ارادہ ہی چھوڑ دیا ہو گا اور اُمید ہے کہ وہ واپس آ کر ریٹائرمنٹ کی نارمل زندگی گزارنے پر ہی اکتفا کریں گے کیونکہ ان کی غیر معمولی مقبولیت پہلے ہی ہمارے لیے کافی پریشان کن ثابت ہو رہی تھی، جبکہ میرے بیانات پر وزیراعظم صاحب بھی بہت خوش ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
بیچارے جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی
نواز لیگ نے 2009ء کے الیکشن کے بعد جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی کو اس وقت صدارتی اُمیدوار نامزد کیا جب وہ خود اقلیت میں تھی اور انہیں یقین تھا کہ جج صاحب ہار جائیں گے۔ اس زیادتی کی تلافی اس حکومت نے اس طرح کی 2014ء کے الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے بعد انہوں نے ایک غیر اہم اور غیر سیاسی شخصیت کو اپنا اُمیدوار نامزد کیا جو بڑی آسانی سے کامیاب بھی ہو گئے۔ ایک اور تلافی حکومت نے اس طرح کی کہ جسٹس صاحب جب بیماری اور لاغری کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے، انہیں گورنر سندھ بنا دیا جس کا حلف اُٹھاتے ہی انہیں ہسپتال لے جانا پڑا۔ وہ دو ماہ تک اس ''منصب‘‘ پر فائز رہے لیکن ایپکس کے علاوہ انہوں نے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی، کسی کاغذ پر دستخط نہیں کیے اور کوئی حکم نامہ جاری نہ کیا۔ ان کی حالت یہ تھی کہ گورنر ہاؤس میں ہی ان کے لیے ایک آئی سی یو قائم کر دیا گیا تھا، جہاں ڈاکٹرز دن رات اُن کی دیکھ بھال کرتے۔
آج کا مطلع
شمار ہونا ہے یا بے شمار ہونا ہے
یہی ہمارا نہ ہونا ہزار ہونا ہے