مشاعرہ شروع ہو گیا۔ صادقین سال بھر سے ہندوستان کے مہمان ہیں لہٰذا یہ انڈو پاکستانی مشاعرہ خاصے زوروں پر تھا۔ میں سمجھتا ہوں مشاعرے کے برپا ہونے کی باقاعدہ تشہیر نہیں کی گئی۔ جگن ناتھ آزاد اتفاقاً دلی میں تھے‘ بیکل اتساہی کا ترنم خوب ہے مگر وہ دو چار اشعارسے آگے نہ بڑھے۔ بیگار ٹال کر رہ گئے۔ ادھر ممبران کلب کے قہقہوں کی گونج مسلسل ایک دُور کے کونے سے چلی آ رہی تھی۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کی استقبالیہ تقریر خاصی لچھے دار تھی۔ فرمایا‘ پاک ہند مشاعروں کا ڈول چیمسفورڈ کلب نے ڈالا تھا‘ اب یہ سلسلہ ایک بار پھر شروع کیا جا رہا ہے تاکہ محبتوں کے رشتے بڑھیں اور پختہ ہوں۔ کنور صاحب باری باری شعرا کو بلاتے اور شاعر اور شخصیت پر تبصرے اور فقرے چُست کرتے جاتے تھے۔ ایک نوعمر شاعر پرویز کاکوری شعر پڑھ کر جانے لگے تو فرمایا‘ یہ صاحبزادے یہی غزل آج سے چند برس پہلے‘ جب ان کی مسیں بھی نہ بھیگی تھیں‘ لکھنؤ میں اسی طرح بھائی سجاد شعر سنیے گا‘ بھائی محمود شعر سنیے گا‘ کہہ کر سنا رہا تھا تو میں نے کہا‘ بیٹے! تمہاری عمر ہی کیا ہے‘ تم تو کہہ سکتے ہو بہن یہ شعر سنیے‘ باجی یہ شعر سُنیے‘ تمہیں کوئی کچھ نہ کہے گا۔ اور اُس وقت تو کنور صاحب بے تکلفی کی تمام حدیں توڑ گئے جب مشاعرے میں موجود ہلال سیوہاروی اور ہلال رامپوری کی باری آئی۔ فرمایا‘ اس وقت ہمارے درمیان دو ہلال ہیں‘ اب یہ تو وہی بتا سکتے ہیں کون حرامی اور کون حلالی ہے‘ اب یہ خود فیصلہ کریں کہ کون پہلے پڑھے گا اور کون بعد میں‘ اگر خواتین شاعرات سے کہا جائے‘ جو کم عمر ہو وہ پہلے پڑھے تو یہ تینوں کی تینوں آ جائیں گی۔ میرٹھ کے فسادات جاری تھے۔ ہلال سیوہاروی نے قطعہ پڑھا:؎
دنگوں کا نام دے کے سیاست کے کھیل کو
واللہ چار روز یہاں شور کیا رہا
دلی کے ایشیائی گیم کا ہے انتظار
میرٹھ کی بھی بتائو کہ اسکور کیا رہا
اس حق گوئی کو سن تو صبر و تحمل سے لیا گیا‘ داد نہیں دی گئی۔ ہاں وہ اشعار جن سے اکھنڈ بھارت نظریاتی سرحدوں اور دیواروں کے ٹوٹنے کے اشارے کنائے تھے یا رئیس صاحب کی ''وطن‘‘ واپسی کا چرچا تھا‘ بہت داد دی جاتی رہی۔ ایک شاعر نے ڈیسائی کی پیشاب نوشی پر طنزیہ اور مزاحیہ نظم پڑھی‘ میرے پہلو میں سکھ سامعین خوب دانت بھینچ کر اوئی اوئی‘ اوئے ہوئے ہوئے کی آوازیں نکال کر داد دیتے رہے‘ جیسے پیٹ میں مروڑ اٹھے۔ یہ ''دلفریب‘‘ انداز لطف دوبالا کرتا رہا۔ صادقین کی باری آئی تو کنور صاحب نے بڑی تعریفیں کیں‘ یہ ہیں صادقین‘ ایک قلندر ہیں‘ مجذوب ہیں‘ فقیر منش ہیں‘ ایک سال ہونے کو آیا ہمارے مہمان ہیں‘ ہم پر بوجھ نہیں بنے‘ علی گڑھ یونیورسٹی میں کام کیا‘ اور یہ کام طویل و عریض تصویریں ہوتی ہیں‘ پوری پوری دیواری تصویریں‘ ایک تاریخ کو اپنے دامن میں لیے ہوئے‘ علی گڑھ ایک مسلم ادارہ ہے‘ کہیں کوئی یہ نہ کہے صادقین مسلمان ہیں اس لیے علی گڑھ کو ترجیح دی‘ لہٰذا بنارس ہندو یونیورسٹی بھی چلو‘ وہاں بھی اپنی خلاقی کے جوہر دکھائے۔ حیدر آباد دکن بھی فیضیاب ہوا ہے۔ دلی میں ہمدرد نگر کو سجا رہے ہیں غالب اکیڈمی سج چکی۔ مصوّر اور خطاط تو ہیں ہی‘ شاعر بھی ہیں۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے آج کل جب وہاں سیر دیکھنے یا اعزہ سے ملاقات یا بزرگانِ دین کے عرس وغیرہ میں شرکت کے لیے پہنچتے ہیں تو وہاں ایک خاص ڈھب سے وطن میں واپسی اور وطنیت کا ڈھول پیٹا جاتا ہے۔ طرح طرح کے اینڈے بینڈے کرکے کوشش یہ کی جاتی ہے پاکستان سے آنے والا کسی طرح یہ اگل دے‘ ہم تو مرے جاتے ہیں اپنے سابق وطن کی یاد میں۔ اس میں ہندیوں کو بڑے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ بڑے بڑے جال پھیلاتے ہیں لیکن جس نے اپنا سب کچھ لٹا کر‘ اپنی ماں بہن بیٹی کی قربانی دے کر ایک گھر بنایا ہو‘ وہ کیوں کسی پھندے میں آئے گا۔ اکثر چوٹ دے جاتا ہے۔ ہندوستانیوں کو منہ کی کھانا تو ضرور پڑتی ہے لیکن مہم جوئی سے بہرحال وہ باز نہیں آتے۔ مشاعرے کی فضا کچھ ایسی ہی تھی۔ اس پر صادقین نے یوں جانیے زچ ہو کر یہ رباعی لکھی ہے پڑھی بھی ‘ ؎
البرز نہ الوند کا باشندہ ہوں
دلی نہ سمرقند کا باشندہ ہوں
ساری دنیا میرا وطن ہے‘ یعنی
میں ارضِ خداوند کا باشندہ ہوں
صادقین قرآنی حوالوں پر بھی اتر آئے۔ وہ کسی قومیت اور وطنیت کے قائل نظر نہیں آتے۔ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود دل ایک مومن کے سے مسلمان کا رکھتے ہیں۔ غالباً ہندوستان کو اپنی مصنوعات پر غرِہ تو ہے ‘ ہونا بھی چاہیے لیکن ہندوستان ''مارکر‘‘ کا حال یہ تھا کہ لکیر کھینچو تو بار بار ٹوٹ جاتی تھی‘ سیاہی کھل کر نہیں اترتی‘ جمی ہوئی سیاہیاں۔ صادقین میں نے دیکھا الجھا رہے ہیں‘ پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ اب وہ پنسل چلے تو چلائیں‘ ناچار پاکستانی لکھتے ہیں‘ یہاں سے ڈبے بھر بھر کر جاتے ہیں تب کام چلتا ہے اور یہ سب اپنی گرہ سے ہو رہا ہے۔ جسے ہم نقلی کہتے ہیں وہ پاکستانی ''مارکر‘‘ جاپانی اور امریکن پنسل کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ ہم چاہیں تو غیر ملکی سامان کی درآمد بند کر دیں۔ پاکستانی بے حد ذہین اور جفا کش ہے۔ ہم کسی سے پیچھے کہاں ہیں؟ کون سی چیز ہے جو ہم بنا نہیں سکتے۔ رئیس اور صادقین ایک ہی دادا کی اولاد ہیں۔ صادقین نے برادرِ بزرگ کی تعریف اور توصیف کے بعد یہ بھی اقرار کیا کہ رئیس نے میرے کلام پر اصلاحیں دی ہیں‘ یہ میرے ایک طرح سے استاد بھی ہیں۔ آخر میں رئیس صاحب بلائے گئے۔ ؎
آیا وہ آیا اے دل وہ آیا
بادِ سحر تھی جس کی پیامی
ہم بھی سنبھل کر بیٹھ گئے۔ چونکہ سکھا پڑھا کر لے جائے گئے تھے اس لیے بے پر کی کوئی ہانک ہی نہیں سکتے تھے اور وہ خود بھی اتنے ''استاد‘‘ ہیں ماشاء اللہ کہ شہ نشین سے کوئی اکھڑی ہوئی بات کہنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔ دو چار منٹ کی تقریر اچھی خاصی تھی۔ پاک ہند پریم سبھا کی کارکردگی پر زور ضرورت سے زیادہ تھا۔ دوستی اور تعاون کی باتیں۔ پاکستان کی ترقی کی باتیں۔ ہمارے صدر ضیاء الحق کا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ زبانی جمع خرچ نہیں ہے‘ ایک پرانی غزل کے ایک شعر سے خوب کام نکالو‘ ؎
تمہارے غُنچہ و گُل سے غرض نہیں مجھ کو
اِدھر اشارہء بادِ صبا سے آیا ہوں
رئیس صاحب گزشتہ اکیس برس سے میں دیکھ رہا ہوں وقت گزاری یا پھر بیگار ٹالنے کے لیے مشاعروں میں شریک ہوتے ہیں‘ اونگھتے رہیں گے۔ داد باندازِ بے داد ہو گی اور جب ان کی باری آئے گی تو کوئی گھسی پٹی زود ہضم نہیں‘ بے حد ثقیل غزل پڑھ ڈالیں گے۔ ان کا ایک اپنا انداز ہے‘ عبدالعزیز خالد تو بہت پہنچے ہوئے بزرگ ہیں لیکن رئیس صاحب سے بھی عام آدمی لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ غزل فلسفیانہ سوچ بچار اور غور و فکر کی متحمل کہاں ہو سکتی ہے۔ یہ تو شوخ چنچل اور الھڑ ہے‘ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ۔ درد و فراق کے قصّوں میں بھی یہ تو بوجھل ہو جائے گی۔ لاکھ کہو حضرت کوئی نئی چیز عطا کیجیے گا۔ بیاض ہر تقریب کے لیے ''نئی‘‘ تیار کر لیں گے...
آج کا مطلع
دل کے صفحے پر خوب چھاپا
اُس حُسن کا سانولا سراپا