کوئی شرم ہے نہ حیا‘ جتنا بڑا کرپٹ
اتنی ہی لمبی تقریریں۔ صدر ممنون حسین
صدر ممنون حسین نے کہا کہ ''شرم ہے نہ حیا‘ جتنا بڑا کرپٹ اتنی ہی بڑی تقریریں‘‘ اور یہ تقریریں آپ روزانہ ہی پڑھتے ہیں بلکہ ہر تقریر میں ایک پائی کی کرپشن نہ ہونے کا دعویٰ باندھا جاتا ہے بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جا چکا ہے وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ ''میرے کہنے پر بھی بجلی کمپنیوں سے بدعنوان نہیں ہٹائے گئے‘‘ حالانکہ مجھے اچھی طرح سے معلوم تھا کہ میرے کہنے کا کچھ اثر نہ ہو گا لیکن اب چونکہ پاناما کیس فیصلے کی آمد آمد ہے‘ اس لیے یہ ظاہر کرنا ضرور تھا کہ میں تو ان شرفاء کو بار بار کرپشن سے منع کرتا رہا لیکن یہ باز نہیں آئے‘ سو اب بھگتیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے‘‘ اگرچہ خود سپریم کورٹ بھی بار بار یہی کہتی رہی ہے لیکن اب جو سب سے بڑا کرپشن کا مسئلہ اس کے سامنے پیش ہے تو دیکھیں اس پر وہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سرکاری افسر حرام خوری کی عادت چھوڑنے کو تیار نہیں‘‘ حالانکہ ان کے حکمران دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کرتے کیونکہ میں نے انہیں کئی بار ایسا کہتے سنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بد قسمتی سے غلط کاموں میں سب ملے ہوئے ہیں‘‘ اور سب سے میری مراد کیا ہے‘ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''سدباب کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا‘‘ اگرچہ چھوٹے بڑے سب پہلے ہی مل کر کام کر رہے ہیں اور کرپشن کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ریلوے کی اراضی پر مافیا نے قبضہ جما لیا ہے‘‘ بلکہ سارے ملک پر ہی مافیا کا قبضہ ہے جس کا علاج بھی امید ہے کہ جلد ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حق لینے کیلئے بھی سفارش اور رشوت کا کلچر فروع پا چکا ہے‘‘ اگرچہ میرا یہ بیان کچھ لوگوں کو پسند نہیں آئے گا لیکن کوئی بات نہیں‘ ان کے دن بھی گنے چنے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ترقی کے لیے سب کا بلا تفریق محاسبہ کرنا ہو گا‘‘ حالانکہ ترقی تو پہلے ہی اتنی تیز رفتار ہے کہ اس کا اپنا محاسبہ بھی ضروری ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپٹ افراد نے ایسا نیٹ ورک بنایا ہے کہ جو نظام کو کسی صورت ٹھیک نہیں ہونے دیتا‘‘ اور جو سب کو صاف نظر بھی آ رہا ہے‘ میرے کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''بدعنوان افراد باز نہ آئیں تو انہیں تقریبات میں بلانا چھوڑ دیں‘‘ تاکہ ان کے کام میں کوئی خلل نہ پڑے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب کی صدارت اور اس سے خطاب کر رہے تھے۔
ریلوے میں کام نہ کرنے کا کلچر دفن
ہو چکا ہے۔ خواجہ سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا کہ ''ریلوے میں کام نہ کرنے کا کلچر دفن ہو چکا ہے‘‘ اور اسی لیے آئے دن حادثات ہوتے رہتے ہیں کیونکہ حادثے بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھ کر نہیں کروائے جا سکتے جبکہ یہ بھی خاصا باریک کام ہے اور جس روز کوئی حادثہ نہ ہو‘ باقاعدہ جواب طلبی کی جاتی ہے اور اسی لیے خالی مقامات پر پھاٹک لگانے کا کام شروع نہیں کیا گیا کیونکہ کافی عرصے سے خاکسار سمیت تقریباً جملہ وزراء پاناما کیس کی سماعت کے دوران نہ صرف عدالت میں ہوتے ہیں بلکہ سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر اس پر اظہار خیال بھی کرتے رہے ہیں، جس میں فیصلہ حق میں نہ آنے کی صورت میں عدالت کو اس کے نفع و نقصان کے بارے میں بھی اشاروں اشاروں بتا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ریلوے افسران میرٹ کو ترجیح دیں اور کرپشن کو برداشت نہ کریں‘‘ جس طرح اوپر سے لے کر نیچے تک ہم لوگ کرپشن کو برداشت نہیں کرتے اور یہ شروع سے ہی برداشت سے باہر ہوتی چلی آ رہی ہے اور کئی بار ہمارا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے بلکہ چھلک بھی چکا ہے۔ آپ اگلے روز ریلوے ہیڈ کوارٹرز میں پالیسی خطاب دے رہے تھے۔
افراتفری اور انتشار کی سیاست ہر بار
ناکام ہو گی۔ شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''افراتفری اور انتشار کی سیاست ہر بار ناکام ہو گی‘‘ اگرچہ افراتفری اور انتشار پیدا تو مخالفین کرتے ہیں لیکن پائی وہ ہم میں جاتی ہیں کیونکہ یہ انتشار کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈلز کا انکشاف کر کے کیا جاتا ہے اور ہم حیران و پریشان ہوتے رہتے ہیں کہ ہمارے ہوتے ہوئے یہ اتنی بڑی کرپشن ہو کیسے سکتی ہے؛ اگرچہ خاکسار کا ہر بیان نہ صرف یہ کہ کرپشن کے خلاف ہوتا ہے بلکہ اپنا نام بدلنے کی دھمکی بھی ہر بار دیتا ہوں لیکن سکینڈل ہیں کہ کُھمبی کی طرح پھوٹتے ہی رہتے ہیں جو کہ بہت زیادتی ہے۔ سکینڈلز کو ہمارا ہی کچھ خیال کرنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے خواہ مخواہ ہماری پوزیشن خراب ہوتی رہتی ہے جبکہ ہماری اتنی صاف ستھری پوزیشن کا خراب ہو جانا ایک المیے سے کم نہیں ہے جبکہ میں بھائی صاحب کی اور بھائی صاحب میری قسم ہر روز دیتے ہیں اور اب اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام امن چاہتے ہیں‘‘ بلکہ اب تو کچھ عرصے سے ہم بھی امن چاہنے لگے ہیں کیونکہ کچھ مہربانوں نے خلاف وعدہ ہمارے قرب و جوار میں بھی دھماکے وغیرہ شروع کر دیے ہیں حالانکہ رد الفساد اور رینجرز وغیرہ کی تعیناتی کے ہم حق میں ہی نہیں تھے جس کا ان دوستوں نے خواہ مخواہ برا منایا، حالانکہ وہ ہماری مجبوریوں کو سمجھتے ہیں جبکہ ہم بھی ان کی مجبوریوں کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''صاف پانی پروگرام کے لیے لائحہ عمل تیار ہو چکا ہے‘‘ اور ہمیں بے حد افسوس ہے کہ لاہور کے لوگ بھی گٹروں ملا پانی پینے پر مجبور ہیں بلکہ وہ تو اب اس کے پوری طرح عادی ہو چکے ہیں اس لیے شاید اس پروگرام کو منسوخ ہی کرنا پڑے بلکہ اوّل تو یہ دوسرے کئی منصوبوں کی طرح خود ہی توڑ نہیں چڑھے گا اور اگر یہ منصوبہ کامیاب بھی ہو گیا تو یہ مکمل طور پھیکا پانی ہو گا کیونکہ گٹر کے پانی میں تو کئی ذائقے اور بھی شامل ہوتے ہیں جس وجہ سے سنا ہے کہ وہ خاصا زود ہضم بھی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز رکن قومی اسمبلی نجف عباس سیال اور سابق ایم پی اے قیصر امین بٹ سے ملاقات کر رہے تھے۔
فون‘ سینہ زوری اور مکمل شعر
اگلے روز برادرم رئوف کلاسرا کا فون آیا۔ ایک کالم پر مجھے شاباش دے رہے تھے۔ یہ بھی بتایا کہ اب تک کُلیّات جلد پنجم کا نسخہ انہوں نے بازار سے خرید لیا ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے جو لکھا تھا کہ آپ کے حصے کی کتاب میں نے رکھی ہوئی ہے تو آپ نے خریدنے کی زحمت کیوں اٹھائی۔ کہنے لگے آپ جیسے شاعر کی کتاب خرید کر پڑھنا بجائے خود ایک خراج عقیدت ہے۔ اپنے عزیز بھائی اوریا مقبول جان کے ساتھ ڈکیتی کی واردات کا پڑھ کر دکھ ہوا۔ کل والے کالم میں سلیم کوثر کے شعر کا ایک مصرع چھپنے سے رہ گیا تھا‘ مکمل شعر اس طرح سے ہے ؎
یہ یقیں دل میں کچھ اس طرح سے بیدار ہُوا
ٹھیک ہو جائوں گا میں، اس لیے بیمار ہُوا
آج کا مقطع
تمہیں تو رنج نہیں ہونا چاہیے تھا! ظفرؔ
وہ بے وفا نئے گھر میں اگر بہت خوش ہے