"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور اقتدار جاوید کی تازہ نظم

سیہون پر حملہ قائد اعظم کے پاکستان پر حملہ ہے۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''سیہون پر حملہ قائد اعظم کے پاکستان پر حملہ ہے‘‘ لیکن مقام شکر ہے کہ یہ قائد اعظم ثانی کے پاکستان پر حملہ نہیں ہے ورنہ اب تک حملہ آوروں کو اس کا مزہ چکھا چکے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ''حملہ آوروں کو نہیں چھوڑیں گے‘‘ بلکہ ان میں سے بعض حضرات کو پہلے ہی چھوڑا نہیں‘ جنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ پنجاب پر حملہ نہیں کریں گے لیکن شاید انہیں معلوم نہیں کہ لاہور پنجاب ہی میں واقع ہے اس لیے نقشوں کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ دوبارہ ایسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم متحد ہے‘‘ بلکہ اب تو کچھ عرصے سے قوم کے ساتھ ہم بھی متحد ہیں لیکن ہمارے متحد ہونے کا بھی اُلٹا اثر ہوا ہے اور حملے برابر ہو رہے ہیں‘ اس لیے اس اتحاد پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''میرا دل متاثرین کے ساتھ دھڑکتا ہے‘‘ اور انہیں اس کو غنیمت سمجھنا چاہیے کیونکہ کسی فیصلے سے دھڑکن متاثر بھی ہو سکتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
پاکستان جارحیت کا منہ توڑ جواب 
دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ''پاکستان جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے‘‘ جبکہ صلاحیت رکھنا اور چیز ہے اور اسے استعمال کرنا دوسری چیز جبکہ ہم کسی کا منہ توڑنا مناسب نہیں سمجھتے جبکہ وزیر اعظم کی رائے بھی یہی ہے کہ اگر کسی کا منہ توڑ دیا جائے تو وہ کھائے گا کیسے‘ اور اگر کھانا نہیں تو زندہ رہنے کا فائدہ ہی کیا ہے کیونکہ اللہ میاں نے نہ تو صرف کھانے کے لیے دیا ہے اور اسے اس نیک مقصد کے لیے استعمال کرنا باقاعدہ کفران نعمت کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہر قسم کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں‘‘ اور جونہی حکومت موجودہ چیلنجوں سے فارغ ہوتی ہے جن میں پاناما لیکس کیس‘ نیوز لیکس کیس اور شوگر ملوں کی بندش وغیرہ شامل ہیں‘ تو اس چیلنج سے بھی اچھی طرح نمٹ لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''مشکل وقت میں پاک فضائیہ نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے‘‘ اور اللہ میاں سے دعا ہے کہ ہمیں بھی مشکل وقت میں اہم کردار ادا کرنے کی توفیق دے کیونکہ اگر اس کی توفیق بہم ہوتی تو ہم اب تک ملکی مسائل بھی حل کر چکے ہوتے۔ آپ اگلے روز فضائیہ کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران جھوٹے الزامات کا ثبوت 
عدالت میں پیش نہیں کر سکے۔ نواز لیگ 
مسلم لیگ نواز گروپ نے کہا ہے کہ'' عمران خان جھوٹے الزامات کا ثبوت عدالت میں پیش نہیں کر سکے‘‘ جبکہ انہوں نے صرف سچے الزامات کے ثبوت پیش کیے ہیں‘ اگرچہ ہمارے وکیل صاحب منی ٹریل سمیت بہت سی چیزوں کا ثبوت پیش نہیں کر سکے کیونکہ زبانی باتوں پر بھی اعتبار کرنا چاہیے کہ آخر حکومت تو جھوٹ نہیں بول سکتی ماسوائے سیاسی بیانات کے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاناما دستاویزات میں نواز شریف کا نام نہیں‘‘ بلکہ صرف ان کی معصوم اولاد کا نام ہے جو اتنی کم عمری میں ایسے جرائم کا ارتکاب کیسے کر سکتے تھے اور جو اس کم سنی میں انہوں نے اربوں روپے کما لیے وہ بھی اللہ میاں کا ایک معجزہ ہے جبکہ ہم خدائی معجزوں پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور اگر عمران خان ان کے منکر ہیں اور یقین نہیں رکھتے تو یہ ان کے ایمان کی کمزوری ہے جبکہ قطری شہزادہ بھی رحمت کا ایک فرشتہ ہے ۔ مریم اورنگزیب‘ طارق فضل چودھری اور دانیال عزیز اگلے روز پاناما کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے بات کر رہے تھے۔
شہدا کا خون قرض‘ دہشت گردوں اور
سہولت کاروں کا خاتمہ کر کے اتاریں گے۔شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''شہدا کا خون قرض ہے جو دہشت گردوں اور سہولت کاروں کا خاتمہ کر کے اتاریں گے‘‘ جس طرح ہم نے ماڈل ٹائون کے شہدا کا قرض مکمل طور پر ادا کر دیا ہے اگرچہ یہ قرض خواہ دن رات ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتے رہتے ہیں اور ہمیں ابھی تک اپنا مقروض ہی سمجھتے ہیں۔ خدا انہیں ہدایت دے اور وہ گڑھے مردے اکھاڑنے سے باز آ جائیں جبکہ ان گڑھے مردوں کو اکھاڑ کر قبروں سے باہر نکالنا کوئی اچھی بات نہیں ہے اور بری باتوں سے احتراز کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں ہم سے سبق سیکھنا چاہیے‘ بھائی صاحب سے خاص طور پر‘ انہوں نے کہا کہ ''میں وزیر اعظم کی جانب سے تعزیت کا خصوصی پیغام لے کر آیا ہوں‘‘ کیونکہ وہ خود حسب معمول دیگر مفید کاموں میں مصروف تھے اگرچہ میں ان سے بھی زیادہ مصروف رہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''شہدا کا خون رائگاں نہیں جائے گا‘‘ اگرچہ تاحال یہ رائگاں ہی چلاجا رہا ہے حالانکہ قدرت کو ہماری نیکیوں کا ہی کچھ خیال ہونا چاہیے۔ آپ اگلے روز شکر گڑھ میں شہدا کے ورثا سے اظہار تعزیت کر رہے تھے۔
بدعنوانی کو آہنی ہاتھوں سے روکنے کے
لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ چیئرمین نیب
چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے کہا ہے کہ ''بدعنوانی کو آہنی ہاتھوں سے روکنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے‘‘ اگرچہ وزیر اعظم اور خادم اعلیٰ نے مجھے کئی بار ڈانٹا ہے کہ آپ آئے روز کس بدعنوانی کا رونا روتے رہتے ہیں جبکہ وہ بار بار کہہ چکے ہیں کہ بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑا جا چکا ہے بلکہ خادم اعلیٰ نے تو اس پر کئی بار اپنا نام بھی تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے اور حقیقتاً وہ اب تک اتنے نام تبدیل کر چکے ہیں کہ خود کو خادم اعلیٰ ہی کہلوانا شروع کر دیا ہے کیونکہ اتنے نام کسی کو یاد بھی کہاں رہ سکتے ہیں تاہم میں نے ان سے درخواست کی ہے کہ اپنی سٹیل مل سے کچھ آہنی ہاتھ ہی تیار کروا دیں تاکہ ان کی مدد سے بدعنوان عناصر سے نمٹا جا سکے جبکہ ہمارے پاس پلی بارگین کا ہی ایک طریقہ تھا جس سے بدعنوانی کا کسی حد تک قلع قمع ہو رہا تھا لیکن سپریم کورٹ اس کے بھی خلاف ہے اور اسے ختم کرنے کے درپے ہے‘ نیکی کا تو کوئی جہان ہی نہیں ہے‘ بلکہ اب تو ہمیں منگل کو خود بھی پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے‘ بہرحال ‘ آثار کچھ اچھے نظر نہیں آ رہے اور لگتا ہے کہ حکومت کی طرح ہمارا بھی چھابہ اُلٹایا جانے والا ہے۔ آپ اگلے روز میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور اب اقتدار جاوید کی یہ تازہ نظم:
گُل فروش
ناس پال‘ رونے والیوں سے/بھر گیا ہے چاروں سمت سے/ احاطۂ مزار/ آنکھیں لگ گئی ہیں جھلملاتی جھالروں کے درمیان جالیوں سے/ گھونگھٹوں میں رُوپ کو لپیٹتیں/ گلی کی رونقیں نگاہوں میں سمیٹتیں/ لرز رہی ہیں/کس طرح ضریح سے لرزتا سینہ جوڑ لیں/ سمندروں سے ایک ایک اٹھتی لہر روک لیں/سمندروں کو موڑ لیں/ کہ کھل سکے کسی پہ ان کا رُوپ/ اور پڑے چھتوں پہ سیدھی گرمیوں کی دھوپ/ اڑے مہک کہ کھل سکے/ یہاں پہ کون آ رہا ہے پوری زندگی گزارنے/ کوئی گھڑی بس اک گھڑی گزارنے/ پلک پلک پہ جو قدیم بوجھ ہے اُسے اتارنے/ ازل سے مستقل دہانے بند غار/ غار بخت منتروں سے کھولتی ہیں/ سُرخ سے سفید ہوتی نرم تر کلائیوں کی گرم نبضیں ڈوبنے لگیں/ رگوں میں جاں پڑی/ضریح سے ہٹی ہر اک نگاہ/ ہجوم‘ پھیلتا ہوا ہجوم‘ تریزیں توڑتا ہجوم/ اک طرف ہوا/ تو کھوپرے کے پانیوں بھری حصار توڑتی بڑھیں/ ستارۂ شمال / آسماں پہ اپنے دائمی مقام پر چمک اٹھا/ سیاہ آسماں دمک اٹھا/ بہت سی نتھلیاں ہلیں‘ رُواں رُواں کھڑا ہوا/ گرا چمکتے فرش پر نگیں سفید/ گل فروش ڈالیوں کے ساتھ/ ہنسنے والیوں کے ساتھ آ گیا احاطۂ مزار میں/ معاملۂ گل فروش/ ہنسنے اور رونے والیوں سے ہے الگ/ یہ اس کی پہلی نذر ہے/ یہ اس کا پہلا خواب ہے/ کہ ست لڑے سے اس کی آخری لڑی فروخت ہو/ کہ وہ کسی طرح / احاطۂ مزار اور سیاہ رات کی حدود سے ہمیشہ کے لیے نکل سکے۔
آج کا مقطع
ہم خود ہی درمیاں سے نکل جائیں گے‘ ظفر
تھوڑا سا اُس کو راہ پہ لانے کی دیر ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں