اس کے علاوہ حضرت(امیر حمزہ شنواری) کا شمار اصحابِ طریقت میں بھی کیجیے تو بے جا نہ ہو گا ‘نہایت نیک دل انسان ہیں‘پابند صوم و صلٰوۃ ‘ مجھ پر بڑا کرم فرماتے ہیں۔ دلی میں ٹیلیفون کا سلسلہ بڑا غلط ہے‘ مختلف قسم کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ گھنٹی بج رہی ہے‘ جیسے ہمارے ہاں مصروف فون کی آواز آتی ہے۔ محمود صاحب کو تیسرے چوتھے دن کراچی سے بات کرنے کا موقع ملا وہ بھی لڑ جھگڑ کر‘ ٹیلیفون پر بابر صاحب کے صاحبزادے فیروز ملے۔ میں نے پوچھا پشتو جانتے ہو‘ بولے سمجھ لیتا ہوں بول نہیں سکتا۔ بابر صاحب کو پاکستان چھوڑنے کی اس سے بڑی سزا کیا مل سکتی ہے۔ جب زبان ہی اپنی نہ رہی تو پھر کیا‘ باقی رہ گیا۔ معلوم ہو چکا تھا لہٰذا میں نے یہی صبح کا وقت بہتر جانا اور تیار ہو کر چندن گیسٹ ہائوس سے نیچے اتر آیا۔ ساغر اپارٹمنٹ کے پہلو ہی میں گلِ رعنا ہے‘ لیاقت علی خاں مرحوم کا بنگلہ۔ آزادی کے بعد اس عمارت سے سفارت خانے کا کام لیا گیا۔ لٹے پٹے مسلمان پرانی دلی سے بھاگ کر اسی عمارت میں پناہ لینے کے لیے پہنچتے اور دروازے تک پر قتل ہوتے رہے۔ اندر گھس کر بھی آزاد ہندو غارت گری کرتا تو روکنے والا کون تھا۔ مسلمانوں کا دلی میں دل بہلاوا اگر کچھ تھا تو سفارت خانے کی یہی عمارت تھی‘ اور اس کا احاطہ۔ یہی سے پرانے قلعے میں لوگ منتقل ہونا شروع ہوئے اور بڑی بے کسی اور ذلت کے دن کاٹ کر کٹتے مرتے پاکستان آئے۔ ہمارے چھوٹی بحر میں اردو غزل کے استاد حیرتؔ شملوی بھی اسی مہاجر پڑائو میں جیتے مرتے رہے لیکن وہ فوری طور پر پاکستان نہ آ سکے تھے۔ برسوں
کے بعد سن ساٹھ اکسٹھ عیسوی کی سردیوں میں کپکپاتے ہوئے لاہور/ سکھر اور پھر کراچی درگاہ عبداللہ شاہ غازی بخاری پر جا کر دم لیا اور دیا بھی ۔ گل رعنا میں اب بھی سفیر کبیر پاکستان قیام پذیر ہیں اور ہمارا سبز ہلالی پرچم اپنی بہار دکھاتا رہتا ہے۔ رات کو ہلکی بارش ہو جانے کی وجہ سے ایک لطیف سی خُنکی فضا میں پھیلی ہوئی تھی۔ انڈیا گیٹ سے ہوتا ہوا میں بنڈارہ روڈ پر آ گیا۔ بابر صاحب آل انڈیا ریڈیو کے شعبۂ پشتو کے سربراہ ہیں‘غالباً خبریں نشر کرتے ہیں‘ بہرحال ہیں وہیں کہیں۔ میاں !یہ اٹھانوے بی کس طرف ہے؟‘ بچے نے پہلے تو اپنی نوعمر بہن کی طرف دیکھا پھر بولا اٹھانوے بی سے آپ کا مطلب نائنٹی ایٹ بی ہے‘ بالکل یہی۔ راستہ اس نے بتایا لیکن مجھے بھٹکتا ہوا دیکھ کر وہ لڑکی دوڑتی ہوئی خاصی دور تک میرے پیچھے پیچھے آئی اور ‘ انکل ادھر نہیں‘ ادھر کہہ کر واپس چلی گئی ‘میں اس حُسنِ اخلاق سے متاثر ہوا۔ بابر صاحب کے گھر کا دروازہ ایک سیاہ رُو دکنی چھوکری نے کھولا‘ زبان اس کی اب بھی دکنی ہے‘ دہلوی نہیں‘ وہ کوئی ملازمہ نہیں تھی۔ بابر صاحب کے نوجوان صاحبزادے کی دستبرد سے وہ ہنستی مسکراتی بھر پور پڑوسن کیا محفوظ رہی ہو گی۔ دوسری منزل پر سرکاری مکانوں میں رہائش پذیر ہیں بابر صاحب بڑے تپاک سے ملے۔ چائے وائے ان کی بیگم خود لے کر آئیں کشمیرن ہیں۔ امیر حمزہ صاحب شنواری نے باتوں باتوں میں بیگم بابر کا ذکر بھی کیا تھا۔ یہی کہ بابر کی بیوی سے بنتی نہیں‘ بیزار ہیں۔ بابر حکام رس ہیں‘ ایک علی گڑھ کا سند یافتہ ضرورت مند بھی آ گیا‘ وہی بولے چلا گیا۔ میں یہ سوچ کر گیا تھا بحثوں گا ان سے‘ مگر میں نے دیکھا اب وہ دم خم نہیں رہا۔ بحیثیت مجموعی وہ مسلمانوں کے غم میں گھلتے رہتے ہیں۔ پاکستان سے اخراج ان کی پسند نہ تھی۔ کہتے تھے جیسے ہی آزادی ملی ہمیں جھوٹے مقدموں میں دھر لیا گیا۔ قتل کے الزامات‘ جج کا نام بھی بتایا تھا بابر صاحب نے‘ مجھے یاد کہاں رہتے ہیں نام۔ جج صاحب سے بابر کہتے تھے‘ میں نے کہا آپ بھی پٹھان ہیں اور مقامی ہیں۔ آپ سب کچھ جانتے ہیں‘ اس کے باوجود اگر آپ مقتول کے اعزہ کو بلا لیجیے وہ میرے آپ کے سامنے آ کر کہیں کہ بابر قاتل ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ مجھے پھانسی پر نہ لٹکایا جائے‘ یہ تو نہ ہوا۔ بات آخر یہاں تک پہنچی کہ تم کانگریسی ہو تمہیں رہنے کے لیے نیک چلنی کی ضمانت دینا ہو گی۔ میں نے لاکھ کہا میں یہیں پیدا ہوا پلا بڑھا اب رہتا ہے میرا سیاسی کے ساتھ ساتھ اخلاقی کردار کیا ہے وہ بھی آپ جانتے ہیں۔ ادھر سے ضمانت پر اصرار ادھر سے انکار۔ عافیت اسی میں نظر آئی کہ دلی چلو۔ یہاں اور توکوئی خدمت بن نہیں آئی ہر صبح اپنے چھجے پربیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہوں‘ میری آواز دور دور تک جاتی ہے۔ ہندو مسلم یکساں محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ قربانی کے بکرے اکیلے بابر ہی نہیں کھاتے‘ ان کے غیر مسلم پڑوسی بھی انتظار دیکھتے رہتے ہیں‘ بلکہ عید کا انتظار کون کرے‘ بیچ بیچ میں بھی تقاضے کر کر کے بکرے حلال کرائے جاتے رہتے ہیں۔ بابر صاحب کا لب و لہجہ پختون ہے دہلوی نہیں‘ اس لیے لطف دے جاتا ہے۔ بچیّوں کے رشتے اچھے لوگوں میں طے ہوئے ہیں پشتون نہیں بول سکتے‘ میری یہ کیفیت دیکھ کر وہ یوں کہیے مایوس ہوئے۔ پنڈارہ روڈ ہی پر کہیں ساغر نظامی بھی رہتے ہیں‘ دس بجا چاہتے تھے اور میں یہ کہہ کر رخصت ہونے لگا پھر کسی وقت حاضر ہوں گا۔ فرمایا فون کر کے آنا‘ مجھے یہ قید اچھی نہیں لگی اس لیے دوبارہ جانا ممکن نہ ہوا۔
حسن عسکری صاحب نے موٹر نہیں ہمارے شایانِ شان ایک چھوٹی لاری بھجوائی جسے تیس روپے روزانہ پر ایک ہندی مسلمان چلا رہا تھا اور دلی کے تمام راستوں سے باخبر تھا۔ میرے نٹ کھٹ ساتھیوں کے مزاج کی افتاد سے اندیشے طرح طرح کے تھے‘ میرا مشورہ یہ تھا اب مانگے تانگے کی سواری وصول کر ہی لی گئی ہے تو کیوں نہ شہر سے ہٹ کر جو تاریخی مقامات ہیں ان کی سیر دیکھ لی جائے۔ ورنہ حالت یہ تھی مہمان خانے کی چھٹی منزل پرکھڑے ہو کر اختر فیروز فرماتے تھے دیکھو وہ رہا سامنے پرانا قلعہ۔ ہاں میں ہاں رئیس کیوں نہ ملاتے۔قطب مینار کی تاریخی حیثیت پر گفتگو ئیں اکثر اخبارات میں چل نکلتی ہیں۔ مسلمان کہتا ہے قطب الدین ایبک کا کارنامہ ہے۔ ہندوستانیوں نے آزادی کے بعد کچھ تاریخی گھپلے کیے ہیں دو چار مہینے گزرتے ہیں مینار میں بجلی غائب ہونے سے ایسی بھگدڑ مچی کہ متعدد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس لیے جب ہم وہاں پہنچے تو اوپر جانے کا راستہ مقفل پایا۔ مینار کے آس پاس تو کئی کھنڈر موجو د ہیں عمارتوں کے‘ لیکن یہ بلند و بالا مینار تن تنہا کھڑا ہے سیدھی سپاٹ زمین پر کوئی کرسی کوئی چبوترہ کچھ نہیں۔ خاکی رنگ کے پتھر پر قرآنی آیات اُبھری ہوئی
ہیں۔ خوشنویسی مسلمانوں کا حصہ رہی ہے اور عربی رسم الخط میں تو طرح طرح کے کمال ہر جگہ بکھرے پڑے ہیں۔ کہیں یہ مینار کسی بڑی مسجد کا حصہ تو نہیں رہ چکا۔ قطب مینار کے سائے میں چند نوجوان امرتسر کے بھی گھومتے پھرتے تھے۔ میری تصویر کشی دیکھ کر وہ بے قرار ہوئے بے تکلف کہہ اٹھے ‘ہماری تصویر بھی اتار لو۔ میں بھی خوش مذاقی پر اتر آیا اور پلٹ کر تڑاق سے کہا کیوں جی کیوں تصویر اتاروں۔ تسیں میرے چاچے دے پتر لگدے او (کیا تم میرے چچا زاد بھائی ہو) سٹپٹائے تو وہ بہت لیکن میں نے ہنس کر بات آگے بڑھائی‘ بھائی تم لوگ اتنی دور سے اپنی راجدھانی کی زیارت کو آئے ہو۔ نوجوان ٹولی کے پاس چھوٹا موٹا کیمرہ تو ہونا چاہیے تھا۔ تمہاری بے کسی کا یہاں آ کر ہم نے اندازہ کر لیا ہے۔ تمہاری کسمپرسی غربت کا احساس دلی میں قدم رکھتے ہی ہمیں ہو گیا تھا۔کراچی سے اڑ کر دلی اترو تو گویا بھرے پُرے گھر سے اٹھا کر ویرانے میں ڈال دیے گئے۔ تمہاری حکومت اپنا سب کچھ سامان جنگ کی فراہمی اور جوڑ توڑ میں لگا رہی ہے۔ پاکستان دشمنی میں تمہیں بھوک اور قحط سہنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں تمہارے ارمانوں کا خون میں نہیں کروں گا‘ اب ذرا سنبھل جائو۔ لو اتر گئی تمہاری تصویر‘ہاں ہاں رنگین ہے۔ دلی سے تو نہیں گھر جا کر بھیج دوں گا‘ ذرا اپنا پتہ بتانا۔ روشن لال‘ ریجنٹ سینما کٹڑہ شیر سنگھ امرتسر۔ اور ہاں آ کر دیکھو تو ہم کس مزے سے زندگی کر رہے ہیں۔ ایک لڑکا بولا اٹھا ہاں میں نے دیکھا ہے لاہور تو بتائو کیسی بھر پور زندگی ہے لاہور کی۔ بیچارے کو اقرار کرتے ہی بنی!!
آج کا مقطع
سفینہ سمت بدلتا ہے اپنے آپ‘ ظفر
کوئی بتائو مرا بادباں کہاں گیا ہے