سب سے پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ۔ پچھلے سنڈے ایڈیشن میں یہ اطلاع دی گئی کہ ہمارے دوست اور ممتاز نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیّر جن کی حال ہی میں بطور ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈ تعیناتی ہوئی ہے، ان کی سابقہ تعیناتی منسوخ کر دی گئی ہے جبکہ ہمارا خیال تھا کہ وہ ڈیپوٹیشن پر آئے ہیں۔ بعد میں‘ میں نے بھی اس اطلاع پر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے فون پر بتایا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں‘ وہ اپنے سابقہ عہدے سے رخصت لے کر آئے ہیں اور ڈیپوٹیشن پر آئے ہیں۔
تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ سرخاب المعروف کمادی کُکڑ کہیں آوارہ گردی کرنے کے بعد خیر سے واپس آ گئے ہیں جس کا علم صبح صح ان کی نہایت غیر سریلی آواز سے ہوا۔ ابھی چہرہ نمائی کی نوبت نہیں آئی ہے۔ مزید یہ کہ لان میں درختوں کے تنوں کے اردگرد اور کیاریوں میں موسمی پھول لگا دیے گئے ہیں۔ اسے بہار کا باقاعدہ استقبال بھی کہہ سکتے ہیں۔ آج صبح بادل نہیں تھے اس لیے دن روشن اور کھرا کھرا تھا یعنی سورج سے براہ راست رابطہ رہا۔ یہ عیاشی بھی ختم ہونے والی ہے۔ ایک اور وضاحت یا درستی کہ کل والے کالم میں چھپی میری غزل میں ایک شعر کی تکرار ہو گئی جبکہ ایک شعر جو چھپنے سے رہ گیا‘ یہ تھا ؎
تاکہ جاری ہی رہے یہ خوبصورت سا سفر
اس لیے بھی درمیاں میں فاصلہ رہنے دیا
شاعر اور میرے اور افضال نوید کے مشترکہ دوست ناصر علی نے بھی افضال نوید کے اس نئے پینترے پر مایوسی کا اظہار کیا اور بیحد افسوس بھی کہ ایک اچھا بھلا شاعر کس طرف چل کھڑا ہوا ہے، بلکہ اقتدار جاوید تو یہ کہہ رہے تھے کہ آپ نے اپنے پسندیدہ پانچ سات نئے شعراء کی جو فہرست بنا رکھی تھی‘ آج کل ان میں سے ایک بھی اچھا شعر نہیں کہہ رہا۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ شاعر ہمیشہ ہی ایک طرح کی شاعری نہیں کرتا، کچھ وقفے اس پر ایسے بھی آتے ہیں کہ اس عرصے کی شاعری سے اس کے قاری یا فین پہلے جیسی مسرت کشید نہیں کر سکتے اور یہ وقفے مستقل بھی نہیں ہوتے۔ ابھی ابھی شاعر کرامت جعفری کا فون آیا ہے کہ ان کا تبادلہ بطور اکائونٹننٹ جنرل لاہور ہو گیا ہے۔ موصوف کافی عرصہ نظرانداز کئے جاتے رہے اور ان کی پروموشن رکی رہی۔ کراچی کے احوال بتا رہے تھے جہاں سے حال ہی میں وہ ہو کر آئے ہیں۔ بتایا کہ سحر انصاری انجمن ترقی اردو میں آ گئے ہیں۔ خوشی کا اظہار کر رہے تھے کہ شاعر علی شاعر نے اپنی شائع کردہ ''اب تک‘‘ کی پانچویں جلد عنایت کی۔ اس کے علاوہ بزرگ شاعر ساحر لکھنوی کے بارے میں بتایا کہ انہوں نے ان کا تفصیلی انٹرویو کیا ہے۔ نستعلیق شاعر، متعدد کتابوںکے مصنف اور عمر نوے سال سے زیادہ ہے۔ ماشاء اللہ! میری خرابی صحت کا پتا چلا تو پوچھ رہے تھے۔ بتایا گیا کہ اب ٹھیک ہوں۔
ہمارے زندہ لیجنڈ، مستنصر حسین تارڑ پچھلے دنوں علیل رہ کر اب رو بصحت ہیں۔ ان کی دو تازہ تصنیفات ''پیار کا پہلا پنجاب‘‘ اور ''لاہور آوارگی‘‘ موصول ہوئی ہیں‘ ان کا ذکر انشاء اللہ جلد ہو گا۔ اس کے علاوہ تازہ موصولات میں رسالہ ماہ نو کا انتخاب شائع ہوا ہے۔ ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ کی ''سلسلے تکلم کے‘‘ ، عرفان جاوید کی ''دروازے‘‘ اور ''مکالمہ‘‘ کراچی کے دو شمارے اور ''فانوس‘‘ کا تازہ شمارہ۔
احمد مشتاق کے یہ اشعار نیٹ سے موصول ہوئے ہیں:
وہی شخص نہالِ ہستی ہے
وہی دکھ کی دراز دستی ہے
ہوش والوں کو چشم کم سے نہ دیکھ
ہوش تو انتہائے مستی ہے
دل میں بھرتی ہے دھوپ سارا دن
رات بھر چاندنی برستی ہے
ہمہ تن گوش ہے نظر میری
تیری آواز کو ترستی ہے
کیسی ناگن ہے یہ اُداسی بھی
بھری محفل میں آ کے ڈستی ہے
فکرِ خلقِ خدا نہ خوفِ خدا
یہ کہاں کی خدا پرستی ہے
ارے کیوں دُور رہے ہو جنگل سے
یہ کوئی آدمی کی بستی ہے
یہ اشعار جناب ذاکر حسین ضیائی کے ارسال کردہ ہیں جو اکثر اس طرح کی مہربانی کرتے رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ اشعار کی تازہ کتاب اور ''اوراقِ خزانی‘‘ میں سے ہیں۔
اور اب اکبر معصومؔ کی یہ تازہ غزل:
اُس آبِ زرِ معانی سے
ہے دید وضو عُریانی سے
میں دل کے داغ جلاتا ہوں
مُکھ سُورج کی تابانی سے
میں نے دُنیا کو دیکھا ہے
اِن آنکھوں کی حیرانی سے
سارے عالم پر چھلک گیا
میں بھرا ہوا ویرانی سے
اب چیخے یا خاموش رہے
کیا کہے کوئی زندانی سے
لاتا ہوں سُخن پاتال سے میں
لکھتا ہوں کہاں آسانی سے
معصومؔ کہاں تک صبر کروں
میں تنگ ہوں اس سلطانی سے
آج کا مطلع
اتنا نہ سنبھال مال مڈی
اندر ہو‘ چل پڑی ہے گڈی