"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ‘ متن ’‘ ٹوٹا اور ریکارڈ کی درستی

قوم دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے
خاتمے کا پختہ عزم کر چکی ہے...شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''قوم دہشت گردوں اورسہولت کاروں کے خاتمے کا پختہ عزم کر چکی ہے‘‘ اور امید ہے کہ ہم بھی ضروری کاموں سے فارغ ہو کریہ عزم کرلیں گے لیکن یہ پختہ نہیں ہوگا کیونکہ پختہ کافی منحوس لفظ ہے، اول تو جب پوری قوم یہ عزم کر چکی ہے تو ہمارے کسی عزم وغیرہ کی کیا ضرورت ہے کہ یہ مٹھی بھر لوگ پوری قوم کے آگے کیوںکرٹھہر سکتے ہیں۔ نیز ہمیں تو یہ دہشت گرد اور سہولت کار اتنے بُرے لگتے ہیں کہ ہم ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کو بھی تیار نہیں ، ان کا خاتمہ تو بہت دور کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام کی تکلیف میری تکلیف ہے‘‘ اس لیے عوام کو اس کی کوئی فکر کرنے یا علاج کرنے کے بجائے کانوں میں تیل ڈال کرسو جانا چاہیے، میں ان کی تکلیف خود برداشت کرتا رہوں گا۔ انہوں نے ہدائت کی کہ ''جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی بلاامتیاز جاری رکھی جائے‘‘۔ اگرچہ ڈاکوئوں وغیرہ میں کوئی کمی نہیں آ رہی مگر زندہ قوموں میں ڈکیتیاں ہوتی ہی رہتی ہیں، اس لیے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ آپ اگلے روز لاہورمیں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
کرپشن کے خلاف بہت کچھ 
کرنے کی ضرورت ہے...چیئرمین نیب
چیئرمین نیب قمرزمان نے کہا ہے کہ ''کرپشن کے خلاف بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ خاکسار اس کے خلاف پہلے ہی بہت کچھ کر رہا ہے کیونکہ حکومت خود کرپشن کے بہت خلاف ہے اور ہر وقت تاکید کرتی رہتی ہے کہ جو فہرست اس نے بنا کر دے رکھی ہے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ کلرکوں، پٹواریوں، چپڑاسیوں اور نائب قاصدوں نے کرپشن کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کا قلع قمع ہونا بے حد ضروری ہے جبکہ بڑے افسر حکومت ہی کی طرح کافی ایماندار واقع ہوئے ہیں جبکہ بڑے افسر کرپشن کے حکومت سے بھی زیادہ خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپشن سے قانون کی حکمرانی دائو پر لگ جاتی ہے‘‘ اور وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ملک میں قانون جیسی کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے، ورنہ بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے تھے۔
غلط کام کرنے والے کی بلاول اینٹ 
سے اینٹ بجا دیں گے...مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''غلط کام کرنے والے کی بلاول اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘ کیونکہ یہ ہنر انہیں ورثے میں ملا ہے جبکہ زرداری صاحب خود اس میں کافی مہارت رکھتے ہیں جنہوں نے جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی لیکن بدقسمتی اور جرنیلوں کی خوش قسمتی سے انہیں موقعہ پر ٹوٹی اینٹ بھی دستیاب نہ ہوئی۔ اس لیے بلاول کو مشورہ یہ ہے کہ وہ پہلے اینٹوں کا کچھ انتظام کرلیں اور ایسا نہ ہو کہ انہیں بجانے کے لیے کوئی اینٹ ہی نہ ملے، بلکہ انہیں اپنی گاڑی میں بھی اینٹوں کا ذخیرہ رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ رائو انوار کی معطلی سے پتہ چلا کہ افسروں کو سزا بھی ہوسکتی ہے، اگرچہ وفاق کے دبائو پر ہمیں یہی کرنا پڑا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے رخصت پر گئے ہیں؛ چنانچہ رخصت سے واپس آتے ہی انہوں نے ہمیں پوچھے بغیر چارج بھی سنبھال لیا۔ انہوں نے کہا کہ ''بانی متحدہ کی پارٹی اگر آئینی حدود میں رہے تو جلسہ کرسکتی ہے‘‘ اگرچہ دیگر معاملات میں آئینی تقاضے ہرگز پورے نہیں کیے جا رہے لیکن کم از کم متحدہ والوں کو تو قانون کا کچھ پاس کرنا چاہیے کیونکہ کوئی تو قانون کا پاس کرے۔ آپ اگلے روز صوبائی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
حکمران قرضے لے رہے ہیں اور 
عوام مر رہے ہیں... خورشید علی شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرسید خورشید علی شاہ نے کہا ہے کہ ''عوام مر رہے ہیں اور حکمران قرضے لے رہے ہیں‘‘ اور یہ بیان بھی ذرا گرما گرمی پیدا کرنے کے لیے دیا ہے تاکہ 19 تاریخ والی ریلی کے لیے فضا کچھ سازگار ہوسکے، اگرچہ عین آخری لمحے پر زرداری صاحب بریک لگانے کا حکم دے سکتے ہیں، اوپر سے کارکن یہ کہہ رہے ہیں کہ فیصل آباد کے لیے بسیں وہ لائیں جنہوں نے سابقہ دور اقتدار میں پیسہ بنایا، بھلا یہ بھی کوئی بات ہے، پیسہ اگربنتا ہے تو خرچ بھی ہوجاتا ہے، اور ایسا پیسہ پاس رہتا بھی کب ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا، اور ہمارے طرح صرف خدمت ہی کرنے میں مصروف رہی، تاہم خدمت کی کچھ حدود و قیود بھی ہوتی ہیں جن کے اندر ہی رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے غریبوں کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا‘‘ اگرچہ اس کی تعبیر الٹ ہی نکل آئی لیکن اس میں بھی غریبوں ہی کا قصورتھا کیونکہ انہوں نے خواب ہی غلط دیکھا تھا۔ اسی لیے ہم ان سے کہتے ہیں کہ ہور چُوپو! انہوں نے کہا کہ''نوجوان ڈگریاں لے کر گھوم رہے ہیں، انہیں روزگار نہیں مل رہا‘‘ کم از کم ہمارے دور میں پیسے دے کرتو نوکری مل ہی جاتی تھی۔ آپ اگلے روز سبی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
بالآخر...
لیجیے جناب، بلی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہہ دیا ہے کہ نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تو عوام تسلیم نہیں کریں گے۔ اس کے بظاہر تین مطلب ہیں۔ پہلا تو یہ کہ مقدمہ کی کارروائی کا رخ دیکھتے ہوئے انہیں یقین ہوگیا ہے کہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف آئے گا۔ دوسرا یہ کہ اس صورت میں عوام کو اکسایا اور تیار کیا جائے کہ وہ اس فیصلے کو تسلیم نہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلیں اور تیسرا عدالت کو خوفزدہ کرنا کہ اگرفیصلہ نواز شریف کے خلاف کیا گیا تو عوام عدالت پر چڑھ دوڑیں گے۔ اس لیے عدالت اپنا نفع و نقصان سوچ کر فیصلہ کرے اور عدالت پر چڑھ دوڑنا ان حکمرانوں کے لیے کوئی نیا اور مشکل کام نہیں ہے اور وہ اس کا تجربہ بھی رکھتے ہیں جوکامیاب رہا تھا، حتیٰ کہ سازش کرکے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا بوریا بستر بھی گول کردیا گیا تھا۔ اسے بارش کا پہلا قطرہ ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ بہت جلد پارٹی کے دیگر زعماء کی طرف سے بھی اس طرح کے بیانات آنا شروع ہو جائیں گے۔ قارئین کو اگر یاد ہو تو ہم نے کچھ عرصے پہلے عرض کردیا تھا کہ لقمان حکیم کی طرح میاں نواز شریف کے پاس بھی ہر مرض کا علاج موجود ہے اوروہ شفا حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں کیونکہ اگر عدالت پراس یلغار سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹی تھی تووہ سمجھتے ہیں کہ اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔ اس لیے بھی کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور انہیں اس بل بوتے پر کچھ بھی کرنے کا اختیار اور حق حاصل ہے۔ سو، عدلیہ کے لیے رانا صاحب کا بیان ایک چشم کشا اور ذہنی غذا کی حیثیت رکھتا ہے یعنی مشتری ہشیار باش!
سچی بات ہے، ہر طرح کا فیصلہ تسلیم کرنے کی بات میاں صاحب اور ان کے تقریباً سبھی وزرائے کرام نے کی تھی، عوام کا انہوں نے کوئی ذمہ نہیں لیا تھا کیونکہ وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں اور انہیں آزادی اظہار کے اس زمانے میں کسی بھی طرح کے احتجاج سے روکا نہیں جاسکتا۔ اور یہی نہیں‘ ہو سکتا ہے حکومت نے اندر خانے اس کی پوری تیاری بھی شروع کردی ہو تاکہ بعد میں یہ کہہ سکیں کہ دیکھا ہم نے کہہ دیا تھا کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا؟
محترمہ بشریٰ اعجازنے اپنے آج والے کالم میں میرے پنجابی کلیات ''پنڈوکڑی‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے میرے جس مصرعے کو عنوان بنایا ہے اس کا ایک لفظ غلط چھپ گیا ہے۔ صحیح مصرعہ اس طرح پڑھا جائے
ایتھے سفنے رنگیا
سارا شہر فنانھ سی 
وہاں لفظ فنانھ کی بجائے پناہ چھپ گیا ہے جس سے مصرعہ ہی بے معنی ہو گیا ہے۔
آج کا مطلع
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں