"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘متن اور عزت مآب کی شاعری

مختصر مدّت میں معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے ''مختصر مدت میں معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے‘‘ قرضے لے لے کر خزانہ بھر دیا ہے اور تاجر و سرمایہ دار طبقہ مزید امیر ہو گیا ہے کیونکہ یہی لوگ صحیح معنوں میں قوم کہلانے کے حق دارہیں جبکہ غریب تو رفتہ رفتہ خود ہی ناپید ہوتے جائیں گے‘ اور معاشی استحکام مزید ظاہر ہو جائے گا‘ اس کے علاوہ سٹاک ایکسچینج بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے ‘چنانچہ ہمارا خیا ل ہے کہ مردم شماری کے وقت صرف کھاتے پیتے لوگوں کو شمار کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''اصلاحات کے جامع ایجنڈے پر عمل ہو رہا ہے‘‘ اور ماشاء اللہ اپنے آپ ہی ہو رہا ہے کہ یہ بھی خدا کی قدرتوں میں سے ایک ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''چیلنجز سے کامیابی کے ساتھ نمٹ رہے ہیں‘‘ اگرچہ ساری کی ساری اصلاحات میں روز اوّل ہی کی کیفیت ہے لیکن ہماری کوششوں پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا کیونکہ عوام تو انگلی اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہیں اور انگلی کٹوانے کی فکر میں ہیں‘ آپ اگلے روز ڈیووس میں سرمایہ دار کمپنیوں کے سربراہوں سے خطاب کر رہے تھے۔
ایک روٹی ہو تو صوبے مل کر کھائیں ۔شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ ''ایک روٹی ہو تو صوبے مل کر کھائیں‘‘ اور ‘ اگر ہماری خدمات کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو صوبوں کے لیے صرف ایک روٹی ہی رہ جائے گی جسے وہ چھینا جھپٹی کے دوران کھایا کریں گے اور اللہ کا شکر ادا کریں گے کیونکہ یہ قوم بے حد شکر گزار قوم ہے اور ہر وقت صبر و شکر ہی میںمصروف رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چاروں صوبوں میں میٹرو ٹرانسپورٹ شروع ہو گی‘‘ کیونکہ ایسے بڑے بڑے منصوبوں ہی سے اللہ میاں کا چھپڑ پھٹتا ہے اور وارے نیارے ہو جاتے ہیں کیونکہ عوام کی ضرورت اب صرف میٹرو ٹرانسپورٹ ہے اور وہ صحت اور تعلیم کے مسائل سے بے نیاز ہو گئے ہیں کہ علاج وہ تعویزدھاگے سے کرا لیتے ہیں اور تعلیم کے معاملے میں وہ اپنے عظیم شاعر کی نصیحت پر عمل کر رہے ہیں جس نے کہا تھا ع
علموں بس کریں او یار
آپ اگلے روزلاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران نے زکوٰۃ کا پیسہ آف شور کمپنی میں لگایا۔ جاوید ہاشمی
سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''عمران خاں نے زکوٰۃ کا پیسہ آف شور کمپنی میں لگایا‘‘ اور یہ عمران کے خلاف میرا ایک سو بہترواں بیان ہے لیکن میاں صاحب ٹس سے مس ہی نہیں ہو رہے‘ اب اس سے زیادہ کیا میں سر کے بل کھڑا ہو کر دکھائوں؟ اگر وہ چاہیں تو میں یہ بھی کر کے دکھا سکتا ہوں کیونکہ اب تو سینئر سیاستدان میری چھیڑ بن گئی ہے کم از کم میاں صاحب اس قربانی کا ہی خیال کریں جبکہ میں ان کے بلاوے کے انتظار میں نہ صرف مزید بوڑھا ہو گیا ہوں بلکہ سینئر ترین سیاستدان کہلائے جانے کا سزاوار ہو گیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''خاں صاحب مجھے جھوٹا ثابت کریں ورنہ میں انہیں جھوٹا ثابت کر دوں گا‘‘ ویسے بھی ‘ اسے میرا سیاسی بیان ہی سمجھا جائے کیونکہ یہ بھی میاں صاحب ہی کی روایت پر عمل پیرا ہو کر کر رہا ہوں ‘ کم از کم وہ اس کا ہی کچھ خیال کریں۔ آپ اگلے روز ملتان میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
عزت مآب کی شاعری
مُحبّی ارشد نعیم نے شیخو پورہ سے محترمہ عزت مآب کی یہ شاعری کافی مقدار میں بھجوائی ہے اور سفارش کی ہے ان کی آنے والی کتاب کے لیے فلیپ تحریر کر دوں۔ اس مقصد کے لیے ہمارے دوست روحی کنجاہی کا بھی فون آیا ہے لیکن میں نے ان سے بھی یہ کہہ کر معذرت کر دی ہے کہ میں نے یہ کام اب چھوڑ دیا ہے۔ سو‘ ارشد نعیم بھی اس سلسلے میں مضمون واحد تصور کریں۔
یہ تیئس کی تیئس غزلیں میں ایک ہی سانس میں پڑھ گیا ہوں یہ نک سِک سے درست اور بے عیب شاعری ہے اور ایک نوجوان شاعرہ کی طرف سے اس ہنر مندی کا اظہار ویسے بھی لائق صد تحسین ہے ۔ موصوفہ کی فنی بنیاد مضبوط ہے لیکن ابھی انہوں نے اس کوچے کی مزید اور بہت سی سیر کرنی ہے۔ انہیں جدید غزل کے مجموعوں بلکہ جدید غزل کی تنقید سے بھی واقف ہونا ہو گا کیونکہ شاعری کا محض اچھا ہونا کافی نہیں ہے کیونکہ ایسی اچھی شاعری ہمارے گردو نواح میں بہت ہو رہی ہے۔ مزید یہ کہ موصوفہ کو دوسروں سے مختلف ہونے کی بھی ضرورت ہے ‘ وہ ڈکشن ہو یا ان کا اپنا لب و لہجہ ۔ شاعری فی زمانہ مقابلے کی دوڑ بھی ہے اور اس دوڑ میں آگے نہ نکل سکنے والے ایک روٹین کے شاعر ہو کر ہی رہ جاتے ہیں۔ان غزلوں میں سے اپنی پسند کے کچھ اشعار:
فصیلِ درد ترے آہنی حصار کے پار
بلا رہا ہے کوئی مجھ کو اِس دیار کے پار
مری نظر میں فقط فاصلوں کی دُھول رہی
میں دیکھ ہی نہ سکی تجھ کو اس غبار کے پار
نجانے کون مجھے مل گیا بھنور کے بیچ
نجانے کب وہ چلا بھی گیا اُتار کے پار
میں جانتی ہوں یہ رستہ یہ لوگ میرے نہیں
سو دیکھتی ہوں بڑے شوق سے قطار کے پار
بھٹکتی پھرتی اُسے ڈھونڈتی رہو عزتؔ
جو لے گیا ہے کسی شخص کو پکار کے پار
ہجر آباد کرے عشق کے مارے ہوئوں کو
وصل معیوب ہے وحشت کے پکارے ہوئوں کو
مر گیا ایک کے بعد ایک تری شب کا چراغ
راس آئی نہ سحر رات گُزارے ہوئوں کو
گردشِ وقت نے پھر لا کے تجھے سونپ دیا
چاک‘ اب دیکھ ذرا اپنے سنوارے ہوئوں کو
ہم نے جانا نہیں عزتؔ کسی بستی کی طرف
لوگ الزام دیا کرتے ہیں ہارے ہوئوں کو
آج کا مطلع
غزل کا شور ہے اندر پرانا
بہت گونجے کا یہ پیکر پرانا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں