"ZIC" (space) message & send to 7575

ٹوٹے اور اقتدار جاوید کی تازہ نظم

اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
لفظ پھٹیچر پر اس قدر شورو غوغا بلند کیا جا رہا ہے کہ بڑے بڑے موضوعات پس پشت چلے گئے ہیں‘ احتجاج ہو رہا ہے اور کالم آرائی بھی‘ حالانکہ عمران خان نے وضاحت بھی کر دی ہے کہ لفظ پھٹیچر خود کرکٹ کی اصطلاح ہے۔ لغت میں اس کا مطلب پرانا‘ از کار رفتہ اور فالتو وغیرہ ہے۔ پھر یہ کہ اسے باقاعدہ توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے اور اس کو ویون رچرڈ اور ڈیرین سیمی وغیرہ کے ساتھ منسوب کیا جا رہا ہے حالانکہ اس نے یہ الفاظ ان کرکٹرز کے لیے کہے تھے جو کوئٹہ گلیڈئیٹرز کی ٹیم میں متبادل کے طور پر آئے تھے اور جو کم و بیش سبھی غیر معروف بھی تھے اور میچ میں ان کی کارکردگی بھی صفر کے برابر تھی۔سارے کے سارے غیر ملکی کرکٹرز کے بارے میں یہ الفاظ ادا نہیں کیے گئے تھے اور محض خانہ پری کی گئی تھی ؎
خرد کا نام جنوں رکھ دیا‘ جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے
میلہ بہاراں
اخباری اطلاع کے مطابق 13مارچ کو پنجابی کمپلیکس میں میلہ بہاراں کی افتتاحی تقریب ہو گی۔ بسنت کی مخالفت کرنے والے حضرات کو اس کی بھی مخالفت کرنی چاہیے کیونکہ یہ تو ہر قوم اور دنیا بھر
میں منایا جاتا ہے جن میں ہندو اور یہودی بھی شامل ہیں۔ اگر یہ حکومت کی اجازت سے منعقد کیا جا رہا ہے تو اس پر حکومت کے خلاف تحریک بھی چلائی جا سکتی ہے خاص طور پر پیپلز پارٹی والے ہمارے دوست آج کل فارغ ہیں کیونکہ انہوں نے حکومت کے خلاف اپنی تحریک غیر معینہ عرصہ کے لیے ملتوی کر دی ہے اور شاید اسے بالآخر منسوخ بھی کر دیا جائے کیونکہ زرداری صاحب کی وطن واپسی سے ان دونوں پارٹیوں کے حالات کافی نارمل ہو گئے ہیں، مخالفانہ بیانات کے پھوکے فائر البتہ جاری ہیں۔ مولانا فضل الرحمن جیسے علمائے کرام کو بھی اس کا نوٹس لینا چاہیے کہ حکومت کی عین ناک کے نیچے ہندوئوں اور یہودیوں کے تہوار منائے جا رہے ہیں!
ایکسپریس وے
ایک اطلاع کے مطابق حکومت نے ایلی ویٹڈایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے رقم دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس پر صرف حیرت ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بجائے خود حکومت کے پسندیدہ ترین منصوبوں کی طرح کا ہے جو موٹر وے‘ میٹرو بس اور اورنج لائن وغیرہ کی طرح دور سے نظر آنے والا منصوبہ ہے۔ جہاں تک فنڈز کا تعلق ہے تو حکومت حسب معمول بجلی کے ٹیرف وغیرہ کی مد میں اربوں روپے حاصل کر سکتی ہے کہ لوگ تو ویسے بھی اس کے عادی ہو چکے ہیں اور کوئی احتجاج بھی نہیں کرے گا۔ علاوہ ازیں جنوبی پنجاب وغیرہ کے حصے کا کوئی فنڈ بچ گیا ہو تو اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ تو متوکل لوگ ہیں اور اپنی روایات کو بھی ترک نہیں کرنا چاہتے جس میں اپنی حالت پر شاکر و صابر رہنا بطور خاص شامل ہے۔ مزید برآں قطری شہزادے جو ہر نازک مرحلے پر حکومت کی مشکل دور کرنے پر تیار رہتے ہیں‘ انہیں بھی زحمت دی جا سکتی ہے!
وزیر خارجہ کا تقرر
امیر جماعت اسلامی سینیٹر مولانا سراج الحق نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لیے حکومت وزیر خارجہ کا تقرر کرے۔ موصوف کا تعلق چونکہ کمزور سی اپوزیشن سے ہے اس لیے وہ بھی ایسے الٹے سیدھے مطالبات کرتی رہتی ہے جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے تو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کے ہوتے ہوئے یہ مسئلہ مزید اجاگر کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ان کے نزدیک ملک کا سب سے بڑا مسئلہ عمران خان ہیں۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ وزارت خارجہ کا قلمدان وزیر اعظم نے احتیاطاً اپنے پاس رکھا ہوا ہے کیونکہ وزیر خارجہ امریکہ وغیرہ کے ساتھ خود تھرو ہونے کی کوشش کرتا ہے اور وزیر اعظم کے لیے باعث پریشانی ہو سکتا ہے‘ نیز وہ بھارت کے خلاف بھی کوئی الٹا سیدھا بیان دے کر اُن کی پوزیشن خراب کر سکتا ہے جس سے ان کے دوست مودی صاحب کو شکایت کا موقع مل سکتا ہے، اس لیے انہیں ایسا روگ پالنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
زرتشت کی نسل
بھٹیارنوں کا اُبھرتا ہے بھٹی سے دن
اور وہیں گرم بھٹی کی پاتال میں ڈوب جاتا ہے
بھٹیارنوں کا افق گرم بھٹی کے چوگر د خیمہ فگن ہے
مچلتی ہے جب آگ
بھٹیارنوں کی محبت بھری آرزوئیں دہکتی ہیں
جب لکڑی جلتی ہے
اونچی ممٹی پہ بیٹھی ہوئی
لکڑیوں کی معیت میں جلتی ہیں
ہرمز کی کیسی تمنائیں اُن کو ستاتی ہیں
آتش بڑھاتی ہیں لیکن زمانہ نہیں جانتا ہے
کہ اُٹھتے ہیں بھٹی سے جو تیز شعلے
وہ دل ٹھارتے ہیں
وہ اُن کے شب و روز رنگین کرتے ہیں
اور دل کے نادیدہ کُنجوں تلک
اپنے رستے بناتے ہیں
رستوں پہ پھلدار پودے لگاتے ہیں
بھٹیارنیں جن پہ چلتی ہیں
سیمرغ کے بھیدکو جاننے والیاں
راکھ سے پیدا ہو کر دہکتے ہوئے کوئلوں پر
جوانی کے دن کاٹتی ہیں
اُلٹتی ہیں روشن ستاروں بھرا چھاج
بھٹیارنوں نے
طلا کار چھلی کے دانوں
کو گن گن کے
اپنی دُعائوں کا مرکز بنایا ہوا ہے
زمانوں سے زرتشت کی نسل کا
کیسے آتش کدہ جگمگایا ہوا ہے
آج کا مطلع
یہ میری اپنی ہمت ہے جو میں دُنیا میں رہتا ہوں
مگرمچھ سے نہیں بنتی مگر دریا میں رہتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں