سکرین مافیا
آپ نے یہ رپورٹ تو پڑھ ہی لی ہو گی جس کے مطابق سکرین مافیا نے پھل بھی مُضرِ صحت بنا دیے۔ دکاندار گندے ٹیکوں سے پھلوں میں سکرین ملاتے اور شرطیہ میٹھے کہہ کر مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ طبیّ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے پٹھوں میں درد‘ معدے کی خرابی اور یادداشت پر اثر پڑتا ہے۔ خیر‘ یہ تو ایک نئی اختراع ہے‘ کھانے پینے والی تقریباً ہر چیز میں ملاوٹ کا دور دورہ ہے اور بازار سے دودھ‘ چائے کی پتی اور پسی ہوئی سرخ مرچ سے لے کر پینے کے پانی تک میں ملاوٹ ہے۔ صرف ہوا ہے جو اس سے بچی ہوئی ہے، شاید اس لیے کہ اس پر ملاوٹ کرنے والوں کا اختیار نہیں ہے۔ حکومت نے رسمی طور پر فوڈ اتھارٹی وغیرہ بھی بنا رکھی ہیں، لیکن دوسرے محکموں کی طرح ان کا حال بھی ابتر ہے اور حکومت زبردستی کی اس زہر خورانی پر ذرّہ بھر بھی فکر مند نہیں ہے کیونکہ حکومت بھی ایک سکرین مافیا سے کم نہیں ہے جو اپنے جھوٹے دعوئوں میں سکرین ملا کر انہیں میٹھا کرتی ہے اور پھر عوام کی خدمت میں پیش کر دیتی ہے!
بد نصیب بسیں
میٹرو بس ایک ایسا سفید ہاتھی ہے جس کے اسرار و رموز عوام پر آہستہ آہستہ ہی کھلیں گے۔ اس کے لیے جو قرضہ لیا گیا تھا اس کے سود کی رقم ہی ہوش اُڑا دینے والی ہے جبکہ اس فیّاضی کے نتائج بہت جلد ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق میٹرو بس کے ساتھ نئے فیڈر روٹس چلانے کا منصوبہ التوا کا شکار ہے۔ صوبائی حکومت کی توجہ صرف میٹرو ٹرین پر مرکوز ہے اور عوام کی سہولت کے لیے منگوائی گئی200 بسیں ڈپو میں کھڑی کر دی گئی ہیں جو خدشہ ہے کہ وہاں کھڑے کھڑے ہی کھٹارہ ہو جائیں گی اور اربوں روپے کے یہ نقصانات زنجیر کی محض ایک کڑی ہے جو حکومت کے سامنے آئے دن ہوتا رہتا ہے اور ملک کو خوفناک طور پر قرضہ زدہ کر دینے والی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی‘ اس لیے کہ حکومت کو پُوچھنے والا کوئی ہے ہی نہیں کیونکہ احتساب کے جو نام نہاد ادارے تھے وہ اس کے کنٹرول میں ہیں اور انہیں مکمل طور پر غیر فعال کر دیا گیا ہے۔ گلیاں سُنجی ہو گئی ہیں جن میں مرزا یار اٹکھیلیاں کرتا پھر رہا ہے۔ عدلیہ اس صورت حال پر شور و غل مچاتی رہتی ہے لیکن کسی پر کوئی اثر نہیں۔
دوا نہ دُعا
پی ٹی آئی کے وائٹ پیپر کے مطابق لاہور میں 2100 افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر ہے جبکہ ہسپتالوں میں 100میں سے صرف 2 افراد کو مفت دوا ملتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں داخلہ ملنا بجائے خود ایک مسئلہ ہے۔ ایک مریضہ کو ہسپتال سے داخلے کی بجائے دھکے ملتے ہیں اور وہ اس شدید سردی کے موسم میں ہسپتال کے لان میں ہی بچے کو جنم دیتی ہے۔ دوسرا تازہ واقعہ ایک نوجوان کی موت کا ہے جو ہسپتال کے باہر تڑپ تڑپ کر جان دے دیتا ہے جبکہ حکومت کی ترجیحات نہ صحت ہے نہ تعلیم اور نہ ہی عوام کے دیگر مسائل‘ اس لئے کہ وہ میٹرو بسوں اور موٹر ویز بنانے میں لگی ہوئی ہے جو یافت کے بڑے ذرائع ہیں اور عوام کے لیے صرف وعدے ہیں اور لچھے دار تقریریں۔ اور لطف یہ ہے کہ عوام کا ہر مسئلہ حکومت کے لیے ترجیح اوّل کی حیثیت رکھتا ہے اور بار بار اس کا اعلان بھی کیا جاتا ہے‘ اس کے باوجود کہ عوام اس کی حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اور اب چونکہ انتخابات کی آمد ہے اس لیے ان وعدوں اور تقریریوں میں زیادہ زور و شور پیدا ہو گیا ہے۔
پٹرول‘ ڈیزل مہنگا
مرے کو مارے شاہ مدار۔ حکومت نے ایک بار پھر پٹرول اور ڈیزل مہنگے کر دیے ہیں اور صرف یہ پٹرول اور ڈیزل ہی مہنگے نہیں ہوئے بلکہ اس کا اثر دوسری ہر چیز پر بھی پڑے گا اور مہنگائی کی ایک اور لہر سر اُٹھائے گی جبکہ دکانداروں کو بھی نرخ بڑھانے کے لیے ایک بہانہ ہی درکار ہوتا ہے اور اب یہ تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ حکومت جو اربوں روپے کے نوٹ روزانہ چھاپ رہی ہے اور پے در پے قرضے حاصل کر رہی ہے وہ عوام پر خرچ ہونے کی بجائے حکمرانوں ہی کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ حکومت کبھی سٹاک ایکسچینج کے چڑھائو کی خوشخبری سناتی ہے اور کبھی تیز رفتار ترقی کا‘ اپوزیشن اور خصوصاً عمران خان جس میں روڑے اٹکا رہے ہیں جبکہ صرف جہالت اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سچی بات ہے‘ حکومت والوں نے کبھی نون تیل خریدا ہو تو انہیں احساس ہو کہ کس بھائو بک رہی ہے اور عوام پر کیا گزر رہی ہے۔ آج آدھا ملک ان پڑھ ہے اور آدھا خطِ غربت کے بھی نیچے کیڑے مکوڑوں کی زندگی گزار رہا ہے اور حکومتی دعوے ہیں کہ کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔
دورہ شریف
وزیر اعظم ڈیوس(سوئٹزر لینڈ) کے سفر پر روانہ ہو گئے ہیں جہاں دیگر مصروفیات کے علاوہ وہ وہاں کے سرمایہ دار طبقہ سے خصوصی ملاقات کریں گے اور انہیں بتائیں گے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں کیونکہ وہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ برطانیہ تشریف لے جائیں گے اور جائزہ لیں گے کہ وہاں پر واقع ان فلیٹس کے حوالے سے انہیں دفاع کے طور پر کیا کچھ مل سکتا ہے اور بی بی سی سے یہ یہ گلہ بھی کہ آپ نے تازہ رپورٹ شائع کر کے کچھ اچھا نہیں کیا کیونکہ اس سے پاکستان کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے ماہر وکلاء سے مشورہ بھی لیں گے کہ وہ پاناما لیکس کی دلدل سے کیسے نکل سکتے ہیں اور اگر وہ بی بی سی کے ریکارڈ میں کوئی مین میخ نکال سکتے ہوں تو بتائیں۔ اس کے علاوہ وہ وہاں اپنا طبّی معائنہ بھی کرائیں گے۔ اس کے علاوہ کچھ خُفیہ ملاقاتیں بھی ہوں گی جن کے بارے میں سردست کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔
حکومت مخالفت تحریک
پیپلز پارٹی نے حکومت کے خلاف 19مارچ سے تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ گمانِ اغلب یہ ہے کہ اس سے پہلے نواز زرداری ملاقات بھی ہو گی جس میں اس مارچ کے حدود و قیود متعین کیے جائیں گے تاکہ تحریک بھی چلے اور میثاقِ جمہوریت پر بھی کوئی اثر نہ پڑے‘ یا اسے فی الحال کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔ شیخ رشید احمد نے تو کہا ہے کہ اگلا الیکشن نون لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر لڑیں گے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ معاملات پر وہ افہام و تفہیم کے بعد اس تحریک کو انتخابی ریلیوں میں تبدیل کر لے اور کرپشن کے علاوہ دیگر معاملات سپریم کورٹ اور اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دے کیونکہ کرپشن کے خلاف تحریک چلانا پیپلز پارٹی کو ویسے بھی زیب نہیں دیتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی موج مستیوں کے لیے سندھ کو ہی کافی سمجھتے ہوئے پنجاب والوں کو زحمت دینے کی ضرورت ہی نہ سمجھے کیونکہ جو کچھ اس نے اب تک سندھ میں کر دکھایا ہے‘ پنجاب میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، جہاں شریفین ''شیر کا حصہ‘‘ پہلے ہی تناول فرمانے میں مصروف ہیں۔ اُسے چادر سے زیادہ پائوں پھیلانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
قطری شہزادے پر حملہ
خبر ہے کہ موسیٰ خیل میں قطری شہزادے کے قافلے پر فائرنگ ہوئی ہے جس سے ڈی پی او اور دو اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔ تفصیل کے مطابق مسلح افراد قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کر کے فرار ہو گئے‘ قطری شہزادہ محفوظ رہا۔ اس سے پہلے کسانوں نے بھی قطری شہزاداروں کے شکار پر احتجاج کیا تھا کہ ان کے شکار اور یلغار سے ان کی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ اگر اس فائرنگ سے ڈی پی او زخمی ہو سکتا ہے تو قطری شہزادے کو بھی پورا پورا خطرہ لاحق تھا۔ احتجاج کے بعد اب جو یہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے تو شہزادگان کی چشم کشائی کے لیے کافی ہونا چاہیے اور انہیں خود ہی سوچنا چاہیے کہ وہ کس قدر خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ نیز حکومت کو بھی چاہیے کہ انہیں سمجھائیں کہ ملک میں امن و امان کی جو صورتِ حال ہے‘ اس کے پیش نظر اس معاملے پر غور کرنا چاہیے‘ پیشتر اس کے کوئی بڑا وقوعہ ہو جائے اور قطر کے ساتھ تعلقات پر برا اثر پڑے۔
آج کا مطلع
اگر منہ نہ موڑو ہماری طرف
تو دیکھیں گے ہم کیا تمہاری طرف